میرے بچپن کی یادوں میں ذرائع ابلاغ کے کھاتے میں دو چیزوں سے میرا جذباتی لگاؤ رہا ۔ وہ ہیں
اخبار ۔ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ۔ جو میں نے ساتویں جماعت میں پڑھنا شروع کیا اور سات آٹھ سال بعد اس کی اشاعت بند ہونے تک پڑھتا رہا ۔ اس میں چھپنے والی قسط در قسط ریاست جموں کشمیر کے متعلق اقوامِ متحدہ کی کاروائی کے تراشے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں
رسالہ ۔ ریڈرز ڈائجسٹ جو میں نے آٹھویں جماعت میں پہنچتے ہی سالانہ بنیاد پر لینا شروع کیا اور 40 سال متواتر خریدتا اور پڑھتا رہا
اللہ کی مہربانی سے ان دونوں نے مجھے انگریزی سمجھنے اور لکھنے کی استطاعت عطا کی ۔ ان دونوں کے عمدہ انگریزی میں لکھے مضامین کے علاوہ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ کے معمے [Crossword puzzles] اور ریڈرز ڈائجسٹ کا اپنی لفظی استعداد بڑھاؤ [Increase your word power] ۔ ان دونوں ذرائع نے مجھے وہ گُر بخشا کہ میرے سکول و کالج کے اساتذہ کے بعد میرے افسران بھی میرے انگریزی میں لکھے مضامین کے معترف رہے
آج صبح سویرے جب میں نے پڑھا کہ ریڈرز ڈائجسٹ شائع کرنے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا ہے تو کچھ دیر کیلئے میں سکتے میں آ گیا ۔ زبان تو نہیں مگر میرا دِل گریہ کرنے لگا ۔ ثابت ہوا کہ دورِ حاضر میں کوئی اچھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی
خبر
دنیا بھر میں ڈاکٹروں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں میں یکساں مقبول اور عوامی انتظار گاہوں کی میزوں کی زینت ”ریڈرز ڈائجسٹ“ کی ایسوسی ایشن نے 90سال کے بعد گزشتہ روز عمداً دیوالیہ ہونے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے ،مذکورہ ایسوسی ایشن ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں رونما ہونے والے مالیاتی بحران کا حال ہی میں شکار ہوئی ہے ،ادارے کے حصص کی خریداری میں اہم سرمایہ کاری کرنے والی فرم” رپل وڈ ہولڈنگز“ جس نے 2006ء میں 2.4 بلین ڈالر کے متوقع منافع کا اعلان کر رکھا تھا کی 600ملین ڈالر کی تمام سرمایہ کاری مکمل طور پر ڈوب جائے گی ،ریڈرز ڈائجسٹ کا آغاز نیو یارک میں ایک بیوی اور شوہر نے 1921ء میں ایک کمرے سے کیا تھا ،اس وقت ڈائجسٹ کی ایسوسی ایشن کے 94 میگزینز میں سے 9 کی صرف امریکا میں ایک ملین سے زیادہ سرکولیشن ہے ، اس کے علاوہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے 78 ممالک میں130ملین افراد اس کے مستقل پڑھنے والے ہیں،گروپ کے انفارمیشن بیورو کے مطابق ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں معاشی بحران کے علاوہ لوگوں کے مطالعہ کرنے کی عادات اور رجحان میں تبدیلی کے باعث گزشتہ سال ادارے کے محاصل میں 18.4 فیصد کی ریکارڈ کمی ہوئی جبکہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران آمدنی کی اس کمی میں 7.2فیصد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ صرف امریکن شاخ کے ساتھ مسئلہ ہے انٹرنیشنل شمارے شائع ہوں گے۔ ویسے بھی اب یہ لوگ ڈیجیٹل پر زیادہ توجہ دینے لگے ہیں بلکہ یہاں سنجیدہ حلقوں میں آج کل چھاپی جانے والی کئے اخبارات اور میگزینز کے مستقبل پر بڑی شدو مد سے بحث جاری ہے اور لگتا ہے جلد ہی زیادہ تر اخبارات و میگزین کے مفت ڈیجیٹل ایڈیشنز بھی ادائیگی کے بعد ہی دستیاب ہوں گے۔
اگر بات چلی ہے ڈائجسٹ اور پڑھنے کی تو ہمارے بچپن کے کئی ساتھی رسالے اب ہم سے جدا ہو چکے ہیں کچھ ابھی تک آکسیجن کے سہارے زندہ ہیں ۔اس وقت کے کچھ رسالوں کے نام یاد ہیں جن میں ہمدرد والوں کا نونہال ، تعلیم و تربیت کے نام مجھے یاد ہیں یہ اس وقت کے بچوں کی علمی پیاس بجھاتے تھے آج کل کمپیوٹر کا دور ہے لیکن کسی نے بھی بچوں کے لئے آن لائن رسالہ چلانے کا کام نہیں کیا صرف گندگی کو ہی پروموٹ کیا جارہا ہے ۔
سر جی آپ ٹھرے فوجی آپ نے تو یہ ہی پڑھنا تھا کیا کوئی غریب ادب بھی پڑھا ؟
راشد کامران صاحب
میں کئی سال سے دو ڈیجیٹل جریدوں کا رکن ہوں لیکن دو سال سے انہیں نہیں پڑھا ۔ کتاب ہاتھ میں ہو اور آدمی کرسی یا بستر پر آرام سے پڑھے اس کی اور بات ہے ۔ کمپیوٹر پر پڑھنا تو ایسا ہوتا ہے جیسے سزا بامشقت ۔ اور اگر ان کا پرنٹ لے کر پڑھا جائے تو سمجھئے اور اور مشقت طاری ہو گئی
کامران صاحب
کیا یاد دلا دیا آپ نے ۔ تعلیم و تربیت تو وہ رسالہ ہے جو مجھے یاد نہیں کب پڑھنا شروع کیا تھا یعنی بہت چھوٹی عمر مین ۔ اس میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بنانے کے طریقے بھی ہوتے تھے اور ہم چھُٹی والے دن یہ چیزیں بنایا کرتے تھے ۔ یہ رسالہ واقعی تعلیم اور تربیت کا عمدہ ذریعہ تھا ۔ نونہال بھی میں خریدتا رہا ۔ وہ بھی بہت اچھا رسالہ تھا
یہ آپ کو کس گدھے نے بتایا ہے کہ میں فوجی ہوں ؟
جہاں تک اردو ڈائجسٹ کا تعلق ہے یہ پاکستان اور بھارت کیلئے سنگاپور میں چھپتا تھا اور خصوصی کم قیمت پر فروخت ہوتا تھا ۔ اور ہاں یہ فوجیوں کے پڑھنے کا رسالہ نہیں تھا کیونکہ اس میں فوجیوں کے لطیفے لکھے ہوتے تھے جو دراصل حماقتیں ہوتی تھیں
سر جی ایسے ہی چیک کیا تھا ۔ ;) ۔۔فوجی کا پڑھتے ہی آپ کو گدھا کیوں یاد آ گیا ۔
کامران صاحب
یہ بوجھنا تو آپ کا کام ہے
ایک فوجی کی شادی تھی ۔بارات جا رہی تھی اور وہ اپنے دوست کے ساتھ کار میں بیٹھا ہوا تھا پیچھے آتی ہوئی بارتیوں کی بس کو دیکھتے ہوئے اپنے دوست سے کہنے لگ ا” مجھے یہ بس مشکوک لگتی ہے گھر سے یہاں تک مسلسل ہمارا پیچھا کر رہی ہے ”
السلام علیکم۔
ایک زمانے میں “آنکھ مچولی” بہترین رسالوں میں ہوا کرتا تھا۔ سب سے زیادہ شوق سے میں یہی رسالہ پڑھتا تھا (اس وقت نعیم احمد بلوچ صاحب مدیرِ اعلیٰ تھے)۔ لیکن پھر انتظامیہ بدل گئی اور معیار کافی گر گیا۔ کچھ عرصہ تو میں نے انتظار کیا کہ شاید آہستہ آہستہ معیار بہتر ہو جائے لیکن جب کافی عرصے تک ایسا نہ ہوا تو اسے چھوڑنا ہی پڑا۔
اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جو پرانے شمارے پڑے تھے، وہ گھر والوں نے ردی میں بیچ دیے اور یوں اب میرے پاس اپنے ایک زمانے کے سب سے زیادہ پسندیدہ رسالے کے دس شمارے بھی موجود نہیں۔
کامران صاحب
یہ فوجی دورِ حاضر کا ہو گا اور ہو سکتا ہے امریکی ہو
:smile:
محمد سعد صاحب
گبھرانے کی کوئی بات نہیں ۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ میرے چھوٹے بھائیوں نے میرا سب کچھ ردی میں بيچ دیا تھا اور میرا دل چیخ چیخ کر رونے کو چاہتا تھا مگر میں رویا نہیں کیونکہ مجھے رونے کی عادت نہیں
جب میں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ، لاھور) داخل ھئوا تو عین کالج کے گیٹ کے سامنے ایک دفتر تھا جہاں کتابیں اور رسالے چھا پے جا رہے تھے عنائت اللہ صاحب مرحوم وہاں سے ایک بچوں کا رسالہ نکالتے تھے “ہدائت”۔ میں اکثر ان کے پاس چلاجاتا تھا جب خالی پیریڈ ھوتا۔ مرحوم میرے بڑے بھای ڈاکٹر معراج کے عزیز دوست تھے
چنانچہ اس وجہ سے میں نے بھی کچھ لکھنا پڑھنا سیکھا میں بھلا گائوں کا میٹرک پاس کیا جانتا تھا مجھے وہ رسالا پسند تھا نا معلوم کب بند ھئوا ویسے بھی میں بچپن کی دہلیز تقریبا” پار کر چکا تھا اور بچپن میں ھمارے گھر میں میری بہنوں کے لیئے رسالہ “عصمت” اور علامہ راشدالخیری کی کتابین ھی تھیں وہ بھی ’44 میٰن جب گائوں میں آئے توبہنوں نے منگانا چھوڑ دیا