قوم کے تنزّل کے چند اہم اسباب میں سے ایک قوم کے معمار محبانِ وطن کو اپنے ذہنوں میں سے نکالنا ہی نہیں بلکہ ان کے آثار کو بھی مٹانا ہے ۔ واہ چھاؤنی سے معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے نام لکھا ہوا محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ پڑھنے کے بعد میں کافی دیر سوچتا رہا کہ ہماری قوم اب مزید کونسی گہرئیوں میں کودنے کی متمنی ہے ؟
اس خط میں تین محبانِ وطن کا ذکر ہے جن کے نام تو احسان فراموش قوم نے بھُلا ہی دیئے تھے اب اُن کی کارگذاریوں کے رہے سہے نشان بھی مٹائے جا رہے ہیں ۔ میر لائق علی ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ اور محمد اُمراؤ خان ۔ میر لائق علی صاحب سے میرے والد صاحب واقفیت رکھتے تھے کیونکہ ہمارا خاندان حیدرآباد دکن میں کئی سال رہائش پذير رہا اور میرے دادا کے نظام حيدرآباد سے مراسم تھے
ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب کے متعلق میں نے اُس وقت جانا جب یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی ۔ جن انجنیئر صاحبان نے ان کے ساتھ کام کیا تھا اتفاق سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات بن گئے تھے ۔
چیئرمین پی او ایف بورڈ میجر جنرل ریٹارڈ محمد امراؤ خان صاحب کے ساتھ میں نے جنوری 1964ء سے ان کے پی او ایف چھوڑنے تک بطور ٹیکنکل سیکرٹری برائے جرمن رائفل جی تھری اور جرمن مشین گن ایم جی فورٹی ٹو کام کیا ۔ اس اسلحہ کی پیداواری نشو و نما کی منصوبہ بندی کیلئے میرا انتخاب اُنہوں نے ہی کیا تھا ۔ واہ اور گرد و نواح میں جدید اسلحہ ساز فیکٹریاں محمد امراؤ خان صاحب کی سوچ کا نتیجہ ہیں
محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ
“یاران وطن تاریخ سے محبان وطن کا نام مٹانے کا کام شروع کر چکے ہیں ۔ ایک صاحب میر لائق علی تھے ۔ مرحوم حیدر آباد کے آخری وزیراعظم نے قیام پاکستان کے موقع پر نظام حیدر آباد سے سفارش کر کے بیس کروڑ روپے کی رقم مشکل میں گرفتار حکومتِ پاکستان کو ٹرانسفر کر دی تھی ۔ حیدر آباد کی آزادی کی تحریک کے لئے خفیہ ذرائع سے تھوڑے بہت اسلحہ کا بندوبست کیا ۔ قائداعظم کی علالت کے آخری دنوں میں کسی نہ کسی طرح پاکستان آئے مگر ملاقات ممکن نہ تھی ۔ اس سے اگلے ہفتے اس شخصیت [قائداعظم] کا انتقال ہوگیا اور اس کی یوم وفات پر انڈیا نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ۔ میر لائق علی سمجھ دار آدمی تھا ۔ حیدر آباد کی حکومت کا کافی روپیہ بذریعہ ہائی کمیشن لندن میں جمع کروا دیا ۔ اپنی ذاتی دولت بھی اسی طرح محفوظ کر لی۔ آپ کا انڈسٹری کا بہت تجربہ تھا ۔ سقوط حیدر آباد پر ہندوستان نے آپ کو قید میں ڈال دیا کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے ۔ یہاں آپ کو اعزازی مشیر صنعت کاری مقرر کیا گیا ۔ اسی ناطے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے Consultant بھی تھے۔آپ صرف ایک روپیہ تنخواہ پاتے تھے۔ یہاں انگریز ایڈوائزر (نیوٹن بوتھ) سے نہ بنی تو اس وقت کے ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا نے آپ کو فیکٹری کے معاملات سے الگ کر دیا ۔ آپ نے واہ فیکٹری بہبود (ویلفیئر) کے لئے خطیر رقم مرحمت فرمائی ۔ اسی وجہ سے واہ کینٹ کا ایک بڑا چوک آپ کے نام سے موسوم تھا [لائق علی چوک]۔ اب 60 سال کے بعد اس چوک کا نام تبدیل کردیا گیا ہے ۔ (تُفو بر تو اے چرخ…)
میر لائق علی کے ساتھ ہی ایک جیّد سائنس دان ماہر اسلحہ ساز، عظیم محبِ وطن ڈاکٹر عبدالحفیظ (1883-1964) (آف لاہور) کی جلا وطنی انگریزوں کے چلے جانے کی وجہ سے ختم ہوئی ۔ آپ ایک بین الاقوامی شخصیت تھے ۔ ترکیہ، افغانستان کے علاوہ جرمنی، آسٹریا، انگلستان وغیرہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ امیر امان اللہ خان کے کہنے پر افغانستان میں اسلحہ ساز فیکٹری بنانے کی کوشش کی جو بوجوہ انگریزوں نے ناکام بنادی ۔ کمال اتاترک کے ذاتی دوست تھے انقرہ میں مصطفٰی کمال کے مقبرہ پر ایک البم میں اتاترک کے ساتھ آپ کی تصویر بھی دیکھی ۔ کری کالے کی بارود فیکٹری میں کام کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں آسٹریلیا کے اسلحہ ساز اداروں میں سامان تیار کرواتے اور ترکیہ بھجواتے تھے اور بھی ان کے بہت کارنامے ہیں ۔ کاش آپ جیسا کوئی محقق اس طرح کی شخصیات کی زندگیوں پر ریسرچ کرے ۔ دس سال واہ فیکٹری کے انگریز اور انگریز پرست افسروں کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر لاہور چلے گئے
ایسے ہی ایک سابق چیئرمین پی او ایف میجر جنرل محمد امراؤ خان بھی تھے ۔ آپ نے فیکٹری کے اندر اور باہر بہت کام کیا انگریز ایڈوائزروں سے پیچھا چھڑایا اور 160انگریز افسروں کو گھر بھیجا جس کے بعد فیکٹری صحیح معنوں میں Nationalize ہوئی ایک نیا موڑ آیا فرسودہ ہتھیاروں کی بجائے جدید مشینری سے آٹو میٹک رائفل اور مشین گن بنانے کا عمل شروع ہوا۔جدید اقسام کے بارود بننے لگے جس سے بھاری توپوں کے گولے بنانے ممکن ہوئے اور ڈائنامیٹ کا کارخانہ سویڈن کے اشتراک سے قائم ہوا۔ ”بستی کاریگر“ (آج کل اسے لالہ رخ کہتے ہیں) کی لاجواب رہائشی کالونی بنوائی جس میں فیکٹری ملازمین کو ارزاں نرخ پر مکانات مہیا ہوئے ۔ یہ تو نمونہ “مشتے از خروارے” ہے المیہ یہ ہے کہ جنرل امراؤ کا لگایا ہوا سنگ بنیاد جو اسی بستی کے چوک میں نصب تھا وہ بھی اکھاڑ پھینکا گیا جیساکہ میر لائق علی چوک کا حشر کیا گیا ۔ جو ”نقش وفا“ تم کو نظر آئے مٹا دو
آپ کی بات درست ہے جو لوگ اپنے معماروں کو بھول جاتی ہے اس کی عمارت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔
اچھی اگاہی ہے،ایسی تحریرسے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لیے کس کس نے کتنی کتنی قربانیاں دیں اورکتنی محنت کی ۔ مگرحالات حاضرہ پر نظر ڈالیں اور مستقبل کی طرف دیکھیں تو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے۔ کیا کیسی کے پاس ڈاکوں، لٹیروں، دہشت گردوں، بھتہ گیروں، رشوت خوروں، لینڈ مافیا، قرضے معاف کروانے والوں، ملک کی دولت لوٹ کر راتوں رات امیر بنے والوں، ذخیرہ خیروں، بڑے بڑے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمائیداروں سے نجات کا کوئی راستہ ہے۔
نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائے گا تو اسکا بھی باپ آجائے گا۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو ۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری حشمت صاحب
کیا آپ کا بھی لندن جانے کا ارادہ ہے؟ وہاں سے آپکی خدمات پر کوئی اہم زمہ داری تو نہیں دی جارہی؟
احمد صاحب۔
لندن والے نہ تے میرے چاچے ہیں نہ مامے، اگراچھائی دشمنوں میں بھی ہوتومیں اسکی تعریف اور برائی پر تنقید کرتا ہوں ، ویسے لندن والوں نے آپکی کون سی منجھ چورائی ہے۔
حشمت صاحب پیلی بات تو یہ کہ آپ کے انداز سے لگتا ہے کہ ہم پنجابی ہیں اسی لیئے بےہودہ انداز اپنایا ہے ۔ یہ خبیث خیال دل سے نکال دیں کہ سب اردو بولنے والے الطاف کو لعنتی نہیں کہتے
اچھی خاصی تعداد تو صرف جماعتیوں کی ایک مثال ہیںجو اردو بولنے والے ہیں
ظالموں کہ دوسرے اپنے جیسوں کا ظلم اچھے ھی لگتے ہیں انسان اپنی صحبت سے پیچانا جاتا ہے