میرے ہموطنوں بالخصوص شہروں میں بسنے والوں نے غیروں کی نقالی میں ایسی دوڑ لگائی کہ اپنی ثقافت سے بیگانہ ہو گئے ۔ ہماری دیرینہ ثقافت کے ایک جُزو سے متعلق ایک تحریر نظر پڑھی تو اسے آگے بڑھانے کا موقع ضائع کرنا اپنے آپ سے زیادتی محسوس ہوا ۔ میری خواہش ہے کہ جو کمی میں چھوڑ دوں اُسے دوسرے بلاگر یا قارئین پُر کریں
عنیقہ ناز صاحبہ کی ڈرائنگ روم کے حوالے سے تحریر میں اگر ڈرائنگ روم کی بجائے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ مہماناں یا ڈیرہ لکھ دیا جاتا تو کچھ بات بنتی ۔ ڈرائنگ روم جن کی زبان کا لفظ ہے اُن کے ہاں تو ایسا الگ تھلگ کمرہ صرف ان کا ذاتی سونے کا کمرہ ہی ہوتا ہے ۔ اُنہی کی نقّالی کو ترقی کی نشانی سمجھتے ہوئے ميرے کئی ہموطنوں نے مہمان خانہ اور کھانے کا کمرہ ملا کر اس کا نام ڈائیننگ ڈرائینگ [Dining Drawing] رکھ دیا۔
عنيقہ ناز صاحبہ لکھتی ہیں “یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی بن جائے”
اور ساتھ ہی لکھتی ہیں “گردش دوراں نے اسے کسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا”
حسنِ ذوق کے دو حصے ہوتے ہیں
ايک ۔ سليقہ
دوسرا ۔ مادی
سلیقہ کیلئے مناسب تربیت ضروری ہے اور مادی حصہ کٰی تکمیل دولت کے بغیر ممکن نہیں ۔ میں تمام تر ذوقِ لطافت کے ہوتے ہوئے آج تک اپنے مہمان خانہ کو اپنے حُسنِ ذوق کا آئینہ دار نہ بنا سکا ۔ سبب صرف فالتو دولت کا نہ ہونا تھا
عنیقہ ناز صاحبہ مزید لکھتی ہیں
“اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے”
یہ درست ہے کہ کچھ مہمان خانوں میں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ کسی چھ ستاروں والی سرائے [Six Star Hotel] میں لگی نمائش میں آ گئے ہيں لیکن اپنے کو محروم سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جس شخص کے پاس کئی کلو گرام سونا ہوتا ہے وہ بھی تو سب کی طرح گوشت سبزی اور دال ہی کھاتا ہے ۔ ویسے احساسِ کمتری اور اس کی ساری اقسام جن میں احساسِ برتری بھی شامل ہے فائل کے عمل سے زیادہ مفعول کی سوچ سے جنم ليتی ہیں
آخر میں عنیقہ ناز صاحبہ نے ایک اچھی ھدائت کی ہے “اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنے والاپاؤں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے”
خیال تو اچھا ہے لیکن اس کیلئے بھی دولت ضروری ہے ۔ کم از کم پچھلے 50 سالوں میں شہروں میں تعمیر ہونے والے مکانات میں معدودے چند ایسے ہوں گے جن میں متذکرہ سہولت موجود ہو ۔ اس کی دو وجوہ ہیں اول ۔ دولت کی کمی اور ۔ دوم ۔ جدیدیت یعنی فرنگی کی نقالی
جس طرح کے کمرے کی خواہش کی گئی ہے ہماری ثقافت کا اہم جزو تھا ۔ گھر سے باہر مگر گھر سے منسلک یا گھر کے اندر صدر دروازہ کے ساتھ ایک کمرہ ہوا کرتا تھا جسے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ [پورا لفظ حجرہ مہماناں ہے] یا ڈیرہ کہتے تھے ۔ یہ کمرہ ان مرد مہمانوں کیلئے ہوتا تھا جن سے گھر کی خواتین نے پردہ کرنا ہو ۔ اس کمرہ میں فرش بچھا ہوتا اور گاؤ تکئے لگے ہوتے تھے بعد میں جن کی جگہ کئی گھروں میں صوفے اور پلنگ یا پلنگ نما چیز نے لے لی ۔ مرد مہمان وہیں بیٹھتے اور استراحت کرتے ۔ فی زمانہ متذکرہ کمرہ جہاں موجود ہے اس علاقے کے مکینوں کو انتہاء پسند ۔ شدت پسند اور دہشتگرد کہہ کر ملیامیٹ کیا جا رہا ہے
یہ تو نستلگوئیا لگتا ہے۔
گزرا وقت لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی سب وقت ایک سا رہتا ہے!
اب چونکہ آپ نے میرا نام لیکر یہ سب لکھ ڈالا ہے تو لازمی ہے کہ میں کچھ تحریر کروں۔ شاید آپکے علم میں نہ ہو کہ میں ذات کے حساب سے پٹھان ہوں۔ میرے والد صاھب کو شیر شاہ سوری سے بڑی عقیدت تھی اسکی ایک وجہ انکا پٹھان ہونا بھی تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے انہیں اس بات پہ فخر رہے اور ہماری تربیت کے دوران بھی انہوں نے اس چیز کو ہمارے اندر داخل کرنے کی کوشش کی کہ ہم کتنی اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم میں سے بیشتر اس سحر سے باہر نکل آئے۔ البتہ اس جینز کے جنگویانہ عناصر کبھی کبھی سر اٹھا لیتے ہیں۔ اتنی تفصیل میں جا کر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے دس سال کی عمر میں پہلی اور آخری دفعہ انڈیا کا رخ کیا۔ کیونکہ میرے والد صاھب کی خواہش تھی کہ ہمیں اپنے اجداد اور اپنے ماضی کے بارے میں ضرور پتہ ہونا چاہئیے۔ انکے علاقے کا نام پٹھان کبئ ہے۔ کیونکہ خدا جانے کئ نسلوں سے یہ علاقہ پٹھانوں سے آباد رہا ہے۔ یہ سارا قصہ اس لفظ ڈیرے کی وجہ سے اٹھانا پرا۔ تو میرے ابو کے گائووں میں انکے رہائشی گھر سے ہٹ کر ایک اور تھوڑا چھوٹا گھر تھا اسے وہاں ڈیرہ کہتے تھے۔ اس گھر میں وہ لوگ ٹہرا کرتے تھے جن سے کوئ رشتہ داری نہ ہوتی تھی۔ وہاں روزانہ رات کو گھر کے مردوں میں سے کوئ ضرور رکتا تھا۔ میرے دادا وہیں قیام کرتے تھے اسکی وجہ میری دادی سے کوئ جھگڑا نہ تھا۔ کیونکہ دن میں قیام اور کھانا وہ عام طور پر گھر پر کھاتے تھے۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ علاقہ یا گھر عملی طور پر میری دادی کی سلطنت تھا۔ تمام رشتے دار مرد اور عورت وہیں رکتے تھے اور رات گئے خوب گپ لگا کرتی تھی۔ جس میں سب دور پرے کے رشتے دار مرد خواتین موجود ہوتے تھے۔
وہ لوگ جو شہر میں اپنی ملازمتوں کی وجہ سے رہتے تھے جن میں میرے تایا اور چچا بھی شامل ہیں انکے یہاں ڈیرہ نہیں تھا۔ معاشی حالات بہتر ہونے کی وجہ سے گھر بڑے تھے اور ان میں ڈرائنگ و ڈائننگ روم ہونے کے ساتھ ایک مہمان خانہ بھی تھا۔ اس مہمان خانے میں ہم بھی ایک مہینہ تک قیام پذیر رہے۔ اکثر گائووں سے آنیوالے رشتےدار بھی وہیں قیام پذیر ہوتے تھے۔ یہ مہمان خانہ گھر کا ہی حصہ تھا اور اس میں بیرونی طرف اور گھر کے اندرونی طرف کھلنے والے دروازے موجود تھے۔ چونکہ میرے تایا وہاں کے میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے اس لئے لوگوں کی ایک معقول تعداد ان سے ملنے آتی تھی۔ خاص طور پر تہواروں کے موقع پر خاصے لوگ ہوا کرتے تھے۔ وہ سب لوگ جنہیں گھر میں رات نہ گذارنی ہو انکے لئے ڈراءنگ روم تھا جہاں وہ کچھ وقت بیٹھکر گپ شپ یا ملنا جلنا کرلیں۔
یہاں میں یہ واضح کردوں کہ ایک ایسے پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود جہاں ڈیرہ موجود تھا۔ میں انہیں انتہا پسند اور شدت پسند نہیں کہہ سکتی۔ کیوں؟ کیا میں ایسے لوگوں کو انتہا پسند کہہ سکتی ہوں جن کی لڑکیاں آج سے چالیس سال پہلے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھا کرتی تھیں اور جنہیں آج سے چالیس سال پہلے بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی پسند کی شادی کر سکتی ہوں۔ جن کے گائووں میں تعلیمی استطاعت ستر فیصد سے زیادہ ہو۔ جہاں تعلیمی ادروں کو بم سے نہ اڑایا جا رہا ہو، جہاں لوگوں کو اپنی پسند کے اسلام پہ عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ذبح نہ کیا جارہا ہو، جہاں پولیو کے قطرے غیر اسلامی نہ قرار پاتے ہوں، جہاں آپکو یہ آزادی حاصل ہو کہ آپ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں، جہاں عورتوں کو بھی انسان ہی سمجھا جاتا ہو، کیا مجھے ان لوگوں کو انتہا پسند، شدت پسند اور دہشت گرد کہنا چاہئیے۔ وہاں پر بھی ڈیرہ ہے اور جینیاتی طور پر وہ انہی لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن سے یہ انتہا پسند جنکے یہاں ڈیرے ہوتے ہیں۔ مگر معاشرتی سطح پر انکے درمیان کتنا فرق ہے اسکی ایک مثال میں خود ہوں۔
قدامت پسندی یا روایت سپندی بہت محدود حد تک ہی بہتر کہی جا سکتی ہے۔ جب ساری کائنات آگے کی طرف بڑھ رہی ہے تو آپ قدامت پسندی کے کمزور بند سے اسے نہیں باندھ سکتے۔ اب بہتر طرز عمل یہ ہے کہ آنیوالی تبدیلیوں کی جگہ بناتے ہوئے نئ نسل کو اپنے ساتھ لیکر چلیں۔ یا پھر ایسے وقت کے لئے افسوس کرتے رہیں جو اب پلٹ کر نہیں آئیگا۔ چونکہ میں خود بھی اور دیگر افراد بھی عمر کے سفر میں آگے کی طرف رواں ہیں تو ایک حقیقت ہم سب کو قبول کرنی ہے اور وہ یہ کہ تبدیلی آ کر رہیگی ایسا نہیں ہو سکتا کہ باہر کی دنیا میں لوگ چاند پر جا کر تازہ بستیاں آباد کر رہے ہوں یا اپنےآپ کو ایڈز کے ٹیکے لگا رہے ہوں اور ہم حدود پاکستان کے اندر بیٹھے اس فتوی کا انتظار کر رہے ہوں کہ کیا چاند پر جا کر رہنا جائز ہے اور کیا اس سفر میں خواتین بھی ساتھ جا سکتی ہیں یا یہ کہ کیا ایڈز کے ٹیکے لگوانا جائز ہے جبکہ اس مرض کے پھیلنے میں کچھ غیر اسلامی عوامل بھی موجود ہوتے ہیں۔ فیصلہ اس بات کا کرنا ہے کہ اس تبدیلی کو آپ بردباری سے اپنی مرضی شامل کرتے ہوئے آنے دیں گے یا یہ کسی زلزلے کی طرح ہر اقدار اور روایت کو ختم کر کے آئیگی۔ اگر یہ دوسرے راستے سے آئ تو ظاہر ہے کہ اس میں معاشرے کو بہت شدید المیوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔ اور اگر آپ اس میں اپنی مرضی اور مشوروں کو شامل رکھیں گے تو یہ ہر ایک کو اپنے اندر سمو لے گی۔
عنیقہ ناز صاحبہ
بہت اچھا ہوا کہ آپ نے یہ سب لکھ دیا ۔ انسانی اقدار کبھی پرانی نہیں ہوتیں اور کسی پر قدامت پسند ۔ دقیانوس ۔ بنیاد پرست ۔ انتہاء پسند ۔وغیرہ کی چھاپ لگانے سے قبل ان کے متعلق ذاتی معلومات ہونا ضروری ہے ۔ کراچی میں ہر ہفتے درجن بھر انسانوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے اور اتنی ہی گاڑیاں جلا دی جاتی ہیں ۔ کیا اس کے نتیجہ مین آپ سب کراچی والوں کو غُنڈے اور قاتل کہیں گی ؟
عارف کریم صاحب
آپ نے درست کہا لیکن انسانی قدریں جو کئی ہزار برس پہلے تھیں آج بھی وہی ہیں صرف انسانوں کی سوچ بدلتی رہتی ہے ۔ کبھی سردی کو بُرا کہتا ہے اور کبھی گرمی کو ۔ بہار میں اسے الرجی ستاتی ہے اور خزاں میں خُشکی ۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے
ویسے میں نسل پرستی کے خلاف ہوں،
ہم مسلمان ہیں اور ہماری نسل بھی یہی ہے
میں نسل پرستی کو انگریزوں کی روایت سمجھتا ہوں،
میرے محترم بزرگ آپ توجہ کیجئیے یہ الفاظ میں نے نہیںپہلے آپ نے استعمال کئے ہیں۔ اگر روایت پسندی اور دقیانوسیت کوئ چیز نہیں تو یہ الفاظ لغت میں کیوں شامل ہیں۔ ساری انسانی اقدار ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں۔ آفاقی سچائیاں چند ایک ہی ہیں۔ اور وہ بھی اپنے پس منظر میں بعض اوقات اپنے مطلب کھو دیتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کیوں اس چیز کا حوالہ دیا کہ ڈیرے سے منسلکہ لوگوں کو انتہا پسند اور کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ مجھے اس لئے بتانا پڑا کہ ڈیرہ لفظ میرے لئے نیا نہیں، میرا بھی اس سے ثقافتی تعلق ہے۔ اور یہ نسل وغیرہ کا چکر بھی اسی سے نکلا۔ ذاتی طور پر میں خود نسل پرستی کے خلاف ہوں۔ اسکا اثر زمانہ ء اسلام میں بھی موجود تھا اسلئیے رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں اسکی مذمت کی۔ یہ ذات پات کا مسئلہ ہمیشہ سے برصغیر کی تاریخ کا حصہ ہے۔ مسلمانوں سے پہلے ہندئووں کی ذاتیں تھیں اور مسلمانوں کے بعد مزید تقسیم وجود میں آئ۔
میرا خیال ہے کہ آپ کو کراچی کا حوالہ اب دینا چھوڑ دینا چاہئیے۔ یا آپ اپنی ٹینشن کو کراچی کا تذکرہ کر کر کے نکالتے ہیں۔ اب تو سارے ملک کا یہی حال ہوگیا ہے۔ بلکہ اس سے بدتر۔ لیکن خیر اسکی وجہ آپکی کراچی کی سیاست سے نفرت نہیں بلکہ طالبانی عناصر سے محبت ہے، چونکہ میں طالبان کے خلاف ہوں اور اس بنیادی فلسفے کے خلاف ہوں جو طالبان استعمال کرتے ہیں طالبان چاہے کسی بھی ثقافتی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں اور جو زبان بولتے ہوں میں انہیں سپورٹ نہیں کر سکتی اور نہ ہی میری ان سے کوئ ہمدردی ہے۔ وہ انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہیں جنہیں پاکستان کے خلاف انتہائ کامیابی سے مذہب کی آڑ میں استعما ل کیا جا رہا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عذاب سے ہمارا چھٹکارا بھی ہو پائے گا یا نہیں۔ یا ہمیں یہ یاجوج ماجوج کی طرح ختم کر دیں گے۔ طالبان کے مسئلے کا اثر کم کرنے کے لئے کراچی کا ذکر چھیڑ دینا اسے آپکی معصومیت کہوں یا حقیقت حال سے صرف نظر۔
میری تحریر گھر کی جڑیں تو ایک سادہ سی تحریر تھی جس میں آپ نے اتنی گہرائ ڈھونڈ نکالی کہ اسے دہشت گردی سے جوڑ دیا۔ اسے کرشمہ ہی کہیں گے۔
عنیقہ ناز صاحبہ
اگر آپ میری پرانی قاری ہوتیں تو مجھے نام نہاد طالبان ۔ جو پاکستان مین لڑ رہے ہیں ۔ کا ہمدرد نہ کہتیں ۔ میں ایک سے زیادہ بار ان کے خلاف لکھ چکا ہوں اور میں ان کو اصل طالبان افغانستان والےکو بدنام کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہوں ۔
میں اصل مسئلے کے متعلق بھی لکھ چکا ہوں ۔۔
دیکھو بیٹی ۔ آپ بہت جلدی نتیجہ پر پہنچ جاتی ہیں مگر اس میں آپ کا قصور کچھ زیادہ نہیں ہے آجکل کا ماحول ہی کچھ ایسا ۔ہے اور پھر آپ ہو بھی تو پٹھان نسل سے جو دل کے صاف ہوتے ہیں مگر غصہ بہت جلد آتا ہے ۔
پاکستان کے قبائلیوں میں سے کچھ لوگ جنہیں آپ طالبان کہہ رہی ہیں اور میں نام نہاد طالبان کہتا ہوں جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے بعد دیکھا جائے تو کراچی میں جو ہوتا آ رہا ہے وہ باقی شہروں کی نسبت سب سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ مجھے کراچی شاید آپ سے زیادہ عزیز ہے ۔ وہ کراچی جسے میں سدابہار اور بااصول لوگوں کا شہر کہا کرتا تھا وہ بدقسمتی سے کب کا مرحوم ہو چکا ۔ میں کراچی میں نہيں رہتا لیکن ميرے کئی بہت قریبی عزیز کراچی میں رہتے ہیں ۔ ان میں سے ایک عشرت العباد کا ہم جماعت تھا مہاجر طالب علم رہنما تھا اور اب بھی ایم کیو ایم میں ہے ۔ میں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اسلئے نہ میں کسی کی غلط حمائت کرتا ہوں نہ مخالفت
آپ صرف طالبان کو عذاب قرار دے رہی ہیں میرے اندازے کے مطابق اور بھی بہت سے عذاب بحیثیت قوم ہم پر نازل ہو چکے ہیں اور یہ من حیث القوم ہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے
اجمل صاحب اور عنیقہ صاحبہ کی تحاریر پڑھ کر بہت مزا آیا اور بچپن کی کئ یادیں تازہ ہو گئیں
میرے ناقص خیال میں مہمان خانہ الگ ھے اور ڈیرہ بھی الگ اور صرف بیٹھک ھی لفظ صحیح ھے ڈراءنگ روم کے لیے
ایک اور لفظ سنتا آیا ہوں “گول کمرہ” کیا یہ بھی ڈرائنگ روم کا نام ھے؟ یا در اصل کمرے کی ساخت کی وجھ سے کھا گیا ھے؟
ڈائننگ روم صرف کھانے کا کمرہ ہو گا یا اور کوئ نام بھی ہو سکتا ھے
پہلے ڈرائينگ روم اور ڈيرہ پر تھوڑی لڑائی ہو رہی تھی کہ وھاج الدين احمد صاحب نے گول کمرہ کا ذکر چھيڑ ديا ابھی پتہ چلے باقی قوميتيں بھی اپنے اپنے ڈنڈے ليکر ميدان ميں اتر آئی ہيں اور افتخار انکل کا بلاگ ميدان جنگ بنا ہوا ہے ميں چونکہ مختلف قوميتوں کا مجموعہ ہوں اور مصلحت پسند بھی اسليے جب افتخار صاحب کا تبصرہ پڑھتی ہوں تو ان سے حرف بہ حرف راضی ہوتی ہوں جب عنيقہ ناز کا پڑھتی ہوں تو ان کی تمام باتيں درست لگتی ہيں
عنیقہ ناز صاحبہ نے اجمل صاحب کی تحریر کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا ہے وگرنہ اجمل صاحب کی بات سمجھ میںآنے والی ہے۔ یعنی طالبان اور القاعدہ کے نام سے ہرمسلمان کو لتاڑا جا رہا ہے اور ترقی پسند ظالموں کو کوئی نہیںپوچھ رہا۔ دراصل یورپ طالبان اور القاعدہ کی آڑ میں باعمل مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہے کیونکہ اسے معلوم ہے خطرہ صرف انہی لوگوں سے ہے۔ باقی مصر، شام، متحدہ عرب امارات میں رہنے والے مسلمانوں جیسے لوگوں سے یورپ کو اب کوئی خطرہ نہیںرہا۔
السلام علیکم۔
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں کہ یہاں ابھی تک مہمان نوازی کو دکھاوے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
اسماء بتول صاحبہ
یہ پیرس کا اثر ہے شاید ۔ میں نے بھی کچھ دن وہاں گذارے ہین لیکن پرانی بات ہے ۔ میں زیادہ تر جرمنی اور بیلجیئم میں رہا ۔ آپ جانتی ہوں گی کہ بیلجیئم مین بھی فرانس کا اثر ہے
افضل صاحب
درست کہا آپ نے ۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ زیادہ بے قصور لوگ مر رہے ہیں ۔اور اس کا نتیجہ ہمارے مستقبل کیلئے بہت برا ہو گا
بیٹھک اور ڈیرے کی اصطلاحیں مذہبی نہیں سماجی ہیں اور قریباً تمام پاکستان و شمالی ہندوستان میںان کا رواج بلا تخصیص مذہب رہا ہے۔ ڈیرہ عموماً دیہات میں گھروں سے دور ایک گھر ہوا کرتا تھا جسے کبھی حویلی بھی کہا جاتا تھا اور کبھی ڈیرہ۔ سندھ میںاسے غالباً اوطاق کہتے ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہی ہوتا تھا۔ کہروڑ پکا میں ہمارے چند اعزاء دہلی سے مہاجرت کر کے آباد ہوئے تھے۔ وہ جس گھر میں مقیم ہیںوہ کسی سکھ نے بنوایا تھا اور بتایا جاتا ہے کہ جب وہ یہاں آئے تو ابھی رنگ کی بالٹیاںبھی اس گھر میں موجود تھیں۔ اس میں بھی مردانے کا حصہ الگ تھا اور باقی کا گھر الگ۔ سو اس رواج کو اسلام سے جوڑنا کافی عجب لگتا ہے۔ بہرحال یہ میری خالصتاً ذاتی رائے ہے جو میںنے اپنے مشاہدات سے اخذ کی ہے۔ اسی طرحبیٹھک یا ڈرائنگ روم کو سنوارنا بھی کچھ گھروں میں خواتین کا شوق ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہماری چچازاد اور پھوپھیاں کپڑوں پر کڑھائی کرکے انہیںفریم کروا کر کمروں میںلگایا کرتی تھیں۔ فرنیچر کے نئے غلاف گھر میں ہی سئیے جاتے تھے۔ چیزوں کی ترتیب، آرائش، جھاڑ پونچھ یہ سب سنوارنے میںہی آتا ہے میرے تئیں تو اور اس کے لئے روپے سے زیادہ لگن اور ندرت خیال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ایک گھر جانا ہوا تھا۔ ماشاء اللہ بچیوں والا گھر تھا، یقین کیجئے سرکنڈوںسے انہوںنے گھر کی ایسی آرائش کی ہوئی تھی کی بندے کا جی خوش ہوجاتا تھا۔
قبلہ شہروں میں بنے اکثر گھروں خاص کر متوسط طبقے کے گھروں میں ڈرائنگ روم اب بھی صدر دروازوں سے منسلک ہوتے ہیں اور عموما ان مہمانوں کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں گھر کے اندرونی حصوں تک رسائی نہ دینی ہو جس کی وجہ خواتین کا پردہ بھی ہوسکتا ہے یا فارمل تعلقات بھی؛ صرف نام کا استعمال اگر انگریزی کو کرلیا گیا تو وہ اور بھی کئی چیزوں میںکیا ہی جاتا ہے اور کسی کے بھی رہن سہن کے طریقوں کی وجہ سے کم از کم پاکستان میں کسی کو شدت پسند یا دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ ویسے بھی عنیقہ بی بی کا مضمون تمثیلی نوعیت کا زیادہ تھا جس میں ان کا اہم موضوع خیال اصراف اور بے جا دکھاوا تھا نا کہ شہروں اور دیہاتوں کی زندگی کا تقابل ہے۔ میں نہیںسمجھتا کہ یہ کہنا کہ شہروں میں بسنے والوں نے غیروں کی نقالی میں دوڑیں لگائی ہوئی ہیںکسی صورت درست ہے کیونکہ شہروں کا اپنا مزاج ہوتا ہے جو دیہی زندگی سے مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے شہروں کے رہنے والوںکی عمومی زندگی میں مماثلت پائی جاتی ہے اور اس کو نقالی سے زیادہ زمانے کی رفتار سے چلنا کہہ سکتے ہیں اور یہ شہر کا عمومی مزاج ہے۔
واہ صاحب بزرگوں اور اہلِ علم کی بھی کیا باتیں ہیں!
عامیوں میں اختلاف ہوتا ہے تو بات تو تکار سے بڑھ کر پھکڑ بازی پر جا پہنچتی ہے لیکن دانش مندوں کی نوک جھونک میں بھی گہر افشانی ہوتی ہے۔
اعتراض کا جواب دلیل سے دیا جاتا ہے میری دعا ہے کہ اس طرح کی چھوٹی موٹی باتوں پر صحتمند نوک جھونک ہوتی رہے اسی بہانے علم و فکر کے نئے در واء ہوتے رہیں۔
بس اجمل صاحب ایم کیو ایم پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیں انکا 80 کی دہائی والا نسلی فاشزم اپنی جگہ لیکن اب خود پنجابیوں کو بھی پنجابی شاونزم سمجھ آتا جارہا ہے اور سندھی بلوچی پٹھان اور اردو بولنے والےکوئی بھی بنگالی نہیں ہیں اور نا ہی انمیں کوئی مجیب الرحمان ہے۔ (مجھے علم ہے کہ آپ انہیں مہاجر نمائندہ نہیں سمجھتے اس لیے سارے گجراتی ،مارواڑی،رانگڑی، بہاری بولنے والوں کو اردو بولنے والے کہیں یا شہری علاقوں والے سندھی کچھ تو کہنا پڑے گا ورنہ ایسی لاحاصل بحث شروع ہو جاتی ہے جو ٹی وی چینلوں کے مالکان پر تو ہُن برساتی ہے لیکن یہ مناظرے مینڈک کے پیشاب کے پاک یا ناپاک ہونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے) اور ایک اور بات اگر آج کی نسل میں سے (ہر نئی نسل اسی طرح جلد مشتعل ہونے والی رہی ہے تبھی تو دنیا آگے بڑھتی ہے ) اسپارک (چنگاری) نکال دیں تو باقی کیا بچے گا؟؟۔۔۔۔ روایتوں کے حافظ طوطے جنہوں نے اپنی چونچوں میں شجرے اور خاندانی عظمتوں کی تسبیحات لٹکا رکھی ہوں گی۔
خُرم صاحب
آپ نے بالکل درست نقشہ کھینچا ہے ۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ آپ میرے گھر کی بات کر رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ علاقائی ثقافت کا حصہ تھا اور کئی جگہوں پر ہے بھی اور اس کا مذہب کے ساتھ تعلق ہو تو سکتا ہے لیکن لازم نہیں ۔ پنجاب جس میں کسی زمانہ میں دہلی بھی شامل تھی اسے دیہات میں حویلی کہا جاتا تھا مگر جو علاقے سندھ سے قریب تھے ان میں اسے ڈیرہ کہا جاتا تھا ۔ میرے بزرگ کسی زمانہ میں دہلی اور آگرہ میں رہتے تھے
راشد کامران صاحب
میں نے شہروں کے سب مکانوں کا نہیں کہا بلکہ پچھلے 50 سال میں بننے والے اکثر مکانات کا کہا ہے ۔ مجھے شہر سے باہر کی ثقافت کا مطالعہ کرنے کا شوق رہا ہے ۔ میں نے پاکستان مع قبائلی علاقے اور آزاد جموں کشمیر کے زیادہ تر شہروں اور دیہات میں گیا ہوں اور میں ہمیشہ کچھ سیکھنے کی جُستجو میں ہوتا ہوں ۔ شہریوں کی عادات شروع ہی سے دیہاتیوں سے کچھ مختلف تھیں لیکن 1960 کی دہائی کے بعد فرق بڑھنا شروع ہوا اور دن بدن فرق کی رفتار تیز ہوئی جس کے نتیجہ میں دیہات والوں نے بھی شہریوں کی نقل شروع کی اس کی وجہ ٹی وی کی نشریات تھیں ۔ سو اب دیہات بھی ویسے نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے
جہاں تک عنیقہ صاحبہ کا ڈرائینگ روم کا تعلق ہے بات آگے بڑھانے کا یہ ایک طریقہ ہے کہ ڈرائینگ روم کی بجا اس کی اُردو لکھی جائے
رضوان صاحب
نوک جھونک بُری بات نہیں اگر رویہ مناسب ہو ۔ ہر بات کو اپنی مرضی کا مطلب دینے سے گڑبڑ ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے انسانی نفسیات کا کہ عام طور پر سب بات کا مطلب اپنی مرضی کا لیتے ہیں اور کہنے والے کا مدعا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔
میں ایم کیو ایم کے خلاف نہیں لیکن ان لوگوں کے کرتوت کبھی کبھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو ایم کیو ایم کی بدنامی کا باعث ہیں ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے متعلق بھی میرا یہی رویہ ہے
ایک بات مین نے محسوس کی ہے کہ خود مسلمان ہونے والے میرے بلاگ کے سرِ ورق اللہ کے نام اور چند آیات دیکھ کر تصور کر لیتے ہیں کہ میں جاہل مُلا ہوں یا اُن کے زیرِ اثر ہوں ۔ کیا تعلیم یافتہ قاریوں کا یہ انداز صحتمند ہے ؟
ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب۔ آپ نے “گول کمرہ” کے بارے میں استفسار کیا ہے۔ عرض ہے کہ یہ موجودہ طرزِ تعمیر میں “ہال” کا درجہ رکھنے والے کمرے کو “گول کمرہ” کہا جاتا ہے۔ اور یہ لازمی طور پہ گول نہیں ہوتا۔ غالبا وجہ تسمیہ اسکی یہ ہے کہ گھر کے مرکز میں واقع، اس کمرے کے ارد گرد گھر کے افراد کی زندگی گھومتی ہے تو اس لئیے بھی اسے “گول کمرہ” کہاجاتاہے۔
ڈیرہ کے بارے میں ایک وضاحت کرنی ہے کہ ڈیرہ کو سارے پنجاب میں ڈیرہ ہی کہا جاتا ہے اور یہ تقریبا سارے پنجاب میں واقع ہیں۔بلکہ غیرممالک میں مقیم وہ پاکستانی بھائی جو مل کر رہتے ہیں وہ اپنے مکان کو بھی “ڈیرہ” کہتے ہیں اور آئے گئے کی خاطر تواضع کو “ڈیرہ داری” میں شمار کرتے ہیں۔پنجاب کے ڈیرے پنجابی ثقافت میں اہم کردار رکھتے ہیں۔ کئی نسلوں کی ڈیروں سے منسوب بہت سی داستانیں، قصے اور خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔
ویسے گاؤں اور دیہات میں بھی معقول آمدنی والے لوگوں نے بہت خوبصورت کوٹھیاں بنوا رکھی ہیں۔ جن میں۔ہال۔ ڈائینگ۔ ڈرائینگ، ایک دوسرے سے الگ تھلگ بیڈ روم اٹیچڈ باتھ رومز، امریکن کچن۔ فلی امپورٹیڈ کیبنٹس وال ٹو وال الماریاں۔ غیر ملکی ایرانی قالین اور غالیچے وغیرہ، سنگِ سیاہ اور سنگ مرر سمیت کئی طرح کے قیمتی پتھروں کے فرش، باتھ رومز کے لئیے اطالوی اور ہسپانوی ٹائلز اور فرنیچر، لیمپ، فانوس وغیرہ تک امپورٹیڈ چیزوں سے گھر سجائے ہوئے ہیں۔ مگراپنے ڈیرے بھی پہلے ہی کی طرح آباد کر رکھے ہیں۔
۔۔۔ وضاحت۔۔۔عرض ہے کہ یہ موجودہ طرزِ تعمیر میں “ہال” کا درجہ رکھنے والے کمرے کو “گول کمرہ” کہا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہال” کا درجہ رکھنے والے کمرے سے مراد۔۔۔ ہال کی طرح۔۔ یعنی جسطرح آج کل ہال گھر کے افراد میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے تب گھر کا گول کمرہ یعنی نیم گولائی یا کسی بھی طول عرض میں وہ کمرہ جو درمیان میں بنایا جاتا اسے گول کمرہ کہا جاتا ۔ اور اسکی مثال آج ۃال کی طرح ہے-۔
جاوید گوندل صاحب
وضاحت کا شکریہ ۔ میرے علم کے مطابق گول کمرہ کافی پرانا لفظ ہے ۔ پرانے زمانہ میں اس کمرہ میں اپنے شوق کی نمائش کی جاتی تھی ۔ اپنی یا اپنی پسند کی مصوری یا دستکاری یا کسی اور ہُنر کے نمونے اس کی دیواروں پر آویزاں کئے جاتے تھے ۔ شکاری لوگ اپنے شکار کی نشانیاں اسی مین سجاتے تھے ۔ یہ کمرہ گول یا گول نما ہوتا تھا مگر چوکور بھی ہو تو گول کمرہ ہی کہا جاتا تھا
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم۔
لفظ مہمان خانہ میں نے کبھی اپنے ماں باپ کی زبانی سنا تھا۔
وہ ڈرا ئنگ روم کو ہی کہا کرتے تھے۔ خا ص کر ابا ۔
رہا گول کمرہ تو یہ لفظ میں نے صرف اردو ادب کی پرا نی کہانیوں ، افسانوں
اور کتابوں میں دیکھا ہے
جس کا استعمال بطور آج کے لیونگ روم کے طور پہ ہوا کرتا تھا
کم ازکم ان کہانیوں اور کتابوں میں ۔
اصل میں جب دوسری ثقافتیں اثر انداز ہوتی ہیں تو انسان خواہ مخوا ہ ہی اپنئ
ثقا فت کو کمتر یا پرا نا اور دقیانوسی سمجھ بیٹھتا ہے اور جھٹ پٹ
ٹی وی لاؤنج، ڈرا ئنگ ، ڈا ئننگ ، امریکن اسٹا ئل کچن بنا کے خوش ہوتا ہے
ہمارا گھر ایک پرا نی طر ز تعمیر پہ بنا ہوا ہے جس میں کھڑکیاں اور دروازے
ہی دروازے ہیں ، کمروں کو آپس میں ملانے والے دروازے ہیں
ہر کمرہ دو کمروں سے منسلک ہے
جبکہ جدید طر ز تعمیر میں ہر کمرہ ایک اکائی ہے جس کا باقی گھر سے
کسی دروازے کا رشتہ نہیں۔
پرا ئیوئسی مل جاتی ہے مگر تنہائی بھی
ہمارے گھر میں ایک کمرے میں بیٹھا فرد دوسرے کو دیکھ سکتا ہے
اس سے بات بھی کر سکتا ہے
مگر شاید اب یہ طر ز تعمیر دقیانوسی ہوچلا
کہ گھر والوں کو آپس میں رابطے کی ضرورت کم ہی کم پڑتی ہے
اور ڈا ئننگ روم یا ٹی وی لاؤنج میں آپس کی ملاقاتیں انجام پا جاتی ہیں
بینائی صاحبہ. السلام علیکم
متذکرہ تحریر میری لکھی ہوئی نہیں ہے. کسی صاحب نے عنیقہ ناز صاحبہ کی تحریر پر تبصرہ کیا تھا جو میں نے نقل کیا. عنیقہ ناز صاحبہ بھی کراچی کی رہنے والی تھیں. جو کار چلاتے ہوئے حادثہ میں فوت ہو گئیں تھیں. میری بڑی زبردست ناقد تھیں. میں ہوں دیہاتی اور وہ تھیں ترقی یافتہ. فرق واضح ہے