”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔
جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔
قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس
میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔
تحریر ۔ انور غازی ۔ بشکریہ جنگ 30 ستمبر 2009
“پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟”
kiya yeah list available hai kaheen?
زرغم صاحب
فہرست تو میرے علم میں نہیں مگر میں کسی زمانہ کچھ بظاہر نہائت اچھے اخلاق کے لوگوں کے بہت قریب رہا جو فری میسن تھے ۔ جب انہی میں سے سب سے پرانے فری میسن نے مجھے کچھ اس بارے بتایا تو میں حیران رہ گیا کہ بظاہر اتنے اچھ نظر آنے والے لوگ اندر سے کیا ہیں
افتخار انکل اگر زی پاکستانی فوج کے سوا سب کو نظر آتی ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ ہم اور آپ کیا کرسکتےہیں؟ یہ جتنے طومار باندھے جارہے ہیںباتوں کے ان کے پیچھے حقیقت کیا ہے یہ معلوم نہیںپڑ رہا۔ تین چار ہزار بندے اس ملک پر قبضہ تو نہیںکرسکتے۔ اصل بات کیا ہے یہ علم نہیںہورہا ابھی اور مجھ سمیت ہر کوئی اپنی اپنی چھوڑے جارہا ہے۔ مجھے تو یہ کلاسیک deception کا حربہ لگ رہا ہے کہ لوگوں کو اس وقت تک متذبذب رکھو جب تک اصل ہدف پر وار نہیں کردیا جاتا اور پاکستانی فوج اس میں بظاہر پوری طرح شریک ہے۔
فی الحال قوم کا موقف ہے کہ
ہنوز دلی دور است
فری میسن پر یہودیوں کے مفادات کے تحفظ کا الزام تو لگتا ہے لیکن “یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم” بالکل نئی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ نائس ٹرائی۔
جو لوگ امریکیوں ، بلیک واٹر یا زی کی پاکستان میں موجودگی کے متعلق لکھ رہے ہیں وہ ساتھ ساتھ ثبوت بھی دے رہے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں جگہ گوروں کی گاڑیاں یا اسلحہ دیکھا ، لیکن جو افراد بلیک واٹر کی موجودگی کے متعلق شک میں مبتلا ہیں وہ خالی پیلی ہوا میں باتیںکر رہے ہیں، مفروضے قائم کر رہے ہیں، کیا آپ نے اسلام آباد جا کر دیکھا کہ وہاں کے شہریوں کے مطابق گورے وہاں سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں، یا آپ یورپ و امریکہ کے کسی پرسکون شہر میں بیٹھ کر حقانی یا گیلانی صاحب کے بیانات سن کر سکون سے بیٹھے ہیں کہ بلیک واٹر پاکستان میںنہیں، اجمل صاحب آپ تو پاکستان میںہیں آپ ہی ان لوگوں کا شک دور کر دیجیے۔ کسی ذاتی مشاہدے سے۔
خرم بھائی آپ دونوں طرف کی بات کر رہے ہیں، ایک طرف تو آپ پاک فوج کی انٹیلی جنس پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ سوئی نہیں اس کے علم میںہے سب، دوسری طرف آپ پاک فوج کو پاکستان کے خلاف اس سازش میںپوری طرح شریک ٹہرا رہے ہیں
السلام علیکم۔
کالم نگار نے بالکل درست کہا ہے کہ اب کی بار اگر سیلاب آیا تو پاکستانی عوام کو خود ہی اس کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔ کیونکہ “انکل لوگ” تو سب “دادا ابا” کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
انتہائی حیرت کا مقام ہے کہ ثبوت اتنی بار دہرائے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی اعتراض کرنے والے تصدیق کے بجائے محض ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، سب بکواس ہے۔ کم از کم ایک بار ہی تصدیق کی کوشش کر لو۔ پھر اگر تمہاری بات درست ثابت ہو گئی تو ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ سب بکواس ہے۔ پھر سب تمہاری بات مان بھی لیں گے۔ خالی خولی ہوائی فائرنگ کا مطلب تو یہی بنتا ہے کہ بس ایک مخصوص طبقے کی ہر حال میں مخالفت کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
قومی تحفظ (نیشنل سیکورٹی رسک) کا معاملہ ہو خواہ وہ دسمن سے یا اپنوں سے ہو۔ کسی ایک فرد یا کسی ادارے سے خدشہ ہو۔ کسی جاسوس سے ہو یا جاسوسی سے ہو۔ اور قومی تحفط کے لئیے مشکل کھڑی کرنے والے لوگ یا ادارے خواہ اپنے ملک کے ہوں خواہ کس قدر طاقت ور ہوں یا طاقت ور دشمن سے تعلق رکھتے ہوں۔ تو ایسی صورت میں خاص و عام کی نگاہیں اپنی حکومت۔ حکمرانوں دفاعی ادروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ خواہ امریکا جیسے طاقور حریف کی ڈیوڑھی میں رہنے والا وہ کیوبا جیسا چھوٹا سا ملک ہی کیوں نہ ہو اور اسکا مدِ مقابل امریکہ جیسی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔ کمزور سے کمزور ملک کی حکومت اور حکمران اپنے عوام کو خبر ہونے سے پہلے ہی اپنے اداروں کو حرکت میں لے آتے ہیں۔ اور کچھ نہ کرسکیں تو کم از کم کچھ ڈپلومیٹس کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اپنے ملک سے باہر کا رستہ دکھا دیتے ہیں۔
مگر ہمارے ۃان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عوام کو تو علم ہے اور ہر کوئی چیخ پکار کر رہا ہے۔ ثبوت دے رہا ہے مگر ہماری حکومت مان کے ہی نہیں دے رہی۔ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم تو وہ بدقسمت قوم ہیں ادہر ڈہاکہ سمیت مشرقی پاکستان ڈوب چکا تھا ۔ ادہر پاکستان کے بادشاہ حکمران ریڈیو پہ قوم کو اپنی بہادر افواج کے قصے بیان کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں سقوطِ غرناطہ کے بعد سقوطِ ڈھاکہ کا المناک باب تاریخ رقم کر چکی تھی اور پاکستان کے جھوٹے اور مکار حکمران نے ریڈیو پہ قوم کو مژدہ سنایا کہ “ر ہے پاکستان بچا لیا گیا۔” پاکستان کو سنگدل اور مسخرے حکمران وافر تعداد میں ملتے رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے تب کونسا سبق سیکھا تھا جو آج انھیں کیری لوگر بل کے ذرئیعے پاکستان کو امریکہ کی رکھیل بنانے پہ شرمندگی ہوئی ہو ۔
عجیب ستم ظریفی ہے عوام چیخ پکار کرتے ہیں اور حکومت کوآنکھوں دیکھے امریکن غنڈے اپنی ناک کے نیچے نظر نہیں آرہے۔
( بےنظیر زرداری کی پاکستان آمد پہ)مجھے ایک دوست نے کہا تھا کہ”اس دفعہ امریکہ نے پاکستان کی بہت کم بولی لگائی ہے اور بہت کچھ کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیا ہے۔ یو سمجھو کہ پاکستان کو معمولی سی قیمت پہ لمبے عرصے کے لئیے ٹھیکے پہ لے لیا ہے” سوچتا ہوں اس نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا۔
“عجیب ستم ظریفی ہے عوام چیخ پکار کرتے ہیں اور حکومت کوآنکھوں دیکھے امریکن غنڈے اپنی ناک کے نیچے نظر نہیں آرہے۔”
اپنی ناک کے نیچے کا علاقہ بھی کوئی دیکھ سکتا ہے بھلا؟ :P
(یہ آپ کی مرضی ہے کہ اسے مذاق سمجھ کر پڑھتے ہیں یا ضرب المثل)
سعد بھائی!
آپ نے خوب نکتہ نکالا ہے۔ smile: مگر شاید ناک کے نیچے کچھ نظر آنا اس لئیے بھی کہا جاتا ہے۔ کہ وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں اور ناک کے عین نیچے ہوتی ہیں، تو جب کوئی انھیں دیکھنا نا چاہے تو تب ایسا ھی کوئی بہانہ بنا لیا جاتا ہوگا کہ “بھائی ناک کے نیچے کچھ نظر نہیں آرہا” بہر حال یہ تو عام افراد کی بات ہوئی جبکہ ہماری حکومتیں بہانہ بازی نہیں کرتیں بلکہ کچھ قدم آگے بڑھ کر سیدھی سی منافقت پہ ایمان رکھتی ہیں۔
ملک لٹ جائے مگر مان کے نہیں دیں گے۔ یہ ہی اصل پالیسی ہے۔
اصل میں صیھونی قوتیں پاکستان کوتباہ کرنے تلی ہیں ہمیں بحیثیت قوم ہونے کے ان سازشوں کوناکام کرناہے ان شاءاللہ
عبدالمجید محمدحسین بلتستانی
آپ کا خیال درست ہے اللہ ہمارے ہموطنوں کو بصیرت اور عقل کے استعمال کی توفیق دے