مندرجہ ذیل عبارت میں تھری ملین ڈالر مین [Three Million Dollar Man] کون ہے ؟ بوجھیئے تو جانیں
امریکہ اور برطانیہ میں گزارے گئے ان چند دنوں میں مجھے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے ۔ غیرملکی امدادکسی مسئلے کا حل نہیں ۔ ہمیں صرف دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ کرپشن اور بدانتظامی کے خلاف بھی متحد ہونا ہوگا ۔ لندن میں ایک انتہائی قابل اعتماد شخصیت نے مجھے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک عرب ملک کی فضائی کمپنی نے پاکستان میں اپنی پروازوں کی تعداد میں اضافے کی کوشش کی ۔ جب کامیابی نہ ہوئی تو مذکورہ فضائی کمپنی نے ایک مقتدر شخصیت کو تین ملین ڈالر دے کر اپنا کام کروا لیا
یہ مقتدر شخصیت صرف خود کھانے کی شوقین ہے اور بدقسمتی سے ڈالر کھانے کی شوقین ہے ۔ اس شخصیت کو نجانے یہ احساس کیوں نہیں ہو پا رہا کہ زیادہ کھانے سے ناصرف بدہضمی ہوجاتی ہے ۔ بلکہ بدنامی بھی ہوتی ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی بے حس مقتدر شخصیات کو اقتدار کے ایوانوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے کیونکہ یہ شخصیات صرف جمہوریت نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی خطرہ بنتی جارہی ہیں ۔ اور کوئی جانے نہ جانے لیکن جناب نواز شریف اس ”تھری ملین ڈالر مین“ کا نام ضرور جانتے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے کہ ”تھری ملین ڈالر مین“ کو بے نقاب کریں اور اسے بھی پرویز مشرف کے پاس لندن بھیج دیں
بشکریہ ۔ جنگ
چوروں اور ڈاکؤوں کا صدر: زرداری!
غالباً یہ جناب دس فیصدی (مسٹر 10 پرسینٹ( کا کام ہو گا۔
بلا ثبوت الزام لگا رہے ہیں حامد میر کو پھلجھڑیاں چھوڑنے کے بجائے صاف بات لکھنی چاہیئے ورنہ ہر شخص کو مشکوک بنا دینا کہا ں کا انصاف ہے۔۔اس سے تو حامد پر یہ الزام بھی لگ سکتا ہے کہ اپنا شئر مانگ رہے ہیں۔۔
اس سوال پہ حیرانی ہوتی ہے۔ بھلا بکریوں کے ریوڑ گُھسے، اونٹوں کے ریوڑ کو پہچاننا کونسا مشکل کام ہے۔ جبکہ پاکستانی حکومتوں اور ہماری پاک صاف انتظامیہ تو اسقدر کرپٹ ہیں۔ کہ دور تک اونٹ ہی اونٹ ہیں تو انھیں پہچاننے میں کوئی دقت ہی نہیں۔ آپ جس کا بھی نام لے لیں،وہی تین ملین ڈالر ہوسکتا ہے، وجہ اسکی یہ ہے کہ جس کی بھی پہنچ میں ہوگا وہ تین ملین ڈالرز کیا تین سو ڈالرز میں بھی کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجائے گا۔ ایسے لوگوں میں شامل ڈاکخانے کے معمولی ڈاکیے یا پولیس کانسٹیبل سے لیکر اوپر تک سبھی شامل ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دہشت گرد جی ایچ کیو اور برئگیڈرز لیول کے فوجی افسروں کے شاہی بنگلوں تک نہیں پہنچ گئے۔ اور یہ ڈالرز کے کھیل کا ہی قصور ہے کہ عوام حکومت پہ تبرہ بیجھ کر نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کے بھی سبھی امور ست منہ موڑ کر لاتعلق ہو چکے ہیں۔
آپ نے جواب ان سے مانگا ہے جو اس سے بھی بڑی بڑی زیادتیوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسلئے جواب ملنے کی امید کم ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اجمل انکل!
لیکن شاید عرب شاہی خاندانوں کو یا انکے حکمرانوں کی کسی کومپنی کو کسی پاکستانی سے کوئی کام کروانے کے لئے اتنے پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن زرداری صاحب کی یا پاکستانی حکمرانوں کی ہوس زر تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔