تیرہ چودہ سال گذرے میں سابق وائس چانسلر این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کسی کا ٹیلیفون آيا اور وہ بات کرنے لگ گئے ۔ ایک بات اُنہوں نے ایسی کہی کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ ٹیلیفون بند کرنے کے بعد سومرو صاحب بولے “آپ تو کہتے تھے کہ سندھی نہیں آتی ۔ میں سندھی میں بات کر رہا تھا اور آپ بالکل درست ہنسے”۔ میں نے کہا “آپ 70 فیصد پُرانی پنجابی بول رہے تھے”۔ سومرو صاحب تو حیران ہوئے ہی مجھ پر بھُوت سوار ہو گیا کہ پنجابی اور سندھی کا رشتہ معلوم کروں جس کیلئے ان کا ماخذ معلوم کرنا ضروری تھا
دورِ حاضر میں تو سب علاقوں کی زبانیں بدل چکی ہیں ۔ نہ اُردو اُردو رہی ہے اور نہ پنجابی پنجابی ۔ ان میں انگریزی ضرورت سے زیادہ شامل کر لی گئی ہے اور کچھ الفاظ تروڑ مروڑ اور غلط اِملا کا شکار ہو گئے ہیں [جس طرح طالب کی جمع طلباء ہے جسے طلبہ لکھا جا رہا ہے]۔ جواز بتایا جاتا ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لیتی ہیں ۔ بیان تو درست ہے مگر زندہ زبانیں اپنے اندر دوسری زبانوں کے وہ الفاظ داخل کرتی ہیں جو ان زبانوں میں موجود نہیں ہوتے ۔ ہماری قوم نے تو اچھے بھلے الفاظ کی موجودگی میں انگریزی کو فخریہ ترجیح دے رکھی ہے ۔ چچا ماموں خالو پھوپھا سب کو اَنکل [uncle] سڑک کو روڈ [road] غسلخانہ کو باتھ روم [Bathroom] باورچی خانہ کو کِچن [Kitchen] بستر کو بَیڈ [Bed] کہنے سے پنجابی یا اُردو میں میں کونسی خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے ؟ کتنا پیارا اور شیریں لفظ ہے امّی جس کو ممی [Mammy] مامی [Mommy] بنا دیا ۔ ممی [Mummy] مُردے کو بھی کہتے ہیں ۔ خیر اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں
پنجابی زبان کی ہئیت بدل جانے کے باوجود سندھ اور پوٹھوہار میں ابھی بھی کچھ قدرِ مشترک ہے جیسے سندھ میں پگاڑا کا پگاڑو اور کھوسہ کا کھوسو ہو جاتا ہے ایسے ہی پوٹھوہار میں ہے ۔ جس طرح ہند و پاکستان کے ہر ضلع میں فرق فرق اُردو بولی جاتی تھی اسی طرح پنجابی بھی پنجاب کے ہر ضلع میں فرق فرق تھی اور شاید ہے بھی ۔ لیکن اگر کسی نے چار دہائیاں قبل یا اُس سے بھی پہلے ایبٹ آباد بلکہ مانسہرہ سے تھٹہ تک کا سفر کیا ہوتا تو وہ کہتا کہ راستہ میں زبان پوٹھوہاری سے سندھی میں بتدریج اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ زیادہ محسوس نہیں ہوتا
پنجابی کے نام سے دورِ حاضر میں جو زبان بولی جاتی ہے دراصل یہ فارسی ۔ عربی ۔ انگریزی اورسنسکرت کا ملغوبہ ہے ۔ جس زبان کا نام انگریزوں نے پنجابی رکھا وہ اس سے قبل گورمُکھی کہلاتی تھی ۔ دراصل گورمُکھی بھی کوئی زبان نہ تھی ۔ گورمُکھی کا مطلب ہے گورو کے منہ سے نکلی بات ۔ کیونکہ اس زبان میں گورو کے ارشادات رقم کئے گئے تھے اسلئے اس کا نام گورمُکھی رکھ دیا گیا تھا ۔ یہ زبان حقیقت میں براہمی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ براہمی چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ براہمی سے سنسکرت نے بھی جنم لیا ۔ یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی ۔ یہی زبان جسے بعد میں پنجابی کا نام دیا گیا اُردو زبان کی بنیاد بھی بنی ۔ یہاں تک کہ اُنیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں جو اُردو یا ہندی بولی جاتی رہی وہ اُس زبان کے اکثر الفاظ پر مشتمل تھی جو پنجابی کہلائی ۔ اُردو چونکہ ہند کی زبان تھی اسلئے اسے ہندی بھی کہا جاتا تھا ۔ ہندوستان کا لفظ ہند کو اپنے سے منسوب کرنے کیلئے ہندوؤں نے ایجاد کیا تھا
مولوی محمد مسلم صاحب کا مجموعہ کلام “گلزارِ آدم” جو 1230ھ یعنی 1829ء میں لکھا گیا میں سے ایک اُردو کا شعر
اِک دِن دِل وِچ گُذریا ۔ میرے اِہ خیال
ہندی وِچ پیغمبراں دا کُجھ آکھاں میں حال
مندرجہ بالا شعر کو اگر دورِ حاضر کی اُردو میں لکھا جائے تو کچھ یوں ہو گا
ایک دن دل میں آیا ميرے یہ خیال
اُردو میں پیغمبروں کا کُچھ کہوں میں حال
پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو
ہَور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجُوں تک ۔ ۔۔ ۔ ابھی تک
بھار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ باہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کِدھن ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کس سمت میں
کُوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ دِستے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نظر آتے
کنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُنج ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ مجھ
نال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ساتھ
اُوپر دیئے گئے پرانی اُردو کے الفاظ اُن الفاظ میں سے چند ہیں جو کہ شمال مغربی ہند [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ سندھ ۔ پنجاب اور گرد و نواح] میں بولی جانے والی زبان سے اُردو میں شامل ہوئے ۔ اِن الفاظ میں سے اکثر اب بھی پنجابی میں بولے جاتے ہیں ۔ حیدر آبادی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُن کی وساطت سے مندرجہ بالا شعر اور الفاظ تک میری رسائی ہوئی
اچھی تحقیق ہے!
عارف کریم صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
چچا اس تحقیق سے پنجابی حضرات بھڑک اٹھیں گے.. ذرا ہولا ہتھ رکھیا کرو.. :D
ہور نی تو :P :P :P
بہت اعلٰیٰ تحریر ہے
ناصرف کہ زبانوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ساتھ ہی لوگوں کے درمیان پائے جانے والے زبان کی بنیاد پر تعصب اور اونچ نیچ کا قلمع قلع ہوتا ہے
اگر دیکھا جائے تو سب زبانیں اس علاقے کی ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں تو حسد اور تعصب کیسا؟
اردو بہت اعلیٰ زبان ہے اسکی حفاظت کرنی ہوگی ایسا ادب اور شیرینی تو ہم کو یورپ کی کسی زبان میں نہیں ملی
پنجابی زبان کو اردو کی ماں کہا جاتا ہے ، مگر وہاں کے لوگوں نے گالی گلوچ کو بول چال کا حصہ بنا کر پنجابی کی بے توقیری کی، اردو جاننے والے کچھ نہ کچھ پنجابی جان ھی لیتے ہیں اور سندھی بھی۔
ایک اچھی تحریر جس کے فائدے کی آجکل کے وقت میں اور بھی زیادہ ضرورت ہے
افتحار صاحب، شکریہ اس مفید معلومات کے لیے
مکی صاحب، میں پنجابی ہوں اور نہیںبھڑکا
بے شک ہتھ بھارا کر لو۔۔۔۔۔۔۔
مکی صاحب
پنجابیوں کے خلاف تو میں نے کچھ نہیں لکھا ۔ بھڑکیں گے کیوں ۔ ویسے خدشہ تھا کہ آپ کے شہر کے کچھ لوگ بھڑک نہ اُٹھیں
فرحان دانش صاحب
“ہور نئیں تے” ہوتا ہے یا پھر “اور نہیں تو”۔
احمد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
یاسر عمران صاحب
جزاک اللہ خیرٌ
کافی معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے۔اور میں تو بالکل نہیں بھڑکا۔
اوہ! ۔۔۔۔۔۔۔پھُو! پھُو! آؤچ!!!!!
پنجابی تو نہيں البتہ ملک کا برہمن طبقہ سندھی و سرحدی نہ بھڑک اٹھيں کہ ہماری زبان کو کيوں ملايا ُان` کی زبان کے ساتھ
بہت ہی مفید اور عمدہ تحقیق ہے۔
کافی عرصہ پہلے ہماری ایک دوست سے زبان اور بولی کے فرق پر بحث ہوئی۔ دوست کا موقف تھا کہ جس کے مخصوص حروف تہجی ہوں وہ زبان ہوتی ہے، اس لحاظ سے اردو کے علاوہ سندھی اور پشتو تو زبان ہوئیں، مگر پنجابی اور بلوچی کو زبان کہنا درست نہیں کیوں کہ یہ درحقیقت صرف بول چال میں استعمال ہوتی ہیں لہٰذا اسے بولی ہی کی فہرست میں رکھا جانا چاہیے۔ اس وقت سے ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہیں کہ گر پنجابی زبان نہیں، تو پھر اردو اور انگریزی کی طرح پنجابی زبان میں BAاور MA وغیرہ کی ڈگریاں کیسے اور کیوں کر دی جاتی ہیں؟
واہ جی واہ کیا تحقیق ہے محنت خوب کی آُ نے اسکی قدر کرتے ہیں مگر اس بات پر مجھے سخت اعتراض ہے کہ پنجابی کوئی زبان نہیں اگر پنجابی کوئی زبان نہیں تو آج کل کی اردو بھی کوئی اردو زبان نہیں اگر کوئی زبانیں اپنی اصلی حالت میں ہیں تو وہ سندھی پنجابی بلوچی پشتو وغیرہ ہیں۔۔۔معزرت کے ساتھ
پنجابی کو معمولی زبان سمجھنے والے زرہ اس سائیڈ کا وزٹ کر لیتے تو انکا علم اور بڑھ جاتا پنجابی کا پنجابی سے پوچھیں حیدرآبادی کو کیا معلوم ۔
http://www.apnaorg.com/
برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین زبان سنسکرت ہے۔ اسی سے یہاں کی باقی زبانوں نے وجود لیا۔ مجھے نہیں معلوم آپ نے زبان کے بننے کےوقت کے بہاءو میں کہاں سے لینا شروع کیا ہے کیونکہ اس ساری تحریر کے ساتھ کوئ مستند حوالہ نہیں۔ الفاظ کی جو فہرست آپ نے دی ہے اس سے کہیں زیادہ الفاظ اردو میں سنسکرت، فارسی اور عربی سے آئے ہیں۔ تو یہ کیوں نہ کہا جائے کہ اردو نے سنسکرت سے یا فارسی سے یا عربی سے جنم لیا جبکہ یہ زبانیں دنیا کی پرانی زبانوں میں شمار ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسے مستند بننے کے لئیے مستند حوالوں کی ضرورت ہے۔ اردو کی تخلیق ایک متنازعہ موضوع ہے مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جب تحقیقدانوں کی ایک بڑی تعداد محض اپنے اندازے ظاہر کرتی ہے۔ آپ یا کوئ اور یہ بات اتنے وچوق سے کیسے کہہ رہا ہے۔
آپکی اس بات سے بھی مجھے اتفاق نہیں کہ زبانیں دوسری زبانوں سے وہی الفاط لیتی ہیں جو انکی زبان میں نہیں موجود ہوتے۔ عربی زبان میں تلوار کے لئیے بہتۃر الفاظ ہیں۔ جبکہ ضرورت ایک ہی لفظ سے پوری ہوجاتی ہے تو اتنے الفاظ کیوں ہوتے ہیں۔ اسی طرح انگریزی جو اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ زبان کہی جا سکتی ہے اس نے اپنی ابتداء میں اور ابھی بھی کئ الفاظ مختلف زبانوں سے لیے ہیں اور لے رہی ہے۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ انگریزی کے اوپر مختلف علاقوں میں انکی زبانوں کا اتنا اثر ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بولی جانیوالی انگریزی، امریکہ میں بولی جانیوالی انگریزی سے مختلف ہے اور امریکہ والی برطانیہ سے اور برطانیہ والی آسٹریلیا سے۔ تو اس طرح سے یہ محض ضرورت نہیں اور بھی عوامل ہیں جو زبان کے بہاءو میں شامل ہوتے ہیں۔
امی کو ممی تو ابو کو ڈیڈ بھی تو کہتے ہیں۔ :P
اسماء صاحبہ
نہیں ۔ سندھی اور سرحدی نہیں بھڑکیں گے ۔ بھڑکتے صرف وہ ہیں جو کم عِلم ہوتے ہیں یا سُرخ مرچ زیادہ کھاتے ہیں ۔ سیاست ایک طرف سندھی اور سرحدی اچھے لوگ ہیں ۔ میرے اچھے دوستوں میں پاکستان کے سب علاقوں کے لوگ رہے ہيں ۔ بالکل بھائیوں جیسے
محمد سعد صاحب
آپ کے دوست نے لسانیات کا گہرا مطالعہ نہیں کیا ۔ ہر زبان پہلے بولی ہوتی ہے پھر زبان بنتی ہے ۔ وسط اُنیسویں صدی عیسوی تک اُردو بھی بولی تھی ۔ جس زبان کو پہلے گورمُکھی اور پھر پنجابی کا نام دیا گیا وہ اُردو سے پہلے زبان بن چکی تھی ۔ اسے پہلے براہمی مین لکھا جاتا تھا شاید بیسویں صدی مین اسے فارسی رسم الخط میں لکھنا شروع کیا گیا جو اُردو کا بھی رسم الخط ہے
کامران صاحب
آپ بھولے بادشاہ ہیں ۔ میاں ۔ وہ تو ذومعنی عنوان ہے ۔ میں نے نفسِ مضمون میں کہاں لکھا ہے کہ پنجابی کوئی زبان نہیں ؟
کامران صاحب
حیدرآبادی صاحب کا کیا قصور ؟ ان سے میں نے اُردو کی تاریخ پوچھی تھی ۔ اور اس میں سے مین نے صرف ایک شعر اور چند الفاط نقل کئے ۔ اسلئے شکریہ ادا کرنا ضروری تھا ۔ میرے مضمون کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے
عنیقہ ناز صاحبہ
آپ فوری طور پر فیصلہ کر کے لڑنے پر تُل جاتی ہیں ۔ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ سنسکرت ہند کی سب سے پرانی زبان ہے ؟ براہمی سنسکرت سے زیادہ پرانی ہے جس سے لفظ براہمن بھی بنا ۔ براہمی ہند کے بیشتر حصہ میں بولی جاتی تھی یعنی جنوب میں حيدر آباد سے شمال کے پہاڑوں تک اور مشرق میں بہار سے لے گجرات کاٹھیاواڑ تک ۔ میں نے تمام علاقہ کو شامل اسلئے نہیں کیا تھا کہ میں بات پنجابی کے حوالہ سے کر رہا تھا ۔ سنسکرت اگر پرانی زبان تھی تو آپ بتایئے کہ ہند کے کتنے علاقہ میں کتنا عرصہ بولی جاتی رہی ؟ اس کے مقابلہ میں براہمی آج بھی زندہ ہے گو کہ کافی تبدیل ہو چکی ہے ۔ آپ کا استدلال کہ عربی میں تلوار کے تہتر نام ہیں اس لئے وہ دوسری زبانوں سے لئے گئے نہائت بچگانہ ہے ۔ پرانی زبانوں کا طُرّہ امتیاز یہی تھا کہ ان میں ایک ہی بات کئی طریقوں سے کہی جا سکتی تھی ۔ باقی باتیں جو آپ نے لکھی ہیں میرے پاس اُن کا جواب ہے مگر ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہے ۔ آپ نے کون سا مان لینا ہے اور نہ آپ کو منانا مجھ پر فرض ہے ۔ مجھ سے حوالے مانگنے کی بجائے آپ خود مطالعہ کیوں نہیں کرتیں ؟ میں نے کبھی کسی سے اس طرح حوالہ نہیں مانگا البتہ اپنے مطالعہ کی خاطر حوالے مانگتا رہتا ہوں
ماوراء صاحب
آپ کو اس بات پر ہنسی آئی ہے اور میں اس پر رو رہا ہوں ۔ البتہ میں خوش ہوں کہ آپ لمبا عرصہ گوشہ نشین رہنے کے بعد ظاہر ہوئی ہیں
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
مگر اس کا کیا کیجے کہ پنجابیوں نے اپنی پنجابی سے اب اپنا رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ ذرا کسی پنجابی ٹی وی چینل کو سنیں تو لگتا ہے کہ اردو چینل سن رہے پی ہیں۔ بہت کم ادیب پنجابی میں لکھ رہے ہیں۔ فارسی سے ہم کٹ گیے۔ پنجابی احساس کمتری کی نذر ہو گیی۔ انگریزی کو اس کے کلچر کی بیک گراونڈ نہ سمجھنے کی وجہ سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتے ۔ چنانچہ مکمل ابلاغ نہیں ہو پاتا ۔ اور ان زبانوں کے علمی و ادبی ذخیروں سے بھی تہی دست ہیں ۔ لاہور میں ایک آدھا پنجابی اخبار روزنامہ سجن نکلتا تھا اب وہ بھی بند ہو گیا ہے ۔ اب اصل پنجابی کا مزہ لینے کے لیے سکھ دوستوں کی ویب سایٹیں غینیمت ہیں۔
ایک زمانے میں پنجاب سرکار اور مرکزی سرکار کے مابین افسروں کی تعیناتی کا جھگڑا چل رہا تھا بعد از کوشش پنجاب سرکار نے اس مسٰیے پر ہار مان لی اور افسر واپس کر دے ۔ اس پر اردو اخباروں نے ہار مان لینے کی سرخی لگای ۔ مگر روزنامہ سجن نے جو سرخی جمای وہ کچھ یوں تھی ۔ افسراں دے مسیلے تے پنجاب سرکار گوڈے لا گیی ۔اب گوڈے لگانے میں جو رمز پوشیدہ ہے وہ صرف پنجابی ہی مزہ لے سکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ ہم اپنی سب زبانوں پر فخر کرنا سیکھ انہیں اپنی زندگی میں اپنا لیں
محمد ریاض شاہد صاحب
میں نے اس تحریر میں پنجابی کی ازلی بڑھائی اور دورِ حاضر میں اس کا حشر نہ کہتے ہوئے بیان کیا ہے ۔ کوئی نہ سمجھے تو کیا کیا جائے ۔ تعلیم کا معیار پچھلی تقریباً چار دہائیوں میں اتنا گر چکا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت صرف سطحی عِلم رکھتی ہے البتہ نام بہت سے مضامین کا جانتے ہیں
اجمل صاحب ایک معیاری طریقہ یہی ہے کہ جب آپ اتنے وثوق سے کوئ بات کہہ رہے ہوں تو انکے مستند حوالے دیں اس لئیے کہ اپ ماہر لسانیات نہیں ہیں اور نہ آپ نے اس سلسلے میں کوئ بنیادی تعلیم حاصل کی ہے۔ اب کسی بھی شخص کی ہر بات صرف اس لئیے سن کر اسکی تعریف نہیں کی جا سکتی کہ وہ آپ کہہ رہے ہیں۔ ظاہری سی بات ہے کہ جب آپ ایک چیز کو اتنے فخر سے کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک ایسے موضوع کو جو عرصہ ء دراز سے متنازع رہا ہے وہ آپ اپنی دو ٹوک بات کہہ کر ختم کر دیں۔ آپکے پڑھنے والے بھی اس بات پر آپکی پیٹھ ٹھونک کر شاباش دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے اس طرح کوئ ماہر لسانیات بھی طے نہیں کر پایا ہے۔ آپ نے اپنے طور پہ جو کوشش کی ہے اس میں مزید اضافون کی ضرورت ہے۔ مجھ ناچیز کا یہی کہنا تھا۔
باقی یہ کہ آپکا کہنا صحیح ہے کہ میں ہر بات کو محض عقیدت یا محبت کی بناء پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ بالخصوص وہ باتیں جو ایک غیر متعلقہ شخص اپنے اندازوں پہ کہہ رہا ہو۔ میری یہ باتیں آپکو ناگوار گذرتی ہیں تو میں آپکی پوسٹ پہ سے گذرنے والے کسی اردو ادب کے طالب علم سے درکواست کرونگی کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اساتذہ ء کرام سے معلومات حاصل کرکے ہم سب کو اپنے علم سے نوازے۔
میں اس وقت پاکستان میں نہیں ورنہ ضرور ان چیزوں کو وہاں موجود مستند لوگوں سے ضرور پوچھتی۔ مستند سے میری مراد اس میدان کے ماہرین ہیں۔
عنیقہ ناز صاحبہ
میں نے کسی سے نہیں کہا کہ میری کسی بھی تحریر کو من و عن قبول کر لے ۔ آپ بغير ذاتی تحقیق کے کچھ ماننے کو تیار نہیں تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ آپ اگر مجھے جھٹلانے کی کوشش سے قبل انٹر نیٹ پر ہی تلاش کر لیتیں تو آپ کو میری تحریر کے درست ہونے کے کئی شواہد مل جاتے ۔ جس کو علم کی جستجو ہے اُسے دوسروں کے حوالوں کی بجائے خود مطالعہ کرنا چاہیئے اگر ماننا نہ ہو تو تحقیق کر لینے تک خاموشی اختیار کرنا ایک اچھی خصلت ہے ۔ میری تحریر ذرا غور سے پڑھی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحری ميرے دو چار دن یا دو چار ہفتوں نہیں بلکہ دس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط مطالعہ کا خلاصہ ہے
آپ نے حوالوں اور اُن کی تعلیمی قابلیت کی بات کی ہے ۔ سر آئزک نیوٹن آج تک دنیا کا بہتریں ماہرِ ریاضی سمجھا جاتا ہے ۔ آپ جانتی ہیں کہ اس کی تعلیمی قابلیت کیا تھی ؟ قائداعظم کو دنیا میں ایک بہترین وکیل مانا گیا ۔ اُن کی وکالت برٹش لاء میں تبدیلی کا باعث بن گئی ۔ قائد اعظم نے ہائی سکول کے بعد لاء میں ڈپلومہ کیا تھا ۔ نہ گریجوئیشن نہ ماسٹرز نہ پی ایچ ڈی ۔
رہی میری تعلیمی قابلیت تو میں کئی بار لکھ چکا کہ میں دو جماعت پاس ہوں ۔ لیکن اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان کے علاوہ جرمنی ۔ بیلجیئم اور لبيا میں تعلیم یافتہ لوگوں نے سالہا ناچیز کی معلومات کو بلاچوں و چرا مانا
ویسے آپ کے برعکس میں کئی چیزوں کو بغیر تحقیق کے مانتا ہوں ۔ مثال کے طور پر ۔
اول ۔ اللہ ایک ہے وہی پیدا کرنے اور مارنے والا ہے اور وہی کل کائنات کا نظام چلا رہا ہے
اور آخر ۔ آپ ایک شریف خاتون ہیں
محمد ریاض شاہد صاحب ۔ وعلیک السلام و رحمة اللہ
ہماری قوم کی اکثریت نقال بن چکی ہے ۔ شاید انہیں خود اپنا آپ بھی پسند نہیں
افتخار اجمل بھوپال صاحب–
آپ کےاس دلچسپ مضمون میں دلچسپ ترین بات یہ ھے کہ آپ اس پورے مضمون میں کسی ایک بھی لفظ کی طرف اشارہ کرکے یہ نہیں کہہ سکتے ھیں کہ یہ صرف صرف اردوزبان کا زر خرید (نویکلہ) لفظ ھے! اگر نہیں تو کیا یہ بھی کہاجاسکتا ھے کہ اردو کوئی زبان نہیں؟
کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اردو مختلف زبانوں کے مستعار الفاظ سے بنی ایک خوش ذائقہ کھچڑی ھے؟
تاہم مسلم طور پر درست ہے کہ اردو ،انگریزی اوراسپرانتو دوسری زبانوں سے نا صرف الفاظ بلکہ پورے پورے جملے اپنانیں کی قابلیت کی وجہ سے جہاںگیر (عالمی) زبان کا رتبہ حاصل کرنے اور اپناے جانے کے لیے تَجويز کِی جا سکتیں ھیں۔ ان میں وسیع اور متنوع ذخیرہ الفاظ کے ذریعہ بینُ الاقوامی تَبادلہ خَیال، یکجہتی اور عالمی سطح پرامن اور سلامتی پھیلانے میں مدد مل سکی ھے
میں محترمہ عنیقہ ناز کے نکتہ نظر کی حمایت کرتا ھوں کہ کسی تحقیق کے لییے مستند حوالوں کی ضرورت ھوتی ہے
بھاي–اسی لیے تو ھم د نیا سے پیچے رہ گۓ کیوںکہ ھم محنت سے نہیں زور سے بات آگے بڑھاتے ھیں
سجاد ہمدانی صاحب
خوش آمديد
آپ کون سے مستند حوالے مانگ رہے ہيں ؟ ميں نے اپنے پانچ دہائيوں پر محيط مطالعہ کی بنا پر يہ تحرير لکھی ہے ۔ يہ ميرا مطالعہ ہے دوسروں کا تجزيہ نہيں ہے ۔ پھر بھی ميں نے ايک بڑا اہم حوالہ ديا ہوا ہے
پنجابی یا گور مکھی بولنے والوں کو بڑھکنے کی ضرورت نہیں ۔ ہم نے خود ہی اپنی ماں بولی کا ستیاناس کیا ہے ۔ بی بی سی کے ایک بلاگر نے بچوں کے حوالے سے لکھا کہ “ہمیں تو پنجابی تب سننے کو ملتی ہے جب ممی پاپا لڑتے ہیں” اب یہ مقام شرم نہیں تو اور کیا ہے ؟ پنجابی بولنے والے شعوری اور لاشعوری طور پر احساس کمتری کا شکار ہو گئے ہیں ۔ میں اس بحث میں نہیں جاتا کہ اس کے کیا اسباب ہیں (کیونکہ خدشہ ہے کہ غیر پنجابی بڑھک اٹھیں گے ۔ اگرچہ یہ بھی ذاتی تجربات ہیں)۔ زبان اظہار خیال کا ذریعہ ہوتی ہے اور بس ! مگر درست طور سے خیالات کے اظہار اور ان کے سمجھنے کو اولین زبان وہی ہوتی ہے جو مادری زبان ہو۔ اس لئے پنجابی بولنے والوں کو بےکار بحثوں میں پڑنے کے بجائے وہ کام سامنے لانا چاہیے جو اس سلسلے میں ہوا یا ہو رہا ہے ۔ مخالفوں کے منہ خود بخود بند ہو جائیں گے اور جن کے نہیں ہوتے ان کاکویئ علاج نہیں سوائے اس کے کہ ان کو ان کے خوابوں سے الگ نہ کیا جائے۔ سکھوں نے گورمکھی رسم الخط اور اپنے تہذیب و تمدن سے وابستہ رہ کر اسے زندہ رکھا ہوا ہے ، ہم یہ سب کب کرنے والے ہیں ؟
وسلام
طالوت صاحب
ہماری قوم کی اکثريت احساسِ کمتری کا شکار ہے ۔ درست طريقہ سے محنت نہيں کرتے اور ذمہ دار آباؤ اجداد کو سمجھتے ہيں
تبصرہ حذف کر دیا گیا ہے کیونکہ تبصرہ نہیں تھا ۔ سراسر سیاسی مطالبات تھے جن کی یہاں گنجائش نہیں ہے
انتظامیہ
افتخار اجمل صاحب ۔۔۔۔ السلام علیکم
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ بہت وقیع کام کررھے ھیں۔ میں خو شعبہ اردو سے وابستہ ھوں۔ آپ کی تحریروں میں خاصی جاذبیت ھے۔ جب حقائق تحقیق کی بنیاد پر دیانت داری کے ساتھ بیان ھوں تو کشش کے حامل ھوتے ھی ھیں۔ میں آپ کی مساعی کو سراہتا ھوں۔ مبصر حضرات مختلف مزاج کے ھوتے ھیں۔ بعض حضرات کا تبصرہ محض ہنسی دل لگی کے لئے ھوتا ھے۔ لیکن بعض تبصرے ۔۔۔ خیر الکلام ما قل و دل کے مصداق ھوتے ھیں جو بہت قیمتی ھوتے ہیں۔ بہر حال آپ کی کاوشیں لائق تحسین ھیں۔ جزاک اللہ احسن الجزاء ۔ ۔ ۔ ۔
پروفیسر سید قاضی
پروفیسر سیّد قاضی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ فراخدل ہیں ۔ کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی ۔ میں نے اُردو صرف آؑٹھویں جماعت تک پڑھی ہے ۔ باقی
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا
مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
اسلام علیکم بھو پالی صاحب
آپ کے آرٹیکل نے ان حقائق سے پر دہ ہٹا یا ہے جس سے کئی لو گ واقف نہیں ہین اور پنجابی کو بڑی زبان سمجھتے ہین جبکہ یہ بات اس کے بر عکس ھے پنجابی صرف انگریز کی پیدا کر دہ سازش ھے
لہزا میں کچھ گزارشات آپکی خدمت اقدس میں رکھوں گا کہ پنجاب کے وہ علاقے ملتان، بھاولپور رحیم یارخان خانیوال وھاڑی میلسی بوریوالہ میانوالی جھنگ ٹوبہ ٹیک سنگھ اوکاڑہ ساہیوال ڈیرہ غازی خان ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پنجابی نہیں سرائیکی بولی جاتی ہے یہ وہ علاقے ہیں جو اکبر اعظم کے دور میں ملتان صو بے کی حدود میں تھے ان کی زبان ملتانی تھی اور آئین اکبری مین ملتانی کو سر کاری زبان کا درجہ حاصل تھا اور اسی ملتانی کو ھم سرائیکی کہتے ہین آپکے آرٹیکل نے بلکل حقیقت کی عکاسی کی ہے کہ پنجابی کوئی زبان نہیں ھے کیو نکہ پنجاب کا ایک بڑا علاقہ پنجا بی نہیں بولتا اوراس سرائیکی علاقے کو سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ ینا دیا تھا اور بعد انگریزون نے اسے پنجاب کا حصہ بنادیا تھا اب زبردستی ھم پر پنجابی کا ٹھپہ لگا یا جاتا ھے جبکہ ھم نے اپنے آپ کبھی پنجا بی نہیں کہا ،،،، مجھے خوشی ھے آپ نے ایک حقیقی بات لکھی ھے
ذوالفقار علی صاحب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی رائے کے اظہار کا شکریہ
میں بھوپالی نہیں ہوں بلکہ میرے قبیلہ کا نام بھوپال ہے
محترم ۔ جس علاقہ کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا اس میں شمالی سندھ ۔ موجودہ مشرقی (بھارتی) اور مغربی پنجاب ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔ اور خیبر پختونخوا میں مانسیرہ تک کا علاقہ شامل تھا جن دریاؤں کی بنیاد پر نام رکھا تھا وہ ہیں ستلج ۔ چناب ۔ راوی ۔ جہلم اور سندھ ۔ بیاس شامل نہیں تھا کہ چھوٹا ہے ۔ میں نے اس سلسلہ میں بھی تحقیق کے بعد تحریر لکھی تھی لیکن اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا کہ کب لکھی تھی اور مصروفیت کے باعث مطلوبہ وقت نہیں دے سکتا
سرائیکی زبان دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے سرائیکی کا تعلق سریانی زبان سے ہے جو طوفان نوح سے پہلے 500 سوسال پہلے وجود میں آئی سرائیکی زبان ملتان سے شورع ہوئی اس کا پہلا نام سراسین تها جو بعد میں سویرائی ہوگیا سویرائی زبان ریاست سویرا کی قومی زبان بن گئی جو بعد میں ہندوملتانی کہلانا شروع ہوئی جو بگڑ کر ملتانی سے سرائیکی ہوگئی سرائیکی زبان کے پیٹ سے اردو نکلی اردو سےہندی زبان نکلی اگر سرائیکی زبان کی عمر دیکهی جائے تو اس کی عمر 5500 سال ہے جو طوفان نوح سے پہلے وجود میں آئی
واضد غلام صاحب
تشریف آوری کا شکریہ ۔ آپ نے تو ”پیاس اور بھی بھڑکا دی جھلک دکھلا کر“۔ آپ نے آج سے 5500 سال قبل اور سیّدنا نوح علیہ السلام سے پہلے کے علم کی خبر دی ۔ آج سے کوئی آدھی صدی قبل فلسطین اور سینائی کی کھدائی کے دوران زمین کی گہرائی میں طبقاتی مطالعہ سے یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ سیّدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ میں آنے والا طوفان اس علاقہ میں آیا ہو گا ۔ اس سے زیادہ اُس زمانہ کا کچھ معلوم نہیں ۔ سب سے قدیم معلوم زبان سُومرائی ہے جو 2900 سے 3100 سال قبل مسیح میں میسوپوٹامیا (موجودہ عراق) میں بولی جاتی تھی ۔ اس کے بعد مصری ہے جو 2700 سال قبل مسیح میں بولی جاتی تھی ۔ پھر اکادیئن ہے جو ماری (موجودہ شام) میں 2400 سال قبل مسیح میں بولی جاتی تھی .
پاکستانی پنجاب کے اکثر ضلعوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے، یہ سندھی کی ہمسایہ زبان ہے، پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔
سرائیکی صاحب
کیا پ بتا سکتے ہیں کہ لفظ سرائیکی کب اور کیسے وقوع پذیر ہوا ؟ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ لف﷽ط پاکستان بننے کے کچھ سال بعد عام ہونا شروع ہوا جب چند وڈیوں نے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی
جناب میں نے آپ کی پوسٹ کو سرسری سا پڑھا ہے، میں ایک پوٹھوہاری ہوں،اور ایک “a href= “www.ahlehadithnews.comکو چلا رہا ہوں مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا رشتہ ہماری زبانوں سے ختم ہو گیا ہے، ہاں اس میں وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ میں تبدیلیاں ضرور آئی ہیں،یہ سب میڈیا کی بیرونی یلغار کا نتیجہ ہے، ہمارے بڑے اس بات پر توجہ نہیں دے رہے، اس وقت ملک میں ایک المیہ زبانوں کی حفاظت کے لیے حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کا نہ ہونا بھی ہے، میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو پوٹھوہاری زبان کے لیے کام کر رہے ہیں، بس دعا کریں کہ ہم سب اپنی علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو بھی اپنی پہلی ترجیح بنا پائیں تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھ کر عمل کر کے اپنی لیے کامیابیوں کے راستے کھول سکیں۔ آمین
ابو محمد سلفی صاحب
خوش آمدَید ۔ آپ نے درست لکھا ہے ۔ اور میں آپ کی لکھی دعا پر آمین کہتا ہوں
السلام و علیکم
بھائی آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد میرے دماغ میں ایک سوال مسلسل آ رہا ھے کے اگر پنجابی کوئی زبان نہیں تو پھر اسے کیا کہیں گے مہربانی فرما کر اسکا جواب بتا دیں
عابد علی صاحب
خوش آمدید ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط پر میری تحریر ”اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء“ پڑھیئے ۔ اُمید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا ”۔
https://theajmals.com/blog/2014/05/01
سرائیکی ایک الگ اور مکمل زبان ہے.ملتانی اسکا معیاری لہجہ ہے.اسکا پنجابی سے کوئی تعلق نہیں.
عدنان راؤ صاحب
آپ نے سرائیکی کی بات کی ہے. میرے علم میں اضافہ کیلئے سرائیکی زبان کی تاریخ پر روشنی ڈال دیں تو نوازش ہو گی
افتخار صاحب آپ نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ البتہ برصضیر پاک و ہند کے لوگوں کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے جو کوئی بھی نئی چیز ان کے ہاتھ لگ جائے اس کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اور الفاظوں اور افراد کے ناموں کو بھگاڑنا ایک ہوشیارپن اور عقلمندی تصور کیا جاتا ہے۔ آپ پنجابی کو رو رہے ہیں یہاں ہسپانوی زبان کو چھے ماہ کے لئے رائج کردو پبر دیکھنا ہسپانوی سے ہس مکھی بن جائے گی۔ شکریہ
آلسلام علیکم آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے۔