بدمعاش اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خلافِ اخلاق یا خلافِ قانون طریقوں سے اپنی روزی کمائے ۔ یعنی چور ۔ ڈاکو ۔ اٹھائی گیرہ ۔ بھتہ خور ۔ غاصب ۔ وغیرہ ۔ جب قوم کی اکثریت اس بُری راہ پر چل پڑے تو وہ تنزل کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اُس قوم کا کیا ہو جس کا جمہوری سربراہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول علی زرداری کے نام ایک کمپنی نے رواں سال مارچ میں اسلام آبادکی قیمتی2460 کنال زمین خرید کی ہے۔کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نرخوں کے مطابق اس زمین کی قیمت 2 ارب روپے سے زائد ہے لیکن اسے صرف 6 کروڑ 20 لاکھ روپے میں خرید کیا گیا ہے ۔ 1997ء میں مسٹر زرداری پر جس ڈیل کا الزام عائدکیا گیا تھا وہ بالآخر 15 سال بعد قانونی مقدمات کے پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد، ایک ایسے شخص جسے اس وقت کی حکومت نے آصف علی زرداری کا اہم ترین ساتھی قرار دیا تھا، ایک اور شخص جسے صدر زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور ایک ایسی نجی کمپنی کے درمیان پوری ہوئی جس کے مالک مشترکہ طور پر آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے اور چند دیگر افراد ہیں
دی نیوزکے پاس دستیاب معاہدہٴ فروختگی، دستاویزات، قانونی کاغذات اور اسلام آباد کی پی سی او ہائی کورٹ کے فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کی ایک نجی کمپنی پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ نے فیصل سخی بٹ سے سنگ جانی کے قریب ڈھائی ہزارکنال زمین خرید کی۔ فیصل سخی بٹ نے یہ زمین ہیوسٹن (امریکا) میں مقیم ایک پاکستانی نژاد امریکی باشندے محمد ناصر خان سے صرف 62 ملین روپے میں خریدکی تھی۔ ناصر خان اس زمین کا حقیقی مالک تھا جس نے یہ زمین1994ء میں خریدکی تھی اور اسے1997ء میں دائرکردہ نیب ریفرنس میں زرداری کا فرنٹ مین قرار دیاگیا تھا۔ قیمتوں کے جائزے کیلئے سی ڈی اے کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے خریدکی جانے والی زمین سے ملحق زمین کی قیمت 8 لاکھ 50 ہزار روپے فی کنال ہے، اگر پارک لین کی زمین کی قیمت سی ڈی اے کے جائزے کے مطابق طے کی جائے تو اس زمین کی مجموعی قیمت2 ارب روپے بنتی ہے۔
مکمل تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ۔ متعلقہ دستاویزات کی فوٹو کاپیاں دی نیوز اخبار میں شائع کی گئی ہیں
متذکرہ بالا زمین کے قریب ہی انجنیئرز کوآپریٹِو ہاسنگ سوسائٹی اسلام آباد کی زمین ہے جس میں میرا بھی ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ۔ قریب ہی مرگلہ ویو اور آرمی ویلفیر ٹرسٹ کی زمینیں ہیں ۔ اس وقت اس علاقہ میں فی کنال قیمت 14 سے 18 لاکھ روپے ہے ۔ اگر موجودہ اوسط قیمت لگائی جائے تو 2460 کنال کی قیمت 4 ارب روپے کے قریب بنتی ہے ۔ ایک اور بات سنگ جانی میں اتنا بڑا زمیندار کوئی نہیں تھا کہ جس کے پاس 100 کنال سے زیادہ زمین ہو بلکہ عام طور پر ایک شخص کی ملکیت 30 کنال سے زیادہ نہ تھی ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ 2460 کنال زمین اکٹھی کرنے کیلئے طاقتور سرکاری ہتھیار استعمال کیا گیا ہو گا
یہ کیا بد سے معاش بنا دیا
میری امی کا تکیہ کلام ہے میرے لئے بدمعاش کہیں کا
اپنا خیال ہے کہ ویسے پاکستان کے حالیہ واقعات سے بہت افسوس ہے لگتا یہی کہ آئندہ بغداد، بصرہ اور افغان جیسا ہونے کو جا رہا ہے ۔
شعیب صاحب
ماں کے الفاظ آواز میں کچھ ہوتے ہیں اور اصلیت میں کچھ اور
اللہ نہ کرے کوئی ماں کسی کو دل سے کوئی بد لفظ کہہ دے ۔ وہ پورا ہو جاتا ہے
کیا سنگ جانی کے قریب جگہ خریدنے کی وجہ وہاں بننے والا اسلام آباد کا ہوائی اڈہ تو نہیں۔
افضل صاحب
ہو سکتا ہے ۔ مجھے زرداری کی زمین اس زمين کا صحیح محلِ وقوع پتہ نہیں ۔ اسلام آباد میں ہوتا تو معلوم کر لیتا
کیا فائدہ بے کار کی ٹینشن لینے کا ۔۔۔لی۔۔تو۔۔ لی۔۔آپ کیا روک سکتے ہیں آج تک کسی کو روک پائے ہیں انہوں نے جو کرنا ہے کر گزرنا ہے آپ دال روٹی کی فکر کریں اور حقہ پئیں انجوائے کریں۔ :P
ارے یہ تو کمال ہو گیا میرا تبصرہ ہو گیا واقعی کیا بات ہے افتخار صاحب کی ماسٹر آدمی ہیں آخر انہوں نے سپیم کو بھگا ہی دیا۔
کامران صاحب
توبہ توبہ ۔ میرے خاندان میرے آباؤ اجداد میں کسی نے نہ حقہ پیا نہ سگریٹ ۔ آپ مجھے کیا مشورہ دے رہے ہیں ۔ میں دال اور سبزیاں کھانا پسند کرتا ہوں اور اللہ کے فضل سے گوشت بھی کھاتا ہوں ۔ نہ حرام کھاتا ہوں نہ کسی کو حرام کھاتا دیکھ سکتا ہوں
کامران صاحب
اب آپ اسی خوشی مین کنفیوز ہونا چھوڑ دیجئے اور اسے اپنے نام سے بھی ہٹا دیجئے ۔ خانتے ہیں کنفیوڈ کی اُردو کیا ہے ؟ خبط الحواس اور پنجابی ہے بَونگا
تو کیا آپ مجھے نارمل سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ :P
کامران صاحب
اگر آپ غیرمعمولی بننے کا شوق رکھتے ہیں تو ۔ علامہ اقبال یا خناح بنیئے
جب تک اس ملک میںبھٹو اور بے نظیر کو پوجنے والے موجود ہیں یہ اڑھائی ہزار چھوڑ اڑھائی لاکھ کنال بھی کوڑیوں کے مول لے لیں کوئی فرق نہیںپڑتا۔ اگر “پاکستان کھپے” تو پھر بھٹو یا زرداری یا کوئی اور پیارا حکمران رہنا چاہئے وگرنہ “پاکستان نہ کھپے” غلامی جب ایک مذہب بن جائے تو پھر آپ جتنے مرضی ثبوت مہیا کیجئے، بے کار ہیں۔
خرم صاحب
اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ قوم ہی ایسی ہے ۔ میرے عِلم میں بہت کچھ ہے لیکن لکھنے کا کوئی فائدہ نہین کہ افسانوی قوم ہر تحریر کو افسانہ سمجھتی ہے
انکل بدقسمتی سے بات یہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زرداری اور نوازشریف کے پیچھے لوگ مرے نہ جارہے ہوتے۔ ان لوگوں کی بدعنوانیاں ایک کھلی کتاب کی طرح سامنے ہیں لیکن جو ان کے چاہنے والے ہیں ان سے بات کیجئے تو وہ کہیں گے “لاکھ بُرے ہوں لیکن ہمیں پھر بھی انہی کو ووٹ دینا ہے”۔ ایسے میں آپ جتنے بھی چشم کُشا حقائق پیش کریں لوگ انہیں فسانہ سمجھ کر ہنس دیں گے۔