رنگ رنگیلی دُنیا میں ہیں رنگ رنگ کے دھوکے
سوچ کے قدم اُٹھانا ۔ بعد میں نہ پچھتانا دل والے
پچھلے سال جب پہلی بار مناواں میں قائم پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ طالبان کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے لٹکا دیا گیا ہے اور اس پر جو فلم چلائی جاتی ہے ہم اُسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کوئی ہولناک ڈرامہ چل رہا ہے ۔ میں نے اپنے ہموطنوں کی توجہ اس خطرے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ بہت کم کو میری بات سمجھ آئی ۔ وجہ واضح تھی کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ہاتھی کس بلا کا نام ہے ۔ حیرت یہ ہے کچھ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے اور بڑے ہوشیار تھے نامعلوم کیوں اس طرف نہ صرف طائرانہ نظر ڈالنے سے گریز کرتے رہے بلکہ شدت سے اس خیال کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ مدعا بیان کرنے سے قبل میں ماضی کے کچھ واقعات کا مختصر حوالہ دینا چاہتا ہوں
لاہور کے قریب جو بی آر بی نہر ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان بننے سے قبل ہوئی تھی اور اس کی تمام تفصیل بھارت کے پاس موجود تھی ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پہلے ہی ہلّے میں بھارت کی فوج اور ٹینک بی آر بی نہر کے کنارے پہنچ گئے تھے وہ ٹینکوں سمیت بی آر بی نہر پار کر کے لاہور پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن بی آر بی نہر کو پار کرنے کی جرآت نہ کی اور پاکستانی فوج کو ان کے مقابلہ کیلئے پہنچنے کا وقت مل گیا ۔ ظاہر ہے کہ نہر کی گہرائی کے متعلق وہ شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا شک دور کرنے والا نہ تھا
ستمبر 1965ء کی جنگ جب بھارت نے شروع کی تو بھارتی فوج واہگہ چوکی پر بارڈر ملیشا کے جوانوں کو شہید کرتے ہوئے جلّو سے آگے نکل کر نہ صرف رُک گئی بلکہ کچھ پسپائی اختیار کی اس خیال سے کہ اُن کا کسی مضبوط فوج سے ٹکراؤ نہیں ہوا کہیں پاکستانی فوج نے اُنہیں گھیرے میں لینے کیلئے چال تو نہیں چلی ۔ اگر انہیں کوئی بتا دیتا کہ پاکستانی فوج تو موجود ہی نہیں تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوتا
کوئی 40 سال پیچھے کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر جو مینٹننس کا انچارج تھا کو سیکیورٹی کیموفلاج کورس کیلئے بھیجا ۔ واپس آنے پر اس نے مجھے حیرت کے ساتھ بتایا کہ اسے کہا گیا کہ جب آپ کو اپنی فیکٹری نظر آئے تو آپ نے بتانا ہے پھر ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی سے حسن ابدال اور درمیانی علاقہ کے چکر لگوائے گئے ۔ سفر ختم ہو گیا مگر اسے اتنے بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی فیکٹری نظر نہ آئی حالانہ فیکٹری کا “لے آؤٹ” [layout] اس کے دفتر میں دیوار پر لٹکا رہتا تھا ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو وہ فوراً بتا دیتے یہ ہے میری فیکٹری
دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران دن کے وقت بھارتی ہوائی فوج کا ایک سکوارڈن نیچی پرواز کرتا ہوا پاکستان آرڈننس فیکٹری کے کافی بڑے حصے کے اُوپر سے گذرا ۔ اُسی شام بھارتی ٹی وی اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ بھارتی ہوائی فوج نے پاکستان آرڈننس فیکٹری پر بم گرائے ۔ یہ بم پاکستان آرڈننس فیکٹری سے ہی نہیں ٹيکسلا سے بھی راولپنڈی کی طرف مرگلہ کی پہاڑیوں سے کچھ پہلے گرے تھے ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو گئی تھی فیکٹری
دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران رات کے وقت بھارتی ہوائی فوج نے بالائی سندھ میں صادق آباد کے قریب مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا ۔ رات اندھیری تھی اور ٹرین کی بجلیاں بند تھیں ۔ اس میں دو عمل توجہ طلب تھے ۔ ایک ۔ ریلوے حکام کی ہدائت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روہڑی سٹیشن پر ایک ٹرین روکے رکھی گئی اور دوسری ٹرین آنے پر مزید حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ٹرینوں کو جوڑ کر روانہ کیا گیا ۔ اور دوسرا ۔ جس علاقہ میں ٹرین پر حملہ ہوا اُس کے قریب ایک چاردیواری کے اندر سے طاقتور ٹارچ کے ذریعہ اشارے [signal] دیئے گئے جس کے بعد ہوائی جہاز ٹرین کی سیدھ میں آیا اور حملہ کیا ۔ اس چاردیواری میں کچھ سالوں سے ایک شخص رہتا تھا جسے علاقہ کے لوگ سائیں بابا کہتے تھے ۔ گذری شام تک وہ وہیں تھا لیکن اُس رات کے بعد وہ نظر نہیں آیا
ان واقعات کے مختصر بیان سے غرض یہ تھی کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں متعدد دوسرے اہم حملوں کے علاوہ مناواں اور لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر پر دو دو حملے ۔ بیدیاں روڈ پر ايلیٹ فورس کے تربیتی مرکز پر ایک اور جی ایچ کیو پر ایک حملہ ہو چکا ہے ۔ ان سب حملوں کے طریقہ کار سے ایک تو فوجی کمانڈوز جیسی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔ طالبان کا طریقہ کار بالخصوص شہروں میں ایسا ماہرانہ نہیں ہے ۔ دوسرے ۔ یہ کہ ان علاقوں کے اندر کے حالات طالبان کو کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ حملہ آوروں کو ایسے اشخاص کا تعاون حاصل تھا جو متعلقہ اداروں کے اندرونی حالات سے واقف ہیں یا تھے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی خطرناک کھچڑی پک رہی ہے اور قوم سوئی ہوئی ہے
ایک اور بات جو دماغ کو کُریدے جا رہی ہے ۔ عقیل عُرف ڈاکٹر عثمان تين سال سے زائد قبل فوج سے بھگوڑا [absconder] ہو گیا تھا ۔ پچھلے سال میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں وہ اتفاق سے اکتوبر 2008ء میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں اُسے چھوڑ دیا گیا ۔ اگر اس کا تعلق میریئٹ ہوٹل پر حملہ سے نہیں بھی تھا تو اُسے قید میں رکھنے اور تفتیش کرنے کیلئے اُس کا فوج سے بھگوڑا ہونا ہی کافی تھا ۔ اُسے کیوں اور کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ؟؟؟ صاف ظاہر ہے کہ کوئی سرکار کا بارسوخ آدمی ہو گا جس کی ایماء پر چھوڑا گیا
اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے غیرملکی چِپ [chip] نکال کر اپنے اصل دماغ سے سوچنا شروع کرنا ہو گا
اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے خود محنت سے کام کرنا ہو گا ۔ اپنے دماغ سے سوچنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا
اچھی دفاعی معلومات ہیں
جناب اجمل صاحب
بہت اچھی طرح آپ نے لوگں کو سمجھا یا ہے اور بات سو فیصد درست ہے مگر جن سے آپ بات کرتے ٹکریں لگا رہے ہیں وہ ہنس رہے ہیں اس لیئے کہ دو طبقات کا یہاںآانا جانا زیادہ ہے ایک رافضی اور دوسرا جماعت اسلامی کے ماننے والے اور وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، کیسے؟ ایک تو منافق اعظم اپنی پیدائش سے اسلام کے خلاف ہر کام میں شریک کار اور سازشی اور دوسرے لوگ انکے بھائی انکی فیس میکنگ کا کام کرنے والے ، ان پر پردہ ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے ۔ رافضی کو کو داد دینے سے پہلے مودودیت کو داد دینی چاہیئے کہ کاروائی کرنا مشکل نہیں اسکو چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ اب ایسے لوگوں کو سمجھانے پر آپ کی توانائی لگ رہی ہے وہ تو گمراہ کرنے کو ہاں میں ہاں بھی ملا سکتے ہیں اور آپ سمجھیں گے کہ کام بن گیا
اس کے بجائے آپ مسلمانوں پر محنت کریں کیوں کہ انکی جان مال کی حفاظت جہاد ہے وہ آپ کی بات سمجھیں گے بھی
بغداد کے خلیفہ رافضی وزیراعظم نے جب چنگیز خان سے تعاون کرکے مسلمانوں کا خون کروایا تو صدیوں بعد بھی اسکے کام کو اپنی قوم سے داد ملی کہ خمینی بول اٹھا کہ یہ اسلام کی خدمت تھی!
مسلمان کہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں کھڑا ہے اور کس کے ساتھ کھڑا ہے
آپ کا کا بلاگ بہت قیمتی ہے باقی لوگ بس تفریحی مقاصد کے تحت لگے ہیں۔
لیکن ایکی بات جان لیں لوگوں کو اسلام میں آنا ہوگا یا نکل جانا ہوگا ، منافقت کیلئے 60، 65 سال بہت ہوتے ہیں
بوسنیا والوں نے بھی اپنے اعمال کا خراج دیا تھا اب پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی باری ہے
احمد صاحب
آپ اُس وزیرِ اعظم کا نام جانتے ہیں جس نے چنگیز خان سے تعاون کیا تھا ؟ جہاں تک مجھے تاریخ یاد ہے چنگیز خان نے بغداد پر ہملہ نہیں کیا تھا بلکہ ہلاکو خان نے کیا تھا
دیگر یہاں جماعتِ اسلامی کہاں سے آ ٹپکی میری تحریر میں ۔ آپ نے کچھ دن قبل میری تحاریر کو مودودیت کے زیرِ اثر لکھا تھا ۔ میں نے اس پر کچھ لکھنا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ میری تحاریر میری اپنی سوچ ہے جو قرآن و سُنت کے زیرِ اثر ہو سکتی ہیں اور اگر مودودی صاحب بھی قرآن و سنت کے زیرِ اثر لکھتے تھے تو مماثلت ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں
افتخار انکل 65 کی جنگ کے بارے میںجو میری تحقیق ہے وہ آپ کی بیان کردہ باتوں سے کچھ مختلف ہے لیکن بہرحال موضوع یہ نہیںہے۔ ایک واقعہ سُناتا ہوں آپ کو۔ سرگودھا ایئربیس پر تعینات ایک انٹیلی جنس کا بندہ جاسوسی کے مشن پر بھارت بھیجا گیا۔ جب وہ بھارتی ائیر بیس میں بھیس بدل کر داخل ہوا تو اسے ایک بندہ دکھائی پڑا جو سرگودھا ایئر بیس پر کام کیا کرتا تھا اور اس کی اس سے اچھی صاحب سلامت تھی۔ وہ بندہ اصل میں بھارتی جاسوس تھا جو سرگودھا ائیر بیس پر تعینات تھا۔ اس نے اس پاکستانی کو پہچان کر کہا کہ تمہارے ساتھ اچھا وقت گزرا ہے سو فوراً یہاں سے نکل جاؤ اور واپس چلے جاؤ وگرنہ میں تمہیں رپورٹ کرنے پر مجبور ہوں گا۔ پاکستانی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس آگیا۔ سو یہ جو انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے دونوںملکوں کا وہ بہت مضبوط ہے۔ اور اگر پاکستان میں کسی کو بم دھماکے یا حملہ کرنے کے لئے کسی دفتر کے متعلق معلومات درکار ہوں تو وہ ملنا اتنا مشکل نہیں۔ ہمارے ماموں کے محلہ میں آئی ایس آئی والے ایک مکان کرایہ پر لے کر رہتے تھے اور تمام لوگوں کو اس کا علم تھا بلکہ صوبیدار صاحب تو چائے پانی کے دوران کافی باتیں بھی سُنایا کرتے تھے (اگرچہ شکاری اور فوجی کی باتوں میں سچ کا تناسب کافی کم ہوتا ہے )۔ ڈاکٹر عثمان کو رہا کیوں کیا گیا اس معاملہ میں تو ارباب حل و عقد ہی کچھ بتا سکتے ہیں مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت کسی جعلی نام سے گرفتار ہوا ہو اور اس کی شناخت بطور عقیل نہ کی جاسکی ہو۔
آپ کو اسکا نام پتا کرکے بتا دوں گا میر جعفر اور صادق تو بہت مشہور ہیں اس لیئے سب کو یاد ہوتے ہیں مگر کم کم کو یہ پتا ہے کہ وہ رافضی تھے
آپ کی سب تحاریر مودودیت سے متاثر ہونے کا ہم نے نہیں کہا مگر گاہے بگاہے یہ بات سامنے آتی رہتی ہے
قرآن اور سنت یہ بھی خوب کہا آپ نے، اس طرح تو طاہرالقادری بھی خوب باتیں کرتا ہے اور یوٹیوب پر لوگ اس کو سجدہ کرتے نظر آتے ہیں۔ طلوع اسلام کا غلام احمد پرویز بھی بڑی باتیں کرتا تھا
مودودیت شیعت کا ایڈیشن ہے اور اس نے شیعت کو بچانے کے علاوہ کیا کام کیا اب تک؟ سارے لکھنے والوں( صحافیوں) کی اکثریت میں سے یہ بھی ہیں تو دیکھو کیا لکھتے ہیں؟
کافر خطرناک نہیں منافق اور مرتد خطرناک ہیں، یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ قادیانی کافر لکھے گئے ورنہ ۔۔۔
آپ منافق اور مرتدوں کو سامنے لائیں ، کافر کی دال پھر نہیں گلنے لگی
خرم صاحب
جو باتیں میں نے لکھی ہیں وہ مصدقہ ہیں ۔ ادھر اُدھر سے سُنی سنائی نہیں ۔
جو واقعہ آپ نے سنایا ہے وہ درست ہے لیکن صرف اتنا ہوا تھا کہ بھیس بدلے ہوئے پاکستانی کو بھارتی نے پہچان لیا تو پاکستانی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر واپس ہوا اور پاکستان آ گیا ۔ اُس بھارتی نے شاید اتنی مہربانی کی کہ اُسے نکل جانے دیا اور پھر رپورٹ کر دی ۔ چھاپے مارے گئے لیکن کامیابی نہ ہو سکی
عقیل کی پہچان ہو گئی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے رہا کر دیا گیا تھا یا بھگا دیا گیا تھا ۔ اس طرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں
ایک بات بتا دوں کہ 20 سال قبل کی آئی ایس آئی اور آج کی آئی ایس آئی میں معیار کا بہت فرق ہے
احمد صاحب
بغداد کے اُس وزیرِ اعظم کا نام محمد بن حسن جہرودی طوسی تھا مگر مشہور وہ خواجہ نصیرالدین طوسی کے نام سے ہوا ۔ تاریخ پیدائش 15 جمادی الاول 598 ہجری ۔ وفات 672 ہجری [1201ء ۔ 1274ء] ۔ وہ اسماعیلی مسلک رکھتا تھا ۔ معروف بڑا ریاضی دان تھا ۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان سے ساز باز کی اور بغداد تباہ ہوا اور تمام علم کا خزانہ ہالاکو خان کے فوجیوں نے تباہ کر دیا ۔ چند سال قبل امریکيوں نے ایک بار پھر بغداد کی تمام لائبریریاں جلا ڈالیں
آپ سب کو منافق اور مرتد قرار دے رہے ہیں تو میری باری کب آئے گی
“ایک بات بتا دوں کہ 20 سال قبل کی آئی ایس آئی اور آج کی آئی ایس آئی میں معیار کا بہت فرق ہے”
مطلب بیس برس پہلے معیار اچھا تھا یا کہ اب؟
سعود صاحب
بلا شُبہ بیس برس پہلے اچھا تھا
شکریہ اجمل صاحب
ہم ان سب کی تاریخ پڑھ رکھی ہے مگر نام زہن بھی نہیں تھا البتہ ان سب کے کارنامے کون بھولتا ہے
اسکا مسلک اسماعیلی نہین تھا بلکہ مزہب اسماعیلی تھا
منافق اور مرتد تو انسان اپنے عمل و عقیدہ کی وجہ سے ہوتا ہے رافضی اور قادیانی اپنے عمل و عقیدہ سے بنے ہیں۔ آپ کے عمل و عقیدہ ٹھیک ہے تو بھلا کیسے آپ ان کی فہرست میں آئیں گے؟
آئی ایس آئی۔ ابھی بھی دنیا کے چند ایک بہترین خفیہ اداروں میں سے ایک بہترین اداراہ ہے۔
اگر کسی ادارے کو حاکم وقت اپنے گھناؤنے مقاصد کے لئیے استعمال کرتا ہے تو اس حاکم کی مذمت کی جانی چاہئیے ۔ نہ کہ ادارے کی۔
ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اپنی ہی ہیروز کو رگیدتے رہتے ہیں۔ ایک فیشن کے تحت زمانے کے چلن کو دیکھتے ہوئے ، آرام دہ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر ملکی مفاد کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالنے والوں کو، دشمن کے سرد گرم کا مقابلہ اپنے جان دے کر، کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنانا دنیا کا آسان ترین کام ہے ۔ جبکہ ایسے گمنام لوگوں کی قربانیوں کا عشر عشیر بھی ادا کرنے سے ہم قاصر ہیں۔ ایسے میں کم از کم تنقید برائے ملامت سے اجتناب برتنا چاہئیے۔ مگر ہمیں دانشور کون کہے اگر ہم ہر خوبی کو باعث تنقید و مالامت نہ بنائیں ۔
یہ احمد صاحب کا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کو بات بے بات منافق مرتد اور پتہ نہیں کیا کچھ قرار دینا ہے۔ ان حضرت کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔
احمد صاحب
۔نوازش کا شکریہ ۔ میں نے جان بوجھ کر مسلک لکھا ہے ۔ میں بلاوجہ گالیاں سننا پسند نہیں کرتا
حق بات کہنے سے کیا ڈرنا اجمل صاحب؟ حق بات کہنے سے گالیاں میلں گی کیوں کہ رافضیوں کا مزہب ہی تبراء بازی ہے۔ جو حق کہنے سے ڈرتا ہے وہ باطل کی حمایت ھی کرتا ہے اسی بات پر آپ کا ایم کیو ایم والوں سے اختلاف رہتا ہے اور آج آپ خود ڈر گئے-
رہ گئی بات مشغلہ کی تو جاوید صاحب کو شدید تکلیف پہنچی ہوگی اس لیئے وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے مگر مختصر انکو اسی بلاگ پر 2 روز میں ان شااللہء سمجھانے کی کوشش کرٰیں گے سمجھ گئے تو ٹھیک ورنہ وہ اور انکے مربی رافضی کرلیں جو کرتے رہتے ہیں ، انجام میر جعفر والا ہی ہوگا
ہم نے کسی خرم صاحب کو رافضیت کے کفر پر جواب لکھا تھا کاش جاوید صاحب بھی پڑھ لیتے
رہے نام اللہ کا!
احمد صاحب
آپ حق کا نام بار بار لے رہے ہیں لیکن حق کی تعلیم و تربیت سے آشنا نہیں لگتے ۔ میں سوائے اُس پیدا کرنے والے اللہ کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے سے ڈرتا ہوں اسلئے کسی اور سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اللہ نے اپنے حبیب اور رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب کہہ دیا کہ جس نے کلمہ پڑھ لیا اُسے کافر مت کہو تو پھر مجھے یا آپ کو کیا حق پہنچتا ہے ؟
دوسرا حکم اللہ کا ہے کہ کسی دوسرے کا مذاق نہ اُڑاؤ چہ جائیکہ اُسے بُرے ناموں سے پکارا جائے ۔
حق یہی ہے کہ میں اپنی اصلاح کروں اور آپ اپنی اصلاح کریں ۔
ہاں ۔ نیکی کی دعوت دینا مسلمان کا فرض ہے لیکن اس کیلئے احسن طریقہ اختیار کرنے کا حُکم ہے ۔ کافر مرتد وغیرہ کہنے کا نہیں
آپ نے مسلک کے معنی جاننے کی بجائے مذہب لکھنے کا مشورہ دیا حالانکہ مسلک ہی موزوں لفظ تھا کیونکہ مذہب کا مطلب فرقہ ہوتا ہے جب کے اسلام دین ہے جو لفظ مذہب کی نسبت لفظ مسلک کے زیادہ قریب ہے
اب آتے ہیں انسانی عقل و فہم کی طرف ۔ کوئی شریف آدمی ایسا نہیں کرے گا کہ خواہ مخوا کُتے کو پتھر مار کر اپنے اُوپر بھونکنے پر مجبور کرے ۔ اسی لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کسی فتنے کو اپنے عمل سے اُبھاروں ۔ لیکن اگر کوئی فتنہ اُٹھے تو اس کا جواب دلائل کے ساتھ دیتا ہوں
آپ نے ایم کیو ایم سے میرے اختلاف کو بھی گھسیٹ لیا ہے تو سُنیں مجھے ایم کیو ایم کے راہنماؤں اور ان کے اندھے پیروکاروں کے حقیقت کے خلاف عمل اور گفتار سے اختلاف ہے ۔ ساری ایم کیو ایم سے اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی راہنماؤں سے کو ذاتی دُشمنی ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ ایک طرف آپ شیعہ کو مرتد اور کافر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ان کی حمائت میں بات کر رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم میں شیعہ بھی ہیں اور اللہ کے احکام کا مذاق اُڑانے یا مخالفت پر عمل کرنے والے روشن خیال بھی
اگر آپ نے کسی سے کوئی حساب چکانا ہے تو میرا بلاگ اس کیلئے استعمال نہ کریں تو بہتر ہو گا