پنجابی کی ایک کہاوت ہے
روندی یاراں نوں ناں لَے کے بھراواں دے
اس کا مطلب ہے کہ رو رہی ہے آشنا کی جدائی میں لیکن نام بھائیوں کے لے کر رو رہی ہے
ایسی ہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اپنی قومیت چھوڑ کر دوسری قومیت اختیار کر لی اور اس پر پھُولا نہیں سمائے ۔ اور اس کے بعد اپنے آپ کو اُس قوم کا خیرخواہ جتانے کی کوشش کرے جسے اُس نے تج دیا ۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے ؟
آج ملک میں رہنے والے نام نہاد لیڈران اپنے ملک سے کھرے نہیں ہیں تو یہ تو پھر ملک سے باہر ہے
کیا شاندار تصویر ہے غریب ممالک کی عوام لہ زبردست عکاس
منافقت کوئی ایسی ویسی
مگر آپ منافق کیوں کہ رہے ہو اسکو؟ بری بات
اپنی بات یاد کریں، کیا سمجھے!
آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں 8O
کیا آپ ایم کیو ایم یا الطاف حیسن سے کوذاتی بیرہے؟
فرحان دانش صاحب
مجھے کسی سے ذاتی بیر یا دشمنی نہیں ہے ۔ لین ان لیڈروں کی اصلیت کو ظاہر کرنا ضروری ہے جو ہمیں کچھ کہتے ہیں اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں
احمد صاحب
میں نے اسے منافق نہیں کہا بلکہ آپ سے پوچھا ہے کہ کیا یہ منافقت نہیں ہے
اس طرح تو سارے بیرون ملک پاکستانی جو دوسری قومیت لے لیں ان پر منافقت کا الزام لگ سکتا ہے-
وہ فرماتے ہیں
“مجھے کسی سے ذاتی بیر یا دشمنی نہیں ہے ۔ لین ان لیڈروں کی اصلیت کو ظاہر کرنا ضروری ہے جو ہمیں کچھ کہتے ہیں اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں”
ہم عرض کرتے ہیں
اصل مسئلہ امریکہ برطانیہ نہیں بلکہ وہ منافقین ہیں جو اسلام کو مانتے بھی نہیں اور روز اول سے اسلام کہ مٹانے پر لگے ہیں۔ ان کی اصلیت کو سب کے سامنے لانا کیسے جرم بن گیا؟
وہ فرماتے ہیں
سب کی بات کرو مگر پیارے شیعوں کی بات نہ کرو۔ کیڑے مت نکالو۔ کیا تم سے اچھے ہو بس؟
ہم درخواست کرتے ہیں
ان کا کفر اور منافقت تو قرآن بھی اور امام ابو حنیفہ سے لیکر سب ھی بنا کرتے ہیں۔ بلکہ انکے کفر میں شک کو بھی کفر کہتے ہیں۔ اب بولو!
وہ گسے میں آجاتے ہیں بہت گسے میں
تبصرہ مٹا دیتے ہیں۔۔۔۔۔
فون اٹھا لیتے ہیں ۔۔۔۔ اے دل جاناں ۔۔۔۔۔ 2 بم اس پر بھی گرا جانا ۔۔۔۔۔۔ بے نقاب کرنے پر تل گئے ہیں یہ لوگ!!!!
مگر ہم؟
ان کی بربادی کی اور ان کی آبادی کی دعا کردیتے ہیں
انکل جی
:o :o :o
انکل جی
افتخار جی ویسے یہ بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ لوگوں کو یہ لال رنگ کا رہاہشی نامہ مل جاتا ہے ۔ اس میں فخر والی کون سی بات ہے شکل سے عادات سے پاکستانی لگتے ہو ۔ ایک سرخ رنگ کا پاسپورٹ لینے سے کیا ملکہ کے گھر میں جگہ پا لو گے ۔۔۔
فارغ صاحب
عام پاکستانی جو کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرتے ہیں وہ کسی پاکستانی سیاسی جماعت کے رہنما نہیں ہوتے ۔ سیاسی جماعت کا رہنما لوگوں کو پاکستان سے وفا کا یقین دلاتا ہے جبکہ اس نے پاکستان کی بجائے کسی اور ملک سے وفاداری کا حلف لیا ہوتا ہے ۔ اس طرح اس کا عمل منافقت بن جاتا ہے
تانیہ رحمان صاحب
میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ امریکہ میں ان امریکیوں کو جو افریقہ سے لائے گئے لوگوں کی اولاد ہیں یا پرانے امریکی ہیں آج بھی وہ مقام نہیں ملا جو گورے امریکیوں کو حاصل ہے جو دراصل اُن غاصبوں کی اولاد ہیں جو یورپ سے آکر طلم و ستم کے ذریعہ امریکا پر قابض ہوئے
اقتباس
میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ امریکہ میں ان امریکیوں کو جو افریقہ سے لائے گئے لوگوں کی اولاد ہیں یا پرانے امریکی ہیں آج بھی وہ مقام نہیں ملا جو گورے امریکیوں کو حاصل ہے جو دراصل اُن غاصبوں کی اولاد ہیں جو یورپ سے آکر طلم و ستم کے ذریعہ امریکا پر قابض ہوئے
اجمل صاحب۔۔ انہیں افریقیوں کی اولاد میں سے آج ایک امریکہ کا صدر ہے۔ اٹارنی جرنل خود افریقی نژاد ہے۔ریپبلکن پارٹی کا ڈمی ہی سہی سربراہ ایک افریقی نژاد ہے؛ہالی ووڈ کے کئی مایہ ناز اداکار، کھلاڑی، ٹی وی اور ریڈیو کی شخصیات سیاہ فام ہیں اور کیا مقام چاہیے؟ اونچ نیچ ہر معاشرے کا حصہ ہے لیکن مجموعی صورت حال اتنی خراب بھی نہیں جتنی ہمارے یہاں اقلیتی لوگوں کے لیے ہے یا غریب طبقات کے لیے ہے۔ دوسرا یہ کہ غاصب کا بیٹا بھی غاصب کہلائے والی بات انصاف پر مبنی نہیں ہر ایک کو اسے عمل کے حساب سے دیکھا جانا چاہیے۔ نا کہ اس کے والدین کے عمل کے مطابق۔
راشد کامران صاحب
جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں چند چمکدار ستارے نہیں ہوتے بلکہ عام عادمی ہوتے ہیں ۔ بارک حسین اوباما کے صدر بننے کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ بہت فرق پڑے گا ۔جو فی الحال اُمید ہی ہے
شاہدہ اکرم صاحبہ
میں نے آپ کے دونوں تبصرے سپیم میں سے نکالے ہیں ۔
آپ پریشان بھی ہوئیں اور ہنسی بھی ۔ یہ تو شہزادی کی کہانی والی بات ہو گئی ۔ اب اکرم صقاحب سے کہتے ہیں کہ آپ سے پوچھیں “آپ پریشان کیوں ہوئیں اور ہنسی کیوں؟”
جناب سسٹم بہتری کی طرف ہوتا ہے جبھی تو اقلیت کے عام آدمی چمکدار ستارے بنتے ہیں۔۔ اسی لیے میں نے عرض کی کہ مجموعی صورت حال اتنی بری نہیں جتنی دکھائی جاتی ہے خاص کر ریس کارڈ کھیلنے والوں کی آنکھ سے۔۔ تعلیم یافتہ اقلیت تو کم از کم یہاں بہت بہتر میعار زندگی برقرار رکھے ہوئے ہے جس میں جنوبی ایشائی، ایشیائی اور افریقی باشندے شامل ہیں۔۔ اس کا کریڈٹ تو آپ امریکہ کو دے ہی دیں۔۔ (:
راشد کامران صاحب
آپ کا تبصرہ میری جس تحریر کے نیچے ہے اس سے میل نہیں کھا رہا ۔ یا پھر میری سمجھ میں کوئی خامی ہے ۔ آپ نے لکھا ہے
علیم یافتہ اقلیت تو کم از کم یہاں بہت بہتر میعار زندگی برقرار رکھے ہوئے ہے جس میں جنوبی ایشائی، ایشیائی اور افریقی باشندے شامل ہیں۔۔ اس کا کریڈٹ تو آپ امریکہ کو دے ہی دیں
جناب ۔ اگر اس کا اُلٹ کہیں کہ امریکا کو اس عروج پر ان درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے تعلیمیافتہ ںیرملکی افراد کی محنت نے پہنچایا ہے تو کیا درست نہ ہو گا ؟