“بس جی ۔ روپیہ ہونا چاہیئے”
“روپے کے بغیر زندگی مشکل ہے”
“روپے کو روپیہ کھینچتا ہے”
“روپیہ ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں” ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ سب کج فہمی یا کم عقلی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو مالدار ہمیشہ مالدار اور بے مایہ ہمیشہ بے مایہ رہتا
حقیقت يہ ہے کہ طاقت روپیہ نہیں ہے بلکہ اصل طاقت انسان کے اندر ہوتی ہے
روپے سے بہترین بستر تو خریدا جا سکتا ہے مگر نیند نہیں
روپے سے کسی کی زبان تو خریدی جا سکتی ہے مگر دل نہیں
روپے سے جسم تو خریدا جا سکتا ہے مگر محبت نہیں
روپے سے ایئر کنڈیشنر تو خریدا جا سکتا ہے مگر دل کی ٹھنڈک نہیں
روپے سے مقویات تو خریدی جا سکتی ہیں مگر صحت نہیں
ساری دنیا کی دولت لگا کر بھی دل کا اطمینان نہیں خریدا جا سکتا
روپے کا ایک کارِ منصبی ایسا ہے جو انسان کو بہت کچھ دے جاتا ہے
وہ ہے خود غرضی سے باہر نکل کر روپے کا ضروتمندوں پر استعمال
اللہ ہمیں اپنی دولت کے درست استعمال کی توفیق عطا فرمائے
السلام علیکم۔
اتنے عرصے بعد کسی کالم کے بجائے آپ کی اپنی تحریر پڑھ کر اچھا لگا۔
مجھے آپکی تحرير سے اختلاف ہے جو باتيں آپ نےلکھی ہيں افسانوں کی حد تک اچھی لگتی ہيں يا خواتين ڈائجسٹ اخبار جہاں وغيرہ ميں حقيقت يہ ہے کہ روپے سے دنيا کی ہر چيز ہر خوشی صحت حتی کہ محبت تک خريدی جا سکتی ہے اپنے اردگرد دولت والوں کی آسودگی ديکھ ليں اور يہ جو گلی کوچوں بازاروں ميں پھٹ رہے ہيں ان کو ديکھ ليں؛
میں آپ کی باتوں سے کلی متفق ھوں روپیہ ہاتھ کا میل ہے آپ اگر اس میل سے جان چھڑانا چاہیں تو میں آپ کو اپنا بنک اکاؤنٹ دے سکتا ہوں :D
یہ سب باتیں سننے میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن جسکے پاس نہیں ہوتا اس سے پوچھئے۔ لوگ اسکے لئے اپنے بچوں کو بیچ دیتے ہیں۔ اپنے گردے بیچتے ہیں، اپنا جسم بیچتے ہیں اور اپنا ایمان بھی۔ دراصل پیسے کی ایک باعزت مقدار ہر انسان کے لئے ضروری ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بس پیسے کی ہوس نہیں کرنا چاہئیے اور جو پیسہ مل رہا ہے اس میں سے اپنے رشتے داروں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کا حصہ جو بنتا ہو اسے ادا کرتے رہنا چاہئیے۔ اسکو محض اپنی عیاشیوں پہ خرچ کرنا صحیح نہیں ہے۔
اسماء صاحبہ
پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا
فارغ صاحب
میں نے روپے کو ہاتھ کا میل نہیں کہا ۔ میں اپنی کمائی میں سے آپ کو دے سکتا ہوں مگر اس کی شرط ہے کہ آپ زکوات یا خیرات کے حقدار ہوں اور جو حقدار آپ کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب ہیں انہیں دینے کے بعد کچھ بچ جائے
عنیقہ صاحبہ
دولت کی باعزت مقدار باعزت طریقہ سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔ جو باتیں اسکے بعد آپ نے لکھی ہیں وہ انسان ہونے کی نشانی ہیں ۔ بے غیرتی کے رزق کیلئے ہر روز مرنے سے بہتر ہے کہ انسان بھوکا مر جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی غیرت کو بحال رکھنے والا شخص میں نے اپنی پوری زندگی میں بھوکا مرتے نہيں دیکھا ۔ جو رازق کیڑے کو زمین کی تہہ میں اور مچھلی کو سمندر کی تہہ میں رزق مہیاء کرتا ہے وہ اس پر بھروسہ کرنے والے انسان کو نہیں دے گا ؟
باتیں تو دوسرے لوگ مجھ سے زیادہ اچھی کر لیتے ہیں لیکن مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی ہے کہ میرے منہ سے یا قلم سے وہی بات نکلتی ہے جس پر میں عمل کرتا ہوں
بہت اچھا لکھا ہے آپ نے افتخار انکل۔ ماشاء اللہ
میری رائے میں پیسہ کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں رائج رہا ہے۔ خواہ وہ جنس کے بدلے جنس ہو یا یا کسی دوسرے طریقے سے بنیادی انسانی ضروریات اور دوسرے روزمرہ کا کاروبار زندگی کے لئیے ضروری لوازمات ہوں۔
ہر دور کی طرح زندگی گزارنے کے لئیے آج بھی “ضروری لوازمات” اتنے ہی ناگزیر ہیں جتنے کبھی ماضی میں تھے۔ ان ” ضروری لوازمات” کے حصول کے لئیے پیسہ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ یعنی دوسرے معانی ضروری لوازمات کے حصول کا نام لیتے ہیں ذہن کے پردہ میں پیسہ کا تصور ابھرتا ہے۔ اسلئیے جائز ضرورتیں پورا کرنے کے لئیے جائز اور دیانتدارانہ تگ و دور سے حلال کمایا گیا پیسہ جتنا بھی ہو۔ اسمیں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ ایک جب آمدن کے ذرائع جائز اور دیانتدارانہ ہونگے تو لازما ایسی آمدن یا پیسہ نیک کاموں میں مصرف ہوگا۔ اور اسلام میں ایک مالدار مومن کی حوصلہ افزائی محض اسلئیے کی گئی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ اسلئیے نیک ذرائع سے دینتدارانہ طریقے سے حلال کا پیسہ کمانا بھی ثواب کا کام ہے۔کیونکہ اس پیسہ سے زکوٰاہ وغیرہ دینے کے بعد بھی انسانی فلاح کے کام ہوتے ہیں یا کسی نہ کسی صورت میں وہ عام مسلامن کے بھی کام آتا ہے
آپ کہتے ہیں۔۔۔ لیکن مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی ہے کہ میرے منہ سے یا قلم سے وہی بات نکلتی ہے جس پر میں عمل کرتا ہوں۔۔۔۔۔آپ کا یہ فرمان قابل قدر ہے۔ اور بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔
ہاہاہا۔۔آپ نے تو جوابی حملہ کر دیا
روپیے کا حصول شیطانی عمل ہے۔ کیونکہ جب آپ لوگوں کو یہ پتا ہی نہیں کہ روپیہ کیسے بنتا ہے تو اسکا حصول بے معنی ہو جاتا ہے۔