15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے اپنی آئینی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں وفاقی حکومت اور نیب سے کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت ان کے خلاف درج تمام کیسز واپس لیے جانے کے احکامات کا فائدہ انہیں دیا جائے۔ 18 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے اور27 فروری کو ڈوگر نے تمام ماتحت عدالتوں کو احکامات جاری کیے کہ این آر اوکے تحت انہیں یہ فوائد فراہم کیے جائیں۔ 28 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ ہدایت نیب اور وفاقی حکومت کو جاری کردی۔اسی دوران زرداری نے نواز شریف سے کئی ملاقاتیں کیں اور محض پی سی او ججزکو دباؤ میں رکھنے کے لیے9 مارچ 2008ء کو مشہور زمانہ معاہدہٴ مری کیا۔ اس معاہدے کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو تیس روز میں بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ درحقیقت تیس روزکے اندر بحالی کا مطالبہ قوم سے وعدہ نہیں بلکہ پی سی او ججزکے لیے ایک ڈیڈ لائن تھی
میثاقِ مری ہونے کے چار روز بعد12 مارچ 2008ء کو ایس جی ایس کوٹیکناکیس ختم کردیا گیا۔ یہ وہی کیس تھا جس میں سپریم کورٹ نے 6 اپریل2001ء کو جسٹس ملک قیوم نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر فرد جرم عائدکی تھی اورکیس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی میں چلاگیا تھا۔میثاق مری پر دستخط کے چھ روز بعد 14 مارچ 2008ء کو احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائک اور وکیل استغاثہ دانشور ملک کی رضا مندی سے آصف علی زرداری کو بی ایم ڈبلیوکیس سے بری کردیا
پریزائیڈنگ جج صغیر احمد قادری نے اپنے حکم میں یہ بات زور دے کرکہی کہ چوں کہ یہ کیس این آر او کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لیے بری کرنے کا یہ فیصلہ عام قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے بعد آصف زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل سپریم کورٹ کی فل بنچ نے آصف زرداری کی ضمانت منظورکی تھی جس کے نتیجے میں ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ رہائی کے بعد وہ پاکستان سے چلے گئے تھے اور جب وہ واپس لوٹے تو افتخار محمد چوہدری معزول ہوچکے تھے اور اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں نظربند تھے
پی سی او ججز اور ان کے ماتحت ججز کی تعیناتی کے دوران ہی میثاق مری کے چند روز بعد ہی آصف زرداری کے وکیل شہادت اعوان نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آصف زرداری کو جسٹس نظام اور ان کے بیٹے کے دہرے قتل کے مقدمے میں رہا کیا جائے۔24 مارچ 2008ء کو ایک اور پی سی او جج صوفیہ لطیف نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نعمت علی رندھاوا کی رضا مندی سے آصف زرداری کو بری کردیا۔ اس بار بھی اس فیصلے کا تعلق این آر او سے نہیں تھا
8 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن سے صرف ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج پیر علی شاہ نے آصف زرداری کو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس سے بھی بری کردیا، اس بار بھی اس فیصلے کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
9 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف سے معاہدے پر عمل درآمدکے لیے مزید10 روزکا وقت حاصل کیا۔نواز شریف اور ان کے وکلا نے جب اس تاخیرکی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو15 اپریل2008ء کو زرداری کے وکیل یوسف لغاری نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حیدر آباد کی عدالت میں ایک درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے موکل کو مشہور زمانہ عالم بلوچ قتل کیس سے بری کیا جائے۔ درخواست پیش کرنے کے صرف ایک روز بعد 16 اپریل2008ء کو عدالت نے آصف زرداری کو بری کردیا
آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لیے دس روزکا جو مزید وقت طلب کیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد نواز شریف نے جو اسلام آباد میں انتظار کر رہے تھے، انہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لیے دبئی میں بات چیت کا ایک اور دور مکمل کرلیا۔ اس وقت تک پاکستان میں ہر شخص زرداری کی جانب سے ججوں کی بحالی کے حوالے سے تاخیر کی اصل وجوہات کے حوالے سے کنفیوز تھا۔ دبئی میں کئی طویل اجلاسوں کے بعد جن کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہیں، 9 اور 10 مئی 2008ء کو نواز شریف اور زرداری کے درمیان لندن میں مزید مذاکرات ہوئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ہر قسم کی تاویلات کا سلسلہ شروع کردیا تھا، کیوں کہ جو عدلیہ بحال نہیں ہوئی تھی اس کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ اس دستاویز (پی سی او) کے قانونی اثر و رسوخ کی راہ ہموارکی جائے جو عوام کے ایک حقیقی خادم کے دستخط کے ساتھ جاری ہوئی تھی
13 مئی2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج بن یامین نے آصف زرداری اور برطانیہ میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس کرمنل کیس سے بری کردیا جس میں ان پر نادر تصاویر‘ نوادرات اور دیگر ممنوعہ اشیاء کے آٹھ کریٹ کسی بھی قسم کی کسٹمز ڈیوٹی ادا کیے بغیر پی آئی اے کے ذریعے سرے محل اسمگل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور اس حکم کی بنیاد بھی این آر او پر نہیں تھی۔ جہاں تک ملک قیوم کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر برقرار رہنے کا تعلق ہے تو اس موقع پر اس بات کا ذکر مناسب لگتا ہے کہ ملزم کے دونوں وکلا اور اٹارنی جنرل کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ ملک قیوم اور ان کے ماتحت ڈپٹی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے جب اپنے موکل کو تمام درخواستوں میں بری کرنے کا فریضہ انجام دے لیا تو ملک قیوم کو فوری طور پر تبدیل کرکے لطیف کھوسہ کو نیا اٹارنی جنرل مقررکردیا گیا۔ اس وقت تک این آر اوکی بنیاد پر یا غیرمحفوظ اور پریشان پی سی او ججزکے ذریعے جو بھی فوائد حاصل کیے گئے اس کے نتیجے میں آصف زرداری اب تمام کرمنل کیسسز سے آزاد تھے مگر اب بھی ایک مشکل درپیش تھی۔ آصف زرداری کے استاد جنرل مشرف کرسی ٴ صدارت پر براجمان تھے ان کے این آر او اور مدد اور آشیرواد کے بغیر زرداری تمام کرمنل کیسز سے بری نہیں ہوسکتے تھے۔ آخری کیس میں بری ہونے تک آصف زرداری نے مشرف کی مذمت نہیں کی لیکن اب انہیں ایک خالی ایوان صدرکی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ7 اگست 2008ء کو آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا کہ اگر نواز شریف ڈکٹیٹرکو ہٹانے میں تعاون کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی عدلیہ کو مشرف کے محاسبے کے 72 گھنٹے کے اندر بحال کردے گی۔ نواز شریف ایک بار پھر جال میں پھنس گئے اور اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے مگر 18 اگست 2008ء کے بعد جبکہ جنرل مشرف دونوں فریقوں کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کی وجہ سے زبردست دباؤ میں تھے، انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ زرداری نے اپنے وعدے پورے کرنے سے انحراف کیا اور اس کی بجائے پاکستان کا صدر بننے کی کوششیں شروع کردیں‘ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے محسوس کیا کہ انہیں کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب زرداری نے یہ کہہ کر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیا کہ وعدے اور معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں۔ اس کے بعدکیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں
31 جولائی 2009ء کو اپنے تفیصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان تمام قانونی نکات پر مکمل اور جامع اظہار خیال کیا ہے جو میں نے ریویو پٹیشنز اور اپنے عزیز دوست ایڈووکیٹ ندیم احمدکی جانب سے اٹھائے تھے۔ معزز عدالت نے اس حوالے سے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ پی سی او ایک غیر اہم اور بے مقصد معاملہ ہے اور اس کے کوئی قانونی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے اور یہ کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ 120 دن سے زیادہ کی توسیع کرکے ایک آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے مستقل حیثیت دے سکے۔ دیگر الفاظ میں سپریم کورٹ کسی قانونی ادرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ این آر اوکو 120 دن سے زیادہ مستقل حیثیت دینے کوتیار نہیں، اس کے بعد آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آزاد پارلیمنٹ کو یہ قانونی خلا پُرکرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔ انہیں اپنے رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کا انتظام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے قوم کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے ۔دریں اثناء سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے نتیجے میں خاص طو ر پر پیرا نمبر 179‘ 184‘185‘ 186‘ 187اور 188 کے مطابق این آر اوکو اس کے اجراء کی تاریخ 2 فروری 2008ء کے 120 دن بعدکالعدم سمجھا جانا چاہیے۔ اس تاریخ کے بعدکوئی بھی شخص اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب جب کہ این آر او 2 فروری 2008ء کے بعد موٴثر نہیں رہا تو پاکستان کی تمام عدالتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بری کیے جانے والے تمام مقدمات کا ازسر نو جائزہ لیں، خاص طور پر وہ مقدمات جن کی بنیاد این آر او پر ہے
مندرجہ بالا تمام حقائق حیرت ناک اور افسوسناک ہیں۔ ان کی روشنی میں ہماری قوم اور ملک کے حوالے سے کئی سنگین نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہمارے موجودہ جمہوری اداروں کو تلاش کرنے چاہئیں آخر ایک شخص واحد جس کی ترجیحات ڈھکی چھپی نہیں ہیں، آخر وہ پاکستان کی سب سے مقبول رہنما کی شہادت کے دہرے قومی سانحہ سے فائدہ اٹھانے میں کس طرح کامیاب ہوا اور اس نے ججوں پرکس طرح مسلسل دباؤ ڈالے رکھا جب کہ وہ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست سے کامیاب ہوا تھا۔ اس نے کتنی آسانی سے جنرل مشرف، نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بے وقوف بنایا، ا نہیں اپنے مقاصدکے سامنے جھکنے اور صرف اپنے ذاتی مقاصد اور فوائد کے لیے اندھا دھند اپنی تقلیدکرنے پر مجبورکیا
برناڈ شا نے بادشاہوں کی تقلید کرنے کے حوالے سے وارننگ دی تھی جو آخرکار عدم تحفظ کی وجہ سے نقصان نہیں اٹھاتے اور جو عام طور پر اچھے اوصاف رکھنے والے اور نقصان نہ پہنچانے والے لوگ ہوتے ہیں اور جو ایک ایسی جمہوریت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں جن میں معاشرے کو دیگر بااثر افرادکے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ برناڈ شا نے ایسے افراد کو ترغیب دینے والے قرار دیا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فاتح ولیم انگلستان میں ایک بے اصول شخص تھا، وہ پورے انگلستان کو ہضم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگلستان کے عوام کی خواہش کے برخلاف اپنا یہ مقصد حاصل کیا کیوں کہ اس میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو ایک شخص کو بے اصول ثابت کرتی ہیں،کیوں کہ اس میں ایک وحشی حکمراں کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ ایک سیاسی جینئس تھا اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ فرانس اور انگلستان میں کوئی کیا کہتا ہے۔ ہم ایسے شخص کوکیا کہہ سکتے ہیں
آصف علی زرداری جن طور طریقوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں پاکستان سے باہر مقیم سب سے بڑا ملزم انتخاب لڑتا ہے اور 6 ستمبر 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان کے سب سے باوقار عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صدر پاکستان کی حیثیت سے ان کے انتخاب کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں
تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ
محترم افتخار اجمل صاحب!
ہمارے نظام میں ایک بہت بڑی خرابی ہے، کہ ہماری قوم شخصیت پرستی کی شکار ہے۔ اسمیں سیاسی پارٹیز، سرکاری داروں، مزھبی جماعتوں حتٰی کے حتی کے مختلف مسالک میں، کالم نگاروں، قبائلی سرداران، پیران اور گدی نشین۔ حتٰی کہ مخصوص اداکاروں کے انتخاب تک میں سے، ہماری قوم کو، کسی کے لئیے اشتناء نہیں۔ اور جسے “مان” لیا جاتا ہے پھر ہم اسکی کوئی خامی، کوئی غلطی، کسی ھیرا پھیری، بدمعاشی، بے غیرتی، قوم فروشی نیز ہر قسم کی ملک و قوم دشمنی کو نہیں دیکھتے ۔ ایسے بتوں کے حق میں ایسی ایسی تاویلات دی جاتی ہیں، کہ آسمان بھی شرما جائے۔قومی مفاد کی بجائے شخصیتی مفاد کے لئیے سب کچھ لٹا دئیے جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔بنلند بانگ دعواے ہوتے ہیں اور وقتا فوقتا اس نشے کو ان شخصیات جھوٹے افکار اور منافقت سے توانائی ملتی رہتی ہے۔ یعنی باالفاطِ دیگر ہر کسے نا کسے نے اپنے تخیل، اپنی خواہشات، اور اپنی پسند کے مطابق بُت تراش رکھیں ہیں۔
بات یہاں تک رہتی تو بھی شاید اسقدر نقصان دہ نہ ہوتی مگر حیرت اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اسی شخصیت پرست قوم کے اوتار سے بُوم کی نچلی سطح پہ اتر آتے ہیں اور قوم و ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتے ہیں تو ایک نئے بت کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اور سارا الزام پارٹی یا ادارے کو دیکر ایسے بتوں کو پہلے سے زیادہ مراعات دیکر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ “بُت” جن کی ایماء پہ تراشے جاتے ہیں ، واپس انہی ان داتاؤں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔اور آنکھیں خیرہ ہونے پہ لوگ کسی پارٹی یا ادراہ مثلا فوج وغیرہ کو الزام دے کر آپس میں سر پھٹول کرتے رہتے ہیں۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں شخصیت سے وفاداری قومی وفاداری سے زیادہ سمجھی جاتی ہو ، وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی لوگوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر ، اگر ضرورت پڑے تو باقاعدہ ہانکا لگا کر واپس ملک میں لایا جائے اور ان پہ مقدمات کئیے جائیں اور انہیں عدالتوں سے سخت ترین سزائیں سنائی جائیں اور انکو نشانِ عبرت بنا یا جائے۔ جسطرح یہود جرمنی کے نازی فاشزم کے ہاتھوں یہودیوں پہ مبینہ مظالم ڈھانے والوں کو آج بھی ساری دنیا میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہود کی نیت اور مقاصد پہ بحث کئیے بغیر۔ پاکستان میں بھی کچھ نظام ہونا چائیے کہ قومی مجرموں کے جرائم کبھی معاف نہ کئیے جائیں خواہ اسمیں انھیں سزا دلوانے میں کتنے سال بلکہ صدیاں ہی کیوں نہ گزر جائیں ۔ بعد از موت بھی انھیں عدالتی کاروائی سے سزا سنائی جائے۔ تانکہ جس طرح کسی قوم کے ہیروز کا مقام متعین کیا جاتا ہے اسی طرح پاکستان کی مجرم، ڈکٹیٹرز ، چور، غدار شخصیات کی تاقیامت عبرتناک ذلت آمیز جگہ پاکستان کی تاریخ میں مقرر کی جا سکے۔
یہ اس صورت میں اور بھی ضروری ہے جب اس طرح کی شخصیات مشرف ، شوکت عزیز وغیرہ وغیرہ کی طرح ملک و قوم کو سخت اور سنگین نقصان پہنچا کر پوری آب تاب کے ساتھ ساری دنیا میں مزے سے گھومتے پھریں اور پاکستان کے عوام انکی لگائی آگ میں جھلس رہے ہوں ۔ اسطرح آج کے حکمران کل کو یہ روش اختیار کریں گے۔ اگر پاکستان کے شروع دنوں کی حکومتوں کی اعلٰی شخصیات (جن سے آپ کو بوجوہ اختلاف ہے) سے جواب طلبی کی جاتی تو آج مشرف یا شوکت عزیز جیسے ننگِ ملت پاکستان سے غداری کی ہمت نہ پاتے، یا کم از کم یوں نہ دندناتے پھرتے اور پاکستان سے غداری کرنے کے باوجود بھی سابق حکمران ہونے کے ناطے ہر قسم کا پروٹوکول نہ پاتے۔
اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ بہ حثیت قیک قوم کے ہم وہ روزن بند کرنے میں ناکام ہیں جہاں سے بار بار زہریلے ناگ ریاستِ پاکستان اور پاکستنی قوم کے وجود کو ڈستے ہیں۔ اور جیسے کہ یہ تماشہ جاری ہے صرف کرداروں کے نام بدل گئے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ یہ جاری تماشہ اگر رواج پاگیا تو احساسِ زیاں جاتا رہے گا۔
جاوید صاحب
یہی بات ہم آپ کے بارے میں کہیں گے کہ آپ جس کی بھی تقلید ( یہ، نظریہ مودودی کے علاوہ کسی کا بھی پنپ نہیں سکا) کرتے ہیں یا اگر جیسے تیسے مان کر چل رہے ہیں تو اسی پر قائم ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں اور نہ غور کرنے پر تیار ہیں ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ بات کرتے ہیں عمل کی کوشش نہیں کرتے
وہ کون سی بات ہے؟ آپ سہی سمجھے ، آپ کی رافضیت کو اسلام سمجھنا اور اس کی طرف داری!!
اکثر لوگوں کے بین اور آہ بکاہ جناب عرفان صدیقی کا رونا دھونا نظر آتا ہے، انکو تو درد محسوس کرنے کے پیسے ملتے ہیں باقیوں کو کیا ملتا ہے؟
سب فنکاری ہے اداکاری ہے مکر ہیں۔ جس کو جس سے محبت ہے اسی کے ساتھ ہے۔ درمیان کے فریبی لوگ عوام کو منافقوں کا چہرہ پہچاننے سے روکے ہوئے ہیں انکی جعلی ٹیسیں بہترین پردے کا کام کررہی ہیں ، کبھی مشرف کی تعریفیں کبھی مخالفت کبھی زرداری کے راستا ہموار کرنے کبھی اس کی مخالفت اور اگلے کا راستہ ہموار کرنا ۔ بات بھی یہی کام کرتے گذرے اولاد بھی اسی کام پر اور آنے والی نسل بھی اسی کام پر۔ منافقت مشکل کام نہیں البتہ منافق کو پردہ دینا مہارت اور محنت کا کام ہے اور ایمانداری سے دیکھا جائے تو مودودیت سے متاثر لوگوں نے اس میدان میں کسی کو اپنے مدمقابل نہیں رہنے دیا۔
لگے رہو منے میا ں!
(جو ایسے ہیں وہی سب مخاطب ہیں)
سبحان اللہ۔