جب تازہ خالص دودھ ملنا بہت ہی مشکل ہو گیا تو ہم نے ولائتی طریقہ سے موٹے کاغذ کے ڈبے میں بند دودھ استعمال کرنا شروع کیا گو میرا دماغ کہتا تھا کہ پانی ملا دودھ ڈبے والے دودھ سے بہتر ہے کیونکہ جتنا دودھ ڈبوں میں بند کر کے بیچا جا رہا ہے اتنی ہمارے مُلک میں گائے بھینسیں نہیں ہیں ۔ میں اکیلا کیسے عقلمند ہو سکتا ہوں جب باقی سب ڈبے والے دودھ کے حق میں ہوں ۔ اور کئی تو اچھے خاصے پڑھے لکھے خواتین و حضرات نیسلے کا ایوری ڈے [Every Day] خالص اور عمدہ دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ ایوری ڈے میں دودھ ہوتا ہی نہیں
میرے عِلم میں ایک درخواست آئی ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں داخل کی گئی تھی اور 2 نومبر 2009ءکو ہائیکورٹ نے متعلقہ سرکاری اہلکار کو 17 نومبر کو پیش ہونے کا حُکم دیا تھا ۔ داخل کی گئی درخواست میں مصدقہ اعداد و شمار دیئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ گذشتہ 5 سال میں ڈبوں میں بند دودھ [نیسلے کا ملک پیک ۔ ہلّہ ۔ گُڈ ملک ۔ اولپر ۔ وغیرہ] کے 19718 نمونے حاصل کر کے ان کا معائینہ کیا گیا تو ان میں سے 17529 نمونوں کا دودھ مضرِ صحت تھا اور انسانوں کے پینے کے قابل نہ تھا ۔ یعنی 88 فیصد نمونوں میں مُضرِ صحت دودھ تھا ۔کئی نمونوں میں مُختلف کیمیائی [chemical] اجزاء اور دیگر زہریلی اشیاء کی ملاوٹ بھی پائی گئی تھی
ہمیں ڈبوں کا دودھ شروع کئے چار پانچ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن اس کے ذائقہ سے ہم بد دِل ہو رہے تھے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دوہفتے قبل ہمیں اچھا تازہ دودھ ملنا شروع ہوگیا ورنہ اس خبر پر ہمیں نجانے قے شروع ہو جاتیں یا اسہال
میرا اور دودھ والی چائے کا واستہ اتنے سالوں سے ہے جتنے سالوں سے شاید کمپیوٹر کے ساتھ نا ہو ۔۔
میں چائے نہیں پیتا گر وہ پانی ملا ہوا دودھ نا ملے تو ۔۔
آدھا گلاس ڈبے والا دودھ یا ایوری ڈے ملا ہو چائے میں تو پتا چل جاتا ہے کہ اس کے خواص کیا ہیں ۔
میرا ایک دوست کچھ مہینے فیصلہ باد ملک فیکٹری میں کام کر کے آیا تو بتاتا تھا کہ کس طرح وہاں دودھ کے ساتھ بد تمیزی کی جاتئ ہے ۔
مزید یہ تحقیق ہے کہ ورچلائیزڈ ملک پراڈیکٹس میں بہت سے ایسے کیمکیل بھی ملائے جاتے ہیں جن سے ان کی عمر میں اضافہ ہو ۔
ترقی پسندی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ خالص چیز کو چھوڑ کے ڈبے والی بوسیدہ چیز استعمال کرو۔
آپ کی تحریر پڑھنے سے مجھے ایک لطیفہ یاد گیا۔
دو پہلوان کشتی لڑنے لگے تو ایک نے دوسرے سے کہا ‘جاؤ پہلے اپنی ماں سے دودھ بخشوا لاؤ’
لو اب میں دودھ بخشوانے امریکہ جاؤں!
کیوں تمھاری ماں امریکہ رہتی ہے!
نہیں ڈبے کا جو پیتا ہوں!!!!!!!
جی ہاں۔۔۔ اسی طرح نیسلے کے خالص جوس “نیکٹر” سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک دوست نے کہا تھا کہ پورے پاکستان میں پیدا ہونے والے مالٹوں کا رس اتنا نہیں ہوتا جتنا صرف فیصل آباد میں اورنج نیکٹر (خالص جوس( مل رہا ہے۔
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!
“سی طرح نیسلے کے خالص جوس “نیکٹر” سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک دوست نے کہا تھا کہ پورے پاکستان میں پیدا ہونے والے مالٹوں کا رس اتنا نہیں ہوتا جتنا صرف فیصل آباد میں اورنج نیکٹر (خالص جوس( مل رہا ہے۔”
تو کیا یہ بھی خالص نہیں ہوتا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مکی صاحب
آپ کو کس پر اعتبار نہیں ہے ؟ اس خبر پر کہ دودھ پر ؟
روز روز مِلک پَیک پیا کرو۔ ہا ہا ہا
ان کمپنیوں کی وجہ سے پاکستان میں ڈیری کی صنعت کافی مشکلات کا شکار ہے۔ جو ایک طرح سے اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ ان کی اشتہاری مہمات کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اگر صرف پاکستان کے سرمایہ کاری ادارہ جات جیسے بینک وغیرہ ڈیری فارمنگ کی انڈسٹری میں سرمایہ کریں تو نہ صرف ہم بڑی کمپنیوں کو ہراسکتے ہیں بلکہ ڈیری مصنوعات برآمد بھی کرسکتے ہیں۔
کل سے آپ کھلے دودھ پر تحقیق شروع کردیں ۔ :P
پاکستان کی ہر شے میں ملاوٹ اسلئے کہ کوئی اسٹینڈرڈ ہی قائم نہیں کہ کیا بیچے جائے اور کیسے
نعمان صاحب
مسئلہ یہی ہے کہ اکثریت اپنی اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں پچھلے چالیس برس سے ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ خود اپنی نسل کو تباہ کرنے کا سامان کر رہے ہیں ۔ میں وہی کہتا ہوں جو کر رہا ہوتا ہوں ۔ اللہ کے فضل سے ہم ابھی تک خالص دیسی گھی کھاتے ہيں
کامران صاحب
کھلے دودھ پر تحقیق تو کیا اچھا دودھ حاصل کرنے کیلئے بہت پاپڑ بیل چکا ہوں
عارف کریم صاحب
سب معیار قائم ہیں اور معیار کے معائینہ اور پڑتال کا محکمہ بھی ہے لیکن اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ رشوت کا پیسہ بھی جہنم کی آگ ہے جو پیٹ میں بھر رہے ہیں اور پھر اپنی نسل کی بربادی کا سامان بھی کر رہے ہیں
اصل مسئلہ پانی نہیں بلکہ وہ تیز بو ہے جو دودھ سے اتی ہے اور ملک پیک میں نہیں ہوتی میں تو کھلے دودھ میں بھی واشنگ پاؤڈر کی خشبو سونگھ چکا ہوں اور معلومات کرنے پر یہ بھی پتہ چلا دودھ کو پھٹنے سے بچانے کے لیئے واشنگ پاؤڈر ملایا جاتا ہے مجھے تو ناقابل یقین بات لگی مگر خود اس کی تی خشبو دودھ میں نا سونگ چکا ہوتا تو یقین نہ کرتا،
ویسے تو دودھ کھلا ہو یا ڈبے کا نکالا تو بھینسوں کو انجیکشن لگا کر ہی جاتا ہے جس سے دودھ کی غذائیت اور مہک پر بھی اچر پرتا ہے اور بھینسوں کی صحت پر بھی، اللہ ہمیں ہدایت دے آمین
ہم یہاں سعودی عرب میں بھی ڈبے والا دودھ ہی استعمال کرتے ہیں جس پر ٹیٹرا پیک کا لوگو بھی ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہاں کھلا دودھ دستیاب ہی نہیں ہوتا، تاہم دو قسم کے دودھ دستیاب ہیں۔
– لمبی مدت کے لیے کارآمد دودھ، ویسا ہی جیسا ملک پیک کا ہوتا ہے۔ ٹیٹرا پیک لوگو کے ساتھ
– کم مدت کے لیے کارآمد، جس کی مدت 4 دن ہوتی ہے، اس کی پیکنگ بھی کاغذ کی بجائے پلاسٹک کی بوتل کی ہوتی ہے، اسے ایک دوسرا نام ، فریش دودھ بھی دیا گیا ہے۔ اس پر ٹیٹرا پیک لوگو نہیں ہوتا۔
اب سوال یہ ہے کہ جہاں بھی ٹیٹرا پیک کی پیکنگ والا دودھ ہو گا، اس میں وہی کیمیائی اجزا ہوں گے جن کا نمونے پاکستان سے لیے گئے۔
ظاہر ہے چچا دودھ پر.. ہر پانچواں ڈبا خراب نکلتا ہے.. :?
دودھ بھی دو نمبر اور دودھ والی بھی!!!!
اسلامُ علیکم
میں نے آپ کا یہ بلوگ ڈبے کا دودھ استعمال کرنے والے اپنے سارے جاننے والوں کو بھیجا ہے دیکھتے ہیں انہیں قے آتی یا نہیں۔ :P
پاکستان میں ہمارے گھروں میں باڑے کا دودھ ہی آتا ہے، چھوٹے شہروں میں اب تک ڈبے کے دودھ نے اتنی جگہ نہیںبنائی ہے۔ شکر ہے میں ڈبے والا دودھ استعمال نہیں کرتی۔ یہاں اونٹ کا دودھ ملتا ہے جو کہ میرے شوہر تو بڑے شوق سے نوش کرتے ہیں کہ یہ سنت ہے مگر میں چاہ کر بھی نہیں پی سکتی :x پاکستان جا کر ہی بھینس کا خالص دودھ پینا نصیب ہوگا انشاءاللہ۔
عبداللہ صاحب
آپ نے تو پاؤں کے نیچے سے دری کھنچنے والی بات کر دی ۔ ویسے اللہ کا بڑا کرم ہے کہ زندگی کا اکثر حصہ خالص دودھ پیا اور خالص مکھن اور خالص دیسی گھی کھایا ہے جس کی وجہ سے ان کی پہچان بھی ہے
عمران صاحب
یہ دودھ والی کہاں سے ٹپک پڑی ؟
مکی صاحب
بڑا حساب رکھا ہے آپ نے ۔ میں نیسلے کا خالص خُوس ایک بار چار ڈبے لایا تو چاروں ہی خراب نکلے ۔
نعمان صاحب
جب تک ہمارے لوگوں کے سر سے ولائتی بھوت نہیں اُترتا حال ابتر ہی رہے گا
کامران صاحب
ڈبہ آنے سے پہلے کھلے دودھ پر کافی تحقیق کر چکا ہوں ۔ اسے خریدنے پہلے بھی پورا دماغ اور آنکھیں استعمال کرنا لازم ہے
عارف کریم صاحب
معیار کا قانون موجود ہے مگر باعمل لوگ بہت ہی کم ہین اور عمل کرانے والے اپنی جیب کو بھرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ سیانے گاہکوں کا فقدان ہے ۔ لوگ سب کچھ اشتہاروں مین دیکھ کر خریدتے ہیں ۔ جتنا بڑا اشتہار اتنے ہی گاہک زیادہ