ایک تاجر اپنی محنت سے کامیاب ہوا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دلچسپ ترکیب نکالی ۔ اُس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی اسلئے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ سب کو ایک ایک بِیج دوں گا ۔ اسے بَونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا”
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا
ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب خوبصورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا وہ خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے”۔ اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اُگا”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا
چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی ۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانتداری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیئے تھے جو اُگ نہیں سکتے ۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیئے”
اے بندے ۔ مت بھول کہ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا تو پیدا کرنے والا دیکھ رہا ہوتا اسلئے دیانت کا دامن نہ چھوڑ
ایسی مزے کی باتیں بچپن میں سنا کرتے تھے، سبق آموز باتیں، پہیلیاں، پر تجسس قصے۔
جزاك الله.ان بريد اليوم هذا قد درسنا الأمانة و الصدق في حياتنا. وذكرت ببريد اليوم ما حدث بين عمر بن الخطاب و راع من القصة. ان كانت اللغة الأردية في جوالي فساكتب نبذة منها.جزاك الله و السلام عليك و رحمة الله.
تفصيلها في اللغة الأردية في ‘اصلاحي خطبات’ للشيخ محمد تقي العثماني حفظه الله/ المجلد التاسع/ المطبع الهندي.
سیّد محمد سعيد البالنبوري
شکراً ۔و جزاک اللہ خیرٌ
دیانتدار انسان ہمیشہ ہر معاملے میں کامیاب رہتا ہے۔۔۔اجمل چاء آپ کی یہ پوسٹ بہت اچھی لگی۔
امن ایمان
ارے بھتیجی ۔ آپ جاگ اُٹھیں ۔ گھر میں ماشاء اللہ سب خیریت ہو گی
بیکسٹرز کوئی دیانت دار نہیں، اسکے باوجود پوری دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔ یہ سب پچھلوں کے قصے ہیں۔
عارف کریم صاحب
میں نے سمجھ اور دیانت کی بات کی ہے ۔ حکومت کی یا اجارہ داری کی نہیں ۔ ویسے بہت پرانے وقتوں میں قارون بھی تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھی
جی چاء اللہ کاشکر ہے۔۔۔میری بیٹی اب مجھے کسی اور جگہ دیکھنے کا وقت نہیں دیتی۔۔۔: )
بچپن میں یہ کہانی اکثر سنی ہے، مگر آج بھی اس کہانی کی افادیت اتنی ہی ہے جتنی تب تھی۔ ۔ ۔ انشااللہ کوشش کروں گا کہ آپکی باقی تحاریر بھی پڑھ سکوں۔ ۔ ۔
حارث گلزار صاحب
تشریف آوری کا شکریہ ۔ مجھے یاد نہیں میں نے کب یہ کہانی پڑھی تھی ۔ میں نے اُس کہانی میں اپنے ماحول کے مطابق تبدیلی کر کے لکھی ہے