میں راشد کامران صاحب کے بلاگ پر کسی اور کام سے گیا تھا اور وہاں اپنے آپ کو بندھا ہوا پایا
سوال ۔ 1 ۔ انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
جواب ۔ کچھ مقرر نہیں ۔ صفر سے لے کر 8 گھنٹے تک لیکن لگاتار نہیں اور اس کا انحصار مہیاء وقت اور ضرورت پر ہے ۔ مطلب ہے کہ کوئی اور کام ہو تو پھر کمپیوٹر میرے انتظار میں چلتا رہتا ہے ۔ اسی لئے کئی حضرات کو شکائت ہے کہ میں ان کی بات کا جواب نہیں دیتا
سوال ۔2 ۔ انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
جواب ۔ وہی چالِ بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ بقول کچھ جوانوں کے میں جدید دنیا میں نہ آ سکا ہوں نہ اسے سمجھ سکا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب میں نے کپيوٹر پر کام شروع کیا اور میراتھان قسم کے پروگرام ڈویلوپ کئے [1985ء تا 1988ء] اس وقت وہ لوگ بوتل میں دودھ پیتے ہوں گے یا پرائمری سکول میں پڑھتے ہوں گے ۔ جو جوان امریکہ کینڈا یا یورپ میں ہیں ان کی بات نہیں کر رہا کیونکہ وہ مجھے عرصہ سے جانتے ہیں ۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد میں انٹر نیٹ شروع ہوا تھا اور میں پہلے چند دنوں میں یہ سہولت حاصل کرنے والوں میں تھا ۔ مین ان سب سے پہلے چند پاکستانیوں میں تھا جنہوں نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ صوتی پیغام بھیجے
فائدے یہ ہوئے
میرا بڑا بیٹا زکریا اعلٰی تعلیم کیلئے ستمبر 1997ء میں امریکا چلا گیا ۔ تو ای میل کے ذریعہ جلد خیر خیریت معلوم ہو جاتے تھی ۔ لیکن تسلی نہ ہوتی تھی ۔ اسلئے ٹیلیفون کرتے تھے اور فی کال 700 سے 1050 روپے ادا کرتے تھے جس میں کبھی کبھار آٹھ نو منٹ بات ہوتی تھی عام طور پر آپریٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے تین منٹ بات ہوتی تھی ۔ اب تو مسئلہ نہیں رہا ۔ کمپیوٹر پر ٹیلیفون سے بہتر آواز میں بات ہوتی ہے پہلے خط لکھ کر ڈاکخانے کے ذریعہ بھیجتے اور پھر ہفتوں انتظار کرتے جواب کا ۔ اب فٹا فٹ ہو جاتا ہے ۔
پہلے کتابیں ڈھونے اور صفحے اُلٹنے میں کافی وقت ضائع ہوتا تھا ۔ پھر ہاتھ سے لکھنا پڑتا تھا ۔ اب چند منٹوں میں سب کچھ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ عِلم حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ بلاگر اور قاری مجھ سے پریشان رہتے ہیں
سوال ۔ 3 ۔ کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
جواب ۔ میری سماجی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ سماجی سرگرمیاں جاری ہیں البتہ چند سالوں سے باہر کا ماحول بدلنے کی وجہ سے کم ہو گئی ہوئی ہیں ۔ میں بم دھماکوں کی نہیں قوم کے افراد کے رویے کی بات کر رہا ہوں جو میرے جیسے انسان کو پسند نہیں کرتے
گھر میں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ میری بیگم مجھے اور عزیز و اقارب کو کہتی رہتی ہیں ” ہر وقت کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے ہیں “۔ میں کہتا ہوں ” مجھ سے قسم کرا لو جو میں کبھی کمپیوٹر پر بیٹھا ہوں ”
سوال ۔ 4 ۔ اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
جواب ۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک علت پالی تھی ” چائے ” اور اُس سے میں نے اُس وقت پیچھا چھُڑا لیا جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا
سوال ۔ 5 ۔ کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
جواب ۔ کھیلیں تو میری انٹر نیٹ پاکستان میں آنے سے بہت پہلے بند ہو گئی تھیں کیونکہ کھیلنے کی بجائے کھلانے کے دن شروع ہو گئے تھے
چلو ایک سے زیادہ بار بھی ٹیگ ہو جانے میںکوئی حرج نہیں
اجمل صاحب
آپ کے برادرز اور انکے ہم مزہب ملک پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے آپ بھی پڑھیں اور باقی بھی خاص کر رافضی عورتیں یہاں نوحہ اور تبراء بازی کرتی رہتی ہیں وہ تو لازما پڑھیں
یہ رپورٹ ایک نیم شیعہ اخبار نے شائع کی ہے کوشش کے باوجود کچھھ نہ کچھھ بتانا ہی پڑگیا اور اخبار کی بھی فیس میکنگ ہوگئی
http://www.ummatpublication.com/2009/10/26/story2.html
احمد صاحب
آپ کو سوائے طنز و عیب جوئی کے اور بھی کچھ کرنا آتا ہے ؟ دنیا میں کیا آپ ہی ایک اچھے پيدا ہوئے ہیں ؟
آپ اور مجھ میں ایک بات شریک ہے، چائے کی ‘علت’ میں نے بھی گیارہویں جماعت میں ترک کی تھی۔
ساجد صاحب
چلین جی ۔ میری کوئی چیز تو کسی دوسرے انسان سے مماثلت رکھتی ہے ۔
کیا ہوا اجمل صاحب کافی برا منا گئے
سچ سامنے لایا جائے تو برا ہی لگتا ہے نا۔ آپ زحمت کرکے رپورٹ توپڑھ لیتے اس میں آپ ہی کا بھلا تھا کہ تو طالبان کی آڑ میں علماء اور عام مسلمانوں کو گالیاں دیتے رہتے ہٰیں ان کو آئنہ دکھا سکتے
کسی اور جگہ آپ نے مجھ پر ایک کیو ایم کی حمایت کا الزام لگایا ہے جبکہ آپ کو انتا کہا تھا کہ آپ ان سے جو توقع رکھتے ہیں وہ خود نہیں کرتے
حالانکہ کود ایم کیو ایم والے جانتے کہ وہ طالم ہیں ، ان کی حمایت کوئی عقل سے پیدل شخص ہی کر سکتا ہے
اچھے ہونے کا ہم اپنی زبان سے کیا کہیں لوغ جانتے ہیں اور خلق خدا الحمداللہ اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اصل بات صحیح العقیدہ ہونا اور اچھے ہونے کی کوشش کرنا اس کیلئے اچھَےلوگوں کی صحبت حدیث میں بتلائی گئی ہے
آپ کی ہم سے ناراضگی صرف آپ کے پسندیدہ لوگوں کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے ہے، خرم صاحب کی طرح آپ پہلے تو امام ابو حنیفہ اور باقیوں سے ناراض ہوں جنہوں نے ان کو اسلام سے خارج بتلایا ہے اور تفصیل سے امت کو اس فتنے سے آگاہ کیا ہے
شکریہ اجمل صاحب۔ میراتھان پروگرامز کی تفصیلات پر بھی کبھی روشنی ڈالیے گا تاکہ اندازہ ہوکہ اُس وقت اور اب کی پروگرامنگ میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں ایک بڑا دلچسپ سلسہ ہوگا۔
السلام علیکم۔
چلو کسی معاملے میں تو میں بھی آگے ہوں۔ میں نے چائے کو چھٹی جماعت تک ہی ترک کر دیا تھا۔ :D
راشد کامران صاحب
جب میں نے ستمبر 1985ء میں آئی ایم ایس کے محکمہ میں قدم رکھا تھا ۔ وہ ایک primitive زمانہ تھا ۔ مین فریم پر کوبول اور پی سی پر رائٹنگ اسسٹنٹ کا راج تھا ۔ کوبول کا مطالعہ شروع کیا تو جوں جوں آگے بڑھتا گیا مجھے اس سے نفرت ہوتی گئی ۔ کچھ ماہ بعد مجھے انوینٹری مینجمنٹ کا کام دیا گیا یعنی آرڈر کرنے سے لے کر اس کے ورکشابس کو اجراء تک سب عوامل کو ايک جامع کمپیوٹر پروگرام میں ڈھالنا تھا جو کوبول کے بس کی بات نہ تھی ۔ پھر بھی میں نے کمپیوٹر سینٹر میں کئی سال سے کام کرنے والوں کو جنہوں نے آئی بی ایم سے درجنوں کورسز کئے ہوئے تھے کاغذ پر مکمل منصوبہ بندی کر کے کمپیوٹرائز کرنے کو کہا ۔ وہ چھ ماہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے ۔ پھر میں نے مغز کھپائی شروع کی ۔ تلاش کے دوران میرے علم میں spreadsheet آئی جو اس زمانہ میں کسی کے علم میں نہ تھی اور اس کا نام ورک شیٹ تھا ۔ میں نے اس کا مطالعہ اور مشق دن رات کی اور پھر اس کی بنیاد پر پروگرام ترتیب دینا شروع کیا ۔ کمپیوٹرائزیشن اپنے ذمہ لینے سے میرا باقی سارا کام ٹھپ ہو گیا ۔ اس پر اربابِ اختیار نے ایک کمپنی کو کنسلٹنٹ رکھا مگر وہ بھی سپریڈ شیٹ کے ماہر نہ تھے ۔ چنانچہ مجھے ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنا پڑا اور بجائے اس کہ کہ وہ مجھے کچھ سکھاتے میں ان کو سکھاتا رہا ۔ اُن دنوں میں صبح ساڑھے سات بجے سے رات گیارہ بارہ بجے تک متواتر چھ ماہ کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا پہلا کمپیوٹرائزڈ انوینٹری منیجمنٹ سسٹم تیار ہو گیا اور اگلے تین ماہ بعد اس نے کام بھی شروع کر دیا اور آج تک کر رہا ہے ۔ نارسک ڈاٹا کے یورپی ماہرین کے مطابق یہ اُس وقت دنیا کا پہلا اتنا بڑا کمپیوٹرائزڈ انوینٹری منیجمنٹ سسٹم تھا
احمد صاحب
سچ سامنے لانا اور دوسروں کو کوسنا دو الگ الگ فعل ہیں ۔ کوئی مسلمان ہے ۔ کافر ہے ۔ مشرک ہے ۔ مرتد ہے ۔ اس کا فیصلہ میں نے یا آپ نے نہیں کرنا بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے کرنا ہے ۔ مسلمان کا کام نیکی کرنا اور نیکی کی ترغیب دینا ہے اور اگر ہو سکے تو برائی سے منع کرنا ہے آپ صحبت کس چیز کو کہتے ہیں ؟ اگر کوئی قاری میرے بلاگ پر تبصرہ کرتا ہے تو اس کا مطلب میری اور اس کی صحبت نہیں ہے ۔ مزید اتمامِ حُجت کے طور پر میں نے تبصرہ کے خانہ کے اُوپر واضح بھی کیا ہوا ہے کہ میرا مبصر کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔
تبصرہ کے آداب کے خلاف آپ اپنی ہی کہے جا رہے ہیں جس کا اس تحریر کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں
سعد صاحب
میں نے تو چھٹی جماعت میں ابھی چائے پینا ہی شروع نہیں کی تھی ۔ ہم لوگوں نے کالی جائے جسے عام لوگ چائے کہتے ہيں جب میں نویں جماعت میں تھا تو پینا شروع کی تھی ۔ اس سے قبل قہواء جسے اب لوگ چائینیز ٹی کہتے ہیں اور نمکیں چائے جسے اب لوگ کشمیری چائے کہتے ہیں پیتے تھے ۔