اصطلاح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب
گلابی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پنجابی ملی اُردو
گلابی انگریزی ۔ ۔ ۔ اُردو یا پنجابی ملی انگریزی
گلابی پنجابی ۔ ۔ ۔۔ اُردو ملی پنجابی
رَوزی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی اُردو
رَوزی پنجابی ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی پنجابی
یہ وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے بچپن اور جوانی کے زمانہ میں مستعمل تھیں
ہم بہن بھائيوں میں سب سے بڑی دو بہنیں ہیں پھر میں ہوں ۔ بڑی بہن نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی سے جون 1955ء میں ایم بی بی ایس پاس کیا تھا ۔ میں جب دسویں میں تھا تو میرا گلا خراب رہنے لگا ۔ مارچ 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی کا دسویں کا امتحان دے چکا تو حُکم ملا کہ لاہور پہنچو تا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جائے ۔ میں لاہور پہنچا تو جن عزیزوں کے ہاں میں نے ٹھہرنا تھا اُنہیں اتفاقاً لاہور سے باہر جانا پڑ گیا ۔ باجی نے اپنے ہوسٹل کی مُہتمم ڈاکٹر صاحبہ سے اجازت مانگی کہ مجھے ایک رات ہوسٹل میں سونے دیا جائے ۔ پھاٹک سے داخل ہوں تو کوئی 50 فٹ دُور ہوسٹل کے ملازمین کے کمرے تھے اور اُن کے پيچھے ہوسٹل تھا ۔ اجازت یہ ملی کہ میں پھاٹک کے قریب میدان میں سو جاؤں ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ مجھے ایک چارپائی دے دی گئی
میں صبح سویرے اُٹھ گیا ۔ سات بجے ہوں گے کہ ایک آواز آئی “جورج وے جورج” [جارج او جارج]
پانچ سات منٹ بعد پھر آواز آئی مگر بلند “جورج وے جورج ۔ گٹُک پَو وے سَن رَیز ہو گیا ای” [جارج او جارج ۔ اُٹھ جاؤ ۔ سورج چڑھ گیا ہے]
میرے اور سرونٹ کوارٹرز کے درمیان ایک چارپائی پر ایک اٹھارہ بیس سالہ لڑکا آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ بیٹھا اور یہ کہہ کر پھر سو گیا “ہے ما ۔ کِتھے رَیز ہَویا اے ۔ ہالی تے ڈَین اے” [ماں ۔ کہاں چڑھا ہے ۔ ابھی تو نیچے ہے]
میں نے گیارہویں اور بارہویں جماعتیں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھیں ۔ کالج میں ایک سالانہ فنکشن ہوتا تھا جس میں مزاح بھی ہوتا تھا ۔ گیارہویں جماعت آرٹس کی کلاس میں چند لڑکے کافی فنکار تھے ۔ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک چھوٹا سا ڈرامہ کرنا ہے اور ایک گانا گلابی انگریزی میں گانا ہے ۔ سب نے گھیر گھار کے مشکل میر ےگلے ڈال دی ۔ زور آزمائی کرنے کے بعد یہ گانا تیار ہوا
mid mid night میں window وِچ standing آں ۔ window وِچ standing آں
your memory وچ tears دے garland پئی پرونی آں ۔ garlend پئی پرونی آں
Also بھرنیاں cold cold سآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
Tomorrow tomorrow کردا سیں tomorrow your آئی نہ ۔ tomorrow yourآئی نہ
Love والی candle my heart وِچ جگائی نہ ۔ heart وِچ جلائی نہ
میں تے burn کے ہوئی آں سوآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
اصل گانا یہ تھا
ادھی ادھی راتیں میں باری وِچ کھلونی آں ۔ باری وِچ کھلونی آں
تیری یاد وِچ ہنجُواں دے ہار پئی پرونی آں ۔ ہار پئی پرونی آں
نالے بھرنیاں ٹھنڈے ٹھنڈے سآ آ آ
ایہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
کل کل کردا سَیں کل تیری آئی نہ ۔ کل تیری آئی نہ
پیار والی جوت میرے دل وِچ جگائی نہ ۔ دل وِچ جگائی نہ
میں تے سڑ کے تے ہوئی آں سوآآ آ
ايہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
سر جی کیا بات ہے آپ تو ہاتھ دھوئے بغیر پنجابی کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔
یہ میرے بچپن کا تو نہیں البتہ یونیورسٹی کا زمانہ تھا جس میں، میں گلابی اردو کی اصطلاح سے واقف ہوئ۔ اور مجھے بتایا گیا کہ گلابی اردو، دکنی یا پوربی اردو کو یا ہندی آمیز اردو کو کہتے ہیں جیسی کہ امیر خسرو کی شاعری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اور جدید شعراء میں جیسے پرتو روہیلہ۔ امیر خسرو کے ایک مشہور گیت کا ایک بند حاضر ہے۔
جھولا کن نے ڈالا رے ہمریاں
اک سکھی جھولے، دوجی جھلائے
چاروں مل گئیاں، بھول بھلئیاں
جھولا کن نے ڈآالا رے ہمریاں
ویسےآپکی پنجابی سے محبت قابل تعریف ہے۔
عنیقہ صاحب
سیدھی سی بات ہے محبت ہو نا ہو نفرت نہ ہو تو آدمی جہاں رہ رہا ہو وہاں کی زبان سیکھ ہی لیتا ہے ۔ مجھے سب سے زیادہ اُردو سے محبت ہے ۔ میں نے ہر علاقائی زبان سیکھنے کی کوشش کی ۔ راولپنڈی میں رہنے کی وجہ سے پنجابی ۔ پوٹھوہاری اور پہاڑی سیکھی ۔ پختون دوستوں سے تھوڑی بہت پشتو اور بنگالی دوستوں سے تھوڑی سی بنگالی سیکھی ۔ سندھی دوستوں سے سندھی یا براہوی سیکھنے کی کوشش کی ۔ کشمیری بچپن میں کچھ آتی تھی مگر بھول گئی ۔ اب کچھ سمجھ لیتا ہوں مگر بولنے میں مشکل ہوتی ہے ۔ غیرملکی زبانوں میں فارسی اور انگریزی سکول کالج میں سیکھی ۔ عملی زندگی میں جرمن اور عربی سیکھی ۔ دو جماعت پاس ہوں اسلئے نام پیدا نہ کر سکا ۔
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
“جورج وے جورج ۔ گٹُک پَو وے سَن رَیز ہو گیا ای” نے مزہ دے دیا ۔ اسی طرح کی انگریزی نما پنجابی انگلینڈ وغیرہ میں ہماری کچھ مائیں بہنیں بولتی ہیں اور داد پاتی ہیں ۔
ویسے پاکستان میں آپ کسی اچھے تعلیم پافتہ شخص سے شرط لگائیں کہ وہ صرف پانچ منٹ بولے اور اس میں انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہ کرے ۔ 90 فیصد امکانات آپ کے جیتنے کے ہیں ۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ نے درست کہا ۔ ویسے میں ایسے مقابلے کئی بار جیت چکا ہوں ۔ میں اللہ کے فضل سے 30 منٹ خالص اُردو متواتر بول سکتا ہوں اور کئی اُردو دانوں کو ہرا چکا ہوں
السلام علیکم۔
کم از کم پانچ دقیقے تو میں بھی بغیر انگریزی کا سہارا لیے اردو بول سکتا ہوں۔ آدھے گھنٹے کی خبر نہیں کیونکہ کبھی اپنے بولنے کا اتنا بغور جائزہ نہیں لیا۔
اجمل بھای مزا آ گیا۔ ویسے ھمارےلوگوں میں یہ زیادہ مشہور ھے
“نی مس بھاگاں گوڈے گوڈے ڈے آ گیا نی چورچ نئیوں جانا”
اور پھر وہ مشھور گانا جو ھر کس و نا کس کی زبان پر تھا ان دنوں—
اینھاں تاریاں توں پچھ چن وے
مگر جو گلابی ترجمہ کیا گیا ماشا اللہ بہت اچھا رھا اب آپ سے سننے کے لیے پاکستان آنا پڑے گا