محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2003ء میں پاکستان کی آبادی کُل 20,374,970
خاندانوں پر مُشتمل تھی ۔ اس آبادی میں 50,000,000 نفوس کا اضافہ ہو چکا ہے پرانے تناسب سے دیکھا جائے تو اب کُل21,077,555 خاندان بنتے ہیں
نَیب نے جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق زرداری ۔ وزراء ۔ مشیرانِ خاص ۔ فیڈرل سیکرٹریز ۔ کارپوریشن کے چیئرمینوں اور دوسرے سرکاری ملازمین سمیت جن لوگوں کو این آر او کے بننے کے بعد معاف کیا گیا اُنہوں نے قوم کا 1000,000,000,000 روپیہ خُرد بُرد کیا جو بیک جُنبشِ قلم معاف ہو گیا ۔ اگر یہ لوٹی ہوئی دولت ان اعلٰی سطح کے لُٹیروں سے واپس لی جائے تو اپنے مُلک کے ہر خاندان کے حصے میں 47,444 روپے آتے ہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 165,000,000,000 روپے باقاعدہ ثبوت کے بعد ان لوگوں سے واپس لئے جا سکتے ہیں ۔ اگر 165,000,000,000 روپے بھی واپس لے کر پورے مُلک میں تقسیم کئے جائیں تو ہر خاندان کے حصہ میں 7,828 روپے آتے ہیں
حیراں ہو ں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہوتو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اور بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ نوازشریف؟ :D
عوام کو ان کا حصہ بیٹھے بٹھائے ملنے والا نہیں۔ انہیں چھیننا پڑے گا اور اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت بھی دور نہیںہے۔ آپ نے ویسے بڑا اچھا حساب کتاب لگایا ہے۔
خرم صاحب
اس کا فیصلہ اللہ ہی نے کرنا ہے ۔ وہ مالک ہے جب چاہے جس سے چاہے کام لے لے ۔ جج صاحبان کی بحالی کی کسے اُمید تھی ؟
افضل صاحب
جب اللہ کو منظور ہوا تو دیر نہیں لگے گی لیکن ایسا اُس وقت ہو گا جب خلقِ خدا کمر باندھے گی
امیروں سے دولت کون نکلوائے گا۔ وہ تو کب کے چٹ کر گئے۔
ججوں نے بحال ہوکر ذرداری نواز شریف اور دیگران کی بے حد و حساب دولت کا حساب تو ابھی تک لیا ہی نہیں ہے؟
عبداللہ صاحب
بچوں والی باتیں نہ کیا کریں ۔ اگر کوئی عدالت میں درخواست دے گا تو اس پر عمل ہو گا ۔ آپ بھی درخواست دے سکتے ہیں ۔ اگر آپ کو جلدی ہے تو دے ڈالئے درخواست این آر او کے خلاف آئیں کی متعلقہ شق کا حوالہ دے کر ۔ کہتے ہیں ہاتھ میں کنگن ہو تو آرسی کی حقیقت کیا
عارف کریم صاحب
ہمارے ملک کا سب سے بڑا سانحہ یہی ہے کہ لُٹیرۓ کھلے عام پھرتے ہیں
جی جلد ہی ایسا ہی ہوگا ! بقول شخصے قربانیوں کا موسم قریب ہے!