احسان تیرا ہو گا مجھ پر
دِل چاہتا ہے جو کہنے دے
اپنے دیس سے محبت ہے مجھ کو
مجھے اس کی چھاؤں میں رہنے دے
صورت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ اپنے ہی وطن میں ہمارا رہنا بھی لوگوں کو بھاری محسوس ہونے لگا ہے ۔ خود کو اس مُلک کا مالک سمجھنے والے ہمیں دھتکارنے لگے ہیں [یعنی اُن لوگوں کو جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنا مال و متاع گنوایا اور اپنے عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا] مگر وہ نہیں جانتے کہ اب بھی ہمارا جذبہ مرا نہیں ہے گو جسم کمزور ہو گئے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیت جاں نثاروں کی ہوتی ہے مالداروں کی نہیں ۔ ہم سے اپنے بھائی بہن اپنے بچے بلکتے نہیں دیکھے جاتے ۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ ہم آج بھی اپنا سب کچھ اس وطن کی ناموس پر قربان کرنے کو تيار ہیں
نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
ایک طرف میرے وطن کے دیرینہ دُشمنوں کی چالیں زوروں پر ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر بیٹھے حقوق اور ترقی کے نام نہاد ٹھیکیدار اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہیں ۔ تیسری طرف دیکھیں تو دُشمن کے پروردہ کرائے کے قاتل میرے وطن کی زمین میرے ہی بھائي بہنوں اور بچوں کے خون سے رنگ رہے ہیں اور اس میں کامیابی کا سہرا میرے ہی وطن کی کالی بھیڑوں کے سر ہے ۔ چوتھی طرف دیکھیں تو جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت نہیں
اُٹھ اے پاکستانی ۔ اپنی نیند اور نشے سے کہ دُشمن ہے چال قیامت کی چل گیا اور تو نجانے کونسا نشہ پی کر مدہوش پڑا ہے ۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ۔ تیرا نام اس مُلک سے ہے اور اسی مُلک کے ساتھ تُو یا تیرا نام زندہ رہ سکتا ہے ۔ سُنا نہیں کہ اپنی گلی میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے ۔ تُو تَو انسان ہے ۔ اشرف المخلوقات ۔ پر تیرے کرتوت کیا ہیں؟ بھائی کی بات تجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ اُس کا منہ نوچنے کو پھرتا ہے اور دُشمن تُجھے چمک دھمک دکھا کر تیرے اُوپر سے گذرنے کو ہے اور تیرے کپڑے اُتارنے اور تجھے ایک وقت کی روٹی کا محتاج بنانے کی تدبیر کر رہا ہے
کب ہوش میں آئے گا تُو جب ہوش میں آنا بیکار ہو گا ؟
درُست کہ چاروں طرف دہشتگردی کے واقعات اور غیریقینی صورتِ حال پریشان کُن ہے ۔ لیکن اس سب سے تقریر سے نہیں تدبیر اور عمل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔کچھ لوگ شور مچاتے ہیں اور کچھ خاموشی سے برداشت کرتے ہیں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے موجودہ دہشتگردی اور پریشانی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو میرے جیسوں نے اور ہمارے بزرگوں نے دیکھی تھی ۔ میں مختصر طور پر صرف اپنی حالت بیان کرتا ہوں ۔ پاکستان بنا تو میری عمر 10 سال تھی ۔ میری دو بہنیں مجھ سے 3 اور 5 سال بڑی تھیں ۔ جب بھارت میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے تو لاشیں گرنے لگیں اور جوان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اغواء ہونے لگیں ۔ کسی کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ کب اور کس جگہ بلوائی حملہ کریں گے اور ہمارا کیا حشر کریں گے ۔ اشیاء خوردنی کم تھیں ۔ گھر سے باہر نکلنا محال تھا ۔کئی کئی دن فاقے کئے اور کچھ دن ایسے بھی تھے کہ پینے کو پانی بھی نہ ملا ۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام ۔ یہی کچھ کم نہ تھا کہ ایک ماہ بعد میں میری دونوں بہنیں اور تین نابالغ ساتھی [میرے والد کی چچازاد بہن اور چچازاد بھائی کی بیٹی اور بیٹا] اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ ستمبر سے دسمبر 1947ء کے تین ماہ اور بھی زیادہ بھیانک تھے ۔ سردی تھی اور رات کو ہم چھ لوگ ایک لحاف [رضائی] میں ایک 5 فٹ لمبے 4 فٹ چوڑے نمدے پر سمٹے رہتے ۔ سونا کس نے تھا ۔ رات کے وقت بلوائیوں کے جَتھے ست سِری اکال ۔ جئے مہا بھارت اور مُسلوں کا خون بہائیں گے کے نعرے لگاتے کہیں قریب ہی سے گذرتے تھے ۔ اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ تھا ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کا کرم تھا کہ ہم 18 دسمبر 1947ء کو بخیریت پاکستان آ گئے
وہی اللہ آج بھی ہماری مدد کرے گا ۔ یہ وطن بھی تو اُسی نے دیا ہے ۔ اس کی حفاظت بھی وہ کرے گا لیکن اللہ نے کہہ رکھا ہے
لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی [سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39]
ایک رکھیں گے ایک رہے گا ایک ہے نام ہمارا “پاکستان”
فرحان دانش صاحب
یہ بات آپ نے ” دانش ” کی کہی ہے اور اس کا نتیجہ ” فرحان ” ہو گا
آپ یہ بتائیے کہ موجودہ صورتِ حال میں انفرادی سطح پر ہر شخص کو کیا کرنا چاہیے
قدیر احمد صاحب
ایک عمل ہے جو بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی ۔ اپنے آپ کو اللہ کے احکامات کے تابع کرنے کی کوشش کیجئے
محترم! افتخار اجمل بھوپال صاحب۔!!
سائنس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ توانائی کبھی مرتی نہیں۔بلکہ وہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوجاتی ہے۔ایک شکل سے دوسری شکل اپنا لیتی ہے۔ بظاہر ان اجسام اور اشکال کا آپس میں کوئی کوئی جسمانی تعلق بنتا ہو یا نہ بنتا ہو۔ مگر ایک جسم سے دوسرے جسم میں یہ منتقلی توانائی کا تسلسل ہوتاہے۔ئعنی توانائی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس ضمن میں بہت سی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔مذکورہ بالا نظریہ خالص سائنسی بنیادوں پہ ہے۔ جسکا تعلق عقل و دانش سے ہے۔ جبکہ بعین اسی طرح کا معاملہ بلکہ اضافیت کے ساتھ “جذبہ” کے ساتھ ہے۔ جذبے کبھی مرتے نہیں بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ مضبوط و تونا ہوتے ہیں۔ شرط اولیں یہ ہے کہ ان میں صداقت ہو ۔ یہ خود بخود ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔جبکہ نیک جذبوں کی پرورش کا انتظام قدرت خود کرتی رہتی ہے۔ تانکہ یہ سلسلہ ناپید نہ ہو اور دنیا پہ شیطانیت کی حکمرانی نہ قائم ہوسکے ۔ الا جب اللہ کا حکم اور مرضی ہو۔
تہمید بالا کا مقصد صرف اتنا ہے۔ کہ آپ نے اپنی جسمانی کمزوری اور ملک دشمن طاقتوں کی طاقت و دولت کی بات ہے۔ تو اس سللسلے میں عرض ہے کہ آپکا جذبہ نعئی نسلوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ جس کا فطری نتیجہ ایک دن یہ نکلے گا کہ وطنِ عزیز میں انشاءاللہ قوم کو نیک اور اچھے لوگوں کی قیادت نصیب ہوگی۔ اور پاکستان ایک پُرامن مگر باوقار ملک کی طرح ترقی کرے گا اور عوام باعزت زندگی بسر کریں گے۔ ملک میں قانون سازی کا مآخذ قرآنِ کریم ہوگا۔اپنے آپ کو بزعم خویش دانوری سمجھنے والے اور ہر موقع پہ پاکستان کے خلاف پردہ درپردہ فلسفے بگھارنے والے منہ کی کھائیں گے۔
عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کسی نیک مقصد کے لئیے جان دی۔ اپنے پیاروں کی قربانی دی اور اپنا آبائی علاقہ اور ملک چھوڑ کر نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت میں ہجرت کی۔خواہ انکا تعلق ھندؤستان یا دنیا کے کسی بھی حصے سے ہو ہمارے لئیے سبھی نہائت قابلِ احترام ہیں۔
جبکہ میرے قبیلے میں سے کوئی فرد بھارت سے ھجرت کر کے پاکستان نہیں آیا۔ میرا قبیلہ آبائی طور پہ پاکستان میں آباد ہے۔ میرے والد مرحوم رحمتہ اللہ علیہ، کار سرکار میں ایک اچھے عہدے پہ تھے۔ نہائت جری اور شجاع انسان تھے۔ماہر نشانہ باز تھے۔ شکار اور مہم جوئی انکے مشاغل میں شمار ہوتا تھا سخت سے سخت حالات میں بھی مشکلات سے نہیں گھبراتے تھے۔ حق بات یا دیانتداری کے لئیے ڈٹ جاتے تھے خواہ سارا محکمہ اور افسرانِ بالا کا کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ہو، اور کتنا ہی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اپنے بہت قریبی عزیزوں کی وفات پہ بھی انھیں بہت کم روتے دیکھا گیا۔ مگر گھر کے دیگر افراد کے مطابق جس دن صبح کے وقت ناشتہ کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان سے سقوطِ ڈھاکہ کی خبر انھوں نے سنی، نوالہ ہاتھ میں رہ گیا اور چند ثانیہ سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر دھاڑیں مار مار کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ وہ انسان جس کی آنکھ میں آنسو اپنی کسی عزیز کی فوتگی کے علاوہ بہت کم کسی نے دیکھے تھے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کے ذکر پہ وہ اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔میرے سب سے بڑے بھائی۔ ایک کزن۔ اور قبیلے کے کچھ افراد مشرقی پاکستان میں آرمی میں تھے وہ جنگی قیدی ہوئے ۔ کچھ آج تک لاپتہ ہیں۔مگر والد مرحوم کے دوست بتاتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے بیٹے شہید ہوجاتا مگر ملک بچ جاتا ۔ مسلمانوں کی عزت بچ جاتی، ہندؤوں کے ہاتھوں یہ ذلت دیکھنا نصیب نہ ہوتی۔ میری والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں ، کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تو انھوں نے اپنے گھر کے تمام بستر و گھریلو متاع بمع نقد اٹھو کر زلزلے کے بجھوا دیں۔ہم سب بہن بھائیوں پہ اللہ کا فضل ہے، اس لئے والد مرحوم کی وفات پانے کے بعد سے وہ اپنا زیور جو میرے والد مرحوم نے انھیں بنوا کر دیا جس سے کسی بھی خاتون خانہ کی بہت سی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ زیور انھوں نے مختلف اوقات میں غریب بچیوں کی شادیوں پہ تھوڑا تھوڑا کرے مدد کے طور پہ بانٹ دیا۔ جو باقی رہ گیا وہ زلزلے میں یک مشت دے دیا۔ کہا کہ اللہ کا مال ہے اللہ کی مخلوق کو اسکی ضرورت ہے مناسب نہیں لگتا کہ وہ مال میرے پاس ہو اور مستحق لوگوں کو نہ ملے۔ سیاسی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتیں مگر اپنی اولاد میں اسلام اور پاکستان سے محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے۔ اور ہمارے والد محترم کی مثال دیا کرتی ہیں۔
یہ جزبہ اور حب الوطنی میری اگلی نسل میں بھی ہے۔ میرے بھانجے اور بھتیجے بھی اس محبت سے سرشار ہیں۔اور انکا فوکس پوری دنیا کی اونچ نیچ کے پس منظر میں پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے۔
ساری تہمیدِ بالا کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ یہ مت سوچیں کہ آپ اس خارزار میں اکیلے ہیں۔ اس راہِ الفت میں آپکے پیچھے ایک پورا کاروان ہے۔ جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔ تو پھر یہ لفظوں کا ہیر پھیر کرنے والے کچھ اپنے تئیں دانشور اور پاکستانی حکومتوں کے کاٹھ کے الؤ تو کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جذبے کو سمجھنے کے لئیے عقل و دانش کی کسوٹی نہائت نامناسب ہوتی ہے۔ یہ تو اہل دل کا جنوں پیشہ ۔ پوری پاکستانی قوم کا معاملہ ہے۔ حالات بدلیں گے انشاءاللہ۔
اللہ تعالٰی آپکو اجرو صبر عطافرمائے۔آمین۔
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
مجھے امید ہے آپ کی انکھیں بہت جلد وہ منظر دہکھیں گی جس کا آپ تمام عمر سے انتظار ہے۔ بس چند سال اور۔ یہ طلسم سامری ٹوٹ جاے گا اللہ کی رضا سے
قمر:
انفرادی سطح پر آپ کیا کر سکتا ہیں، سوائے بیکسٹرز اور چوریشنز کی غلامی کے؟
محمد ریاض شاہد صاحب
اللہ کرے میری زندگی ہی میں اور بہت جلد وہ وقت آئے جب میں وطن کے چمن مین پائیدار بہار آئے
میرے اعصاب تو اب ضعف پذیر ہیں اسلئے کلیدی تختہ پر انگلیاں غلط پڑ جاتی ہیں ۔ آپ جوان آدمی ہیں ذرا دھیان رکھا کریں ۔ آپ نے اپنا نام غلط کر دیا تھا ۔ میں نے درست کر دیا ہے
عارف کریم صاحب
یہ قمر صاحب یا صاحبہ کون ہیں ؟
ویسے انفرادی سطح پر یہ ہو سکتا ہے کہ انسان نہ غلط کام کرے اور نہ غلط کام کرنے والے کا ساتھ دے ۔ اچھے کام کرے اور اچھا کام کرنے والوں کا ساتھ دے ۔ اور یہی اللہ کا حُکم بھی ہے