عوام کا خیر خواہ ہونے کی سب سے زیادہ دعویدار سیاسی جماعتیں بتدریج مندرجہ ذیل ہیں
1 ۔ الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ
2 ۔ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی
3 ۔ اسفند یار کی عوامی نیشنل پارٹی
امتحان ماضی میں بھی آتے رہے مگر میں ماضی کو بھُول کر حال بلکہ نومبر 2009ء کے پہلے پندرواڑے کی بات کروں گا ۔ بات ہے ضابطہ قومی موافقت [National Reconciliation Ordinance] کی جو آج شام قومی اسمبلی میں پیش ہونے کی توقع ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو کچھ ہے وہ سب نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کا دعوٰی ہے کہ ان کی جماعت درمیانے درجے کے اعلٰی مدارج تک پڑھے لکھے لوگوں پر مُشتمل ہے ہمیشہ کم دولت والے عوام کیلئے محنت کرتی ہے اور وہ رُتبے یا دولت کیلئے کام نہیں کرتی
عوامی نیشل پارٹی کے رہنماؤں کا دعوٰی ہے کہ عوامی نیشل پارٹی غریب عوام کی جماعت ہے اور مساوات پر یقین رکھتی ہے
متذکرہ بالا دعوؤں کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشل پارٹی دونوں حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حلیف جماعتیں ہیں ۔ امتحان اگلے دس پندرہ دن میں ہو جائے گا کہ یہ جماعتیں سچ کہتی ہیں یا جھوٹ
ضابطہ قومی موافقت عوام دُشمن ۔ تعلیم دُشمن ۔ قوم دُشمن اور اسلام دُشمن ہے کیونکہ اس ضابطے نے قومی دولت لُوٹنے والوں اور قاتلوں کو تحفظ دیا ہے ۔ ایسے لوگوں کو تحفظ جنہوں نے مُلک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ اس ضابطہ سے کسی درمیانے یا نچلے درجے کے آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ یہ بیچارے مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں
امتحان ۔ جس جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور سینٹ نے ۔ ۔ ۔
*** ضابطہ قومی موافقت کے خلاف ووٹ دیئے ۔ وہ جماعت اپنے قول میں سچی ثابت ہو گی
*** ضابطہ قومی موافقت کے حق میں ووٹ دیئے ۔ وہ جماعت عوام دُشمن قوم دُشمن خود غرض منافق جھوٹے لوگوں کا ٹولہ ثابت ہو گی
*** ضابطہ قومی موافقت کے نہ حق میں ووٹ دیئے اور نہ مخالفت میں ۔ وہ جماعت خود غرض منافق جھوٹے لوگوں کا ٹولہ ثابت ہو گی
وہ بلاگر یا قارئین جو ایم کیو ایم یا اے این پی میں شامل ہیں یا ان جماعتوں کے حامی ہیں وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
“امتحان ۔ جس جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور سینٹ نے ۔ ۔ ۔
*** ضابطہ قومی موافقت کے خلاف ووٹ دیئے ۔ وہ جماعت اپنے قول میں سچی ثابت ہو گی
*** ضابطہ قومی موافقت کے حق میں ووٹ دیئے ۔ وہ جماعت عوام دُشمن قوم دُشمن خود غرض منافق جھوٹے لوگوں کا ٹولہ ثابت ہو گی
*** ضابطہ قومی موافقت کے نہ حق میں ووٹ دیئے اور نہ مخالفت میں ۔ وہ جماعت خود غرض منافق جھوٹے لوگوں کا ٹولہ ثابت ہو گی”
بالکل درست
میرا تو ان میں سے کسی جماعت سے تعلق نہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا یہ جماعتیں حکومتی جماعت یعنی اپنی حلیف پیپلز پارٹی کی منشا کے برعکس کوئی کام کریں۔ یہ سب سیاستدان اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور ہماری عوام ماشا اللہ اس کے باوجود اپنی پسند کی جماعت کی حمایت میں چند الٹے سیدھے نقاط ضرور مرتب کر لے گی۔
یاسر عمران صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ۔ اور اگر قوم کا یہی حال رہا تو ملک میں دہشتگردی کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے
NRO کا واحد علاج یہ ہے کہ ایوان سے غیرحاضر رہاجائے۔
یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ایک حمام میں ۔۔۔۔
اگر کوئی آپ کی اُمیدوں کے برخلاف کرے تو شاید آپ کو حیرت ہو ورنہ ان لوگوں سے عوام کو جو اُمیدیں ہیں وہ نا اُمیدی سے کا ہی دوسرا نام ہیں۔
فرحان دانش صاحب
تو گویا آپ چاہتے ہیں کہ این آر او باقاعدہ قانون بن جائے ؟ یہی پارلیمانی کمیٹی میں ایم کیو ایم کے رکن نے کیا ۔ اگر وہ پی ایم ایل نون اور پی ایم ایل ق کی طرح این آر او کی مخالفت میں ووٹ دے دیتا تو این آر او اسمبلی میں جانے کے قابل ہوتا ہی نہیں
محمد احمد صاحب
آپ اگر تخیلاتی بے ربط فقرے چُست کرنے چھوڑ دیں تو آپ کی بات کی قدر بڑھ سکتی ہے
” تخیلاتی بے ربط فقرے ”
شکریہ افتخار صاحب!
آئندہ کوشش کروں گا۔
الطاف بھائی نے تو امتحان پاس کر لیا۔۔اس دفعہ تو تعریف کے مستحق ہیں۔۔
فارغ صاحب
بیان تو وہ بہت دیا کرتے ہیں ۔ پتہ اُس وقت چلے گا جب قومی اسمبلی میں اس قانون کے مسؤدے پر رائے شماری ہو گی ۔ خیال رہے آج ایم کیو ایم کے ارکان نے زرداری کے ساتھ ڈنر کھانا ہے ۔
بات الطاف بھائی کی بھی ٹھیک ہے وزیرِ اعظم بننے کے لئے عہدہء صدارت سے تو استفعٰی دینا ہی پڑے گا۔
افتخار صاحب، اُمید ہے اس بندش پر آپ کو اعتراض نہیں ہوگا۔
ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ این آر او ایک کالا قانون ہے اورایم کیو ایم پر کبھی کرپشن کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ این آر او کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی جائے۔
محمد احمد صاحب
کس بندش کی بات کر رہے ہیں آپ ؟
@ فرحان دانش صاحب ، کاش ایم کیو ایم کے قائد کا یہ بیان نیک نیتی پر مبنی ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد کی رنگ کالی ، سوچ کالی اور کرتوت کالے ، ایسا فرد این آر او پر بارگینگ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا ۔ پیپلز پارٹی سے مجھے نفرت ہے۔ این آر او قطعا” پاس نہیں ہو نا چاہیے لیکن الطاف حسین نے بروقت شاٹ کھیلا ہے ، مقصد پوائنٹ اسکور کرنے کے علاوہ سٹی گورنمنٹ نظام کی بقا جس میں ایم کیو ایم کی پلاٹوں پر قبضے کے سسٹم کی بقا ہے ۔ اگر سٹی گورنمنٹ چلی گئی اور ایم کیو ایم نے سرکاری زمینوں ، پارکوں اور حتیٰ کہ قبرستانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے اگر یہ سب کچھ سامنے آگیا تو یہ این آر او کے تحت معاف کیے گئے کیسز سے زیادہ سنگین نوعیت کے کیسز ہوں گے۔
سیاسی جماعتوں کے دعویٰ محض انتخابات اور اخبارات کی سرخیوں تک ہی محدود ہوتی ہیں ان کا عمل سے تعلق سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک مذکورہ بالا جماعتوں کو کسی امتحان کی ضرورت نہیں۔
تو آپ سب نے ایک ایسے موقع پہ جب جنگ لڑی جارہی ہے اور دھماکوں پہ دھماکے ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پہ بحث کرنا زیادہ مناسب خیال کیا ہے۔ حد ہوتی ہے تعصب، تنگ نظری اور بے حسی کی۔ محض اپنی ذاتی انائووں کو تسکین دینے کے لئیے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ گھنائونی بات کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
عنیقہ صاحبہ
تعصب کی بدبُو تو آپ کے تبصرے سے پھوٹ رہی ہے ۔ نشانہ ایم کیو ایم کو نہیں بنایا گیا بلکہ حکومت میں شامل جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فضل الرحمٰن کا ذکر کرنا بیکار تھا کہ وہ بے پیندے کا لوٹا ہے ۔
محترمہ ۔ دھماکے جو اسی این آر او کے خالقوں کے کرتوں کی وجہ سے شروع ہوئے اور بڑھتے جا رہے ہیں وہ اِن شاء اللہ جلد بند ہو جائیں گے لیکن این آر او قانونی شکل اختیار کر گیا تو پھر اس ملک میں بدمعاشوں اور لُٹیروں کا راج ہو گا جو شاید آپ کو گوارہ ہو مگر کسی پاکستانی کو گوارہ نہیں
آپ تو ایسے یقین سے کہہ رہے ہیں جیسے آپکو بتا کہ کءیے جاتے ہین۔ تو این آر او سے پہلے کس سلسلے میں ہو رہے تھے۔ یہ بتانا پسند کریں گے۔ اور پچھلے کئ سالوں سے جو ہو رہے ہیں انکی کیا وجوہات ہیں۔
عنیقہ ناز صاحبہ
لکھنے سے پہلے کم از کم تھوڑا سا سوچ تو لیا کیجئے کہ آپ کیا لکھ رہی ہیں ۔ جو آپ کے دماغ میں نقشہ ہے اس کے مطابق لکھنے کی بجائے جس تحریر پر آپ تبصرہ کر رہی ہوں اس کے مطابق لکھا کیجئے