بِلُو بِلا صاحب نے “کرتوتوں کی سزا” کے عنوان کے تحت ایک رکشا والے کی بات بیان کی تو مجھے ایک اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آیا لیکن پہلے میں یہ بتا دوں کہ یقین کسے کہتے ہیں ۔ یقین یا ایمان ایک ہی عمل کے دو نام ہیں ۔ آج دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمان ہیں مگر بے کس اور مجبور ۔ ہر مسلمان دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات بھاری اکثریت کے صرف ہونٹوں یا زیادہ سے زیادہ زبان کی نوک سے آگے اندر نہیں جاتی ۔ دل و دماغ میں یقین غیراللہ پر ہوتا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی مدد کیلئے پکارے اور مدد نہ آئے
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آدھی صدی کے قریب پرانا واقعہ ہے ۔بارشں نہیں ہو رہی تھی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کئی دن تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے ۔ خشک سالی کا اندیشہ تھا جس کا نتیجہ قحط ہو سکتا تھا ۔ راولپنڈی کی مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بتایا گیا کہ شہر سے باہر پیدل جا کر پڑھی جائے گی ۔ ایک اجتماع ہیلی واٹر ورکس جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے موسوم ہوا کے قریب اور دوسرا ٹوپی رکھ میں جو بعد میں ایوب نیشنل پارک کے نام سے موسوم ہوئی ۔ یہ راولپنڈی کی دو اطراف تھیں آبادی سے باہر ۔ مرد اور لڑکے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ اس وقت کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی ٹوپی رکھ پہنچے ۔ میں دوسروی طرف یعنی ہیلی واٹر ورکس کی طرف گیا ۔ وہاں اتنے لوگ تھے کہ دور دور تک زمین نظر نہ آتی تھی ۔ نہ کوئی لاؤڈ سپیکر تھا اور نہ کوئی صف بچھی تھی ۔ کرتار پورہ کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحکیم صاحب جو ہمارے سکول میں اُستاذ رہ چکے تھے اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے نے امامت کرائی ۔ نماز کے بعد دعا شروع ہوئی ۔ اتنی خاموشی تھی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کہ دور دور تک آواز سنائی دی ۔ امام رو رہے تھے اور مقتدی بھی سسکیاں لینے لگے ۔ نہ ہمیں وقت کا احساس ہوا نہ پتہ چلا کہ کب بادل آئے ۔ دعا ختم ہونے پر گھروں کا رُخ کیا ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی گھر پہنچنے تک تیز بارش شروع ہو چکی تھی
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں بھی نمازِ استسقاء پڑھی گۓي تھی مگر ایوانِ صدر میں اور مساجد میں ۔ نہ کوئی گڑگڑایا نہ کسی نے آنسو بہائے اور بادل بھی شاید دور قہقہے لگاتے رہے ہوں مگر قریب نہ آئے ۔ ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے
بالکل درست!
معاشرہ ذرائع ابلاغ تخلیق کرتے ہیں۔
جوک در جوک نہیں بلکہ جوق در جوق لکھیے۔
الف نظامی صاحب
شکریہ ۔ جب سے میں نے نیا چابی تختہ لیا ہے یہ غلطی کبھی کبھی ہو جاتی ہے ۔ یہ تقریباً اُفقی ہے ۔ میں نے 20 سال سے زائد جو چابی تختہ استعمال کیا اُس کی فنکشن چابیوں والی طرف کافی اُنونچی ہوتی تھی ۔ لکھتے ہوئے میرا بائیں ہاتھ کا انگوٹھا شفٹ پر ہوتا ہے میں ق کیلئے کیو کو دباتا ہوں تو بعض اوقات میرا انگوٹھا بھی دب جاتا ہے اور ک لکھا جاتا ہے ۔
افتخار صاحب سب سے پہلے تو بلاگ کا حوالہ دینے کا شکریہ
دوسری بات یہ کہ آپ کی پوسٹ کا آخری جملہ کچھ ہضم نہیں ہوا
:ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے :
ایوب خان کا کیا کمال ہے اس میں ؟؟؟؟
بلو صاحب
عام طور پر بلو یا بلا بھولے بچے کو کہا جاتا ہے ۔ سو ثابت ہو گیا
ایوب خان نے ایوانِ صدر سے پیدل دو تین کلومیٹر چل کر عوام میں نماز پڑھی ۔ پرویز مشرف کو کبھی سڑک پر دیکھا آپ نے ؟
افتخار صاحب میں پرویز مشرف کے حق میں بالکل نہیں ہوں
پر کسی فوجی حکمران کی تعریف مجھ سے برداشت نہیں ہوتی چاہے وہ کوئی بھی ہو