میں نے گذشتہ کل اپنی تحریر میں عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات اور اپنے 5 سوالات کے منطقی جوابات کی درخواست کی تھی ۔ بجائے میری درخواست اور اس میں مخفی حقائق پر غور کر کے منطقی حل پیش کرنے کے اکثر مبصرین نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ میں نے چوری کو جائز قرار دیا ۔ کاش کوئی غور سے میری تحریر پڑھ کر بتائے کہ کہاں میں نے چوری کو جائز قرار دیا ہے ۔ دیگر جس زمانے میں [1985ء-1987ء] ہمارے محکمہ کے لوگوں نے کوڈ توڑا تھا اس زمانہ میں کوئی ایسا قانون نہ تھا کہ کوڈ توڑا یا نقل تیار نہیں کی جا سکتی ۔ اس زمانہ میں کوڈ توڑنے کا کام یورپ میں بھی عام تھا بلکہ اس پر فخر کیا جاتا تھا
مبصرین نے یہ عندیہ بھی دیا کہ میں یعنی افتخار اجمل بھوپال چوری کی سافٹ ویئر استمال کرتا ہوں اس لئے چوری کا دفاع کر رہا ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے چوری کا دفاع نہیں کیا بلکہ اجارہ داری کے خلاف احتجاج کیا اور قارئین سے مدد کا متمنی تھا مگر اُلٹا چور قرار دیا گیا ۔ سُبحان اللہ
ضرورت تو نہ تھی لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو بے چینی ہو اسلئے حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ جب میں نے 1987ء کے شروع میں اپنا پہلا پی سی خریدا اُس وقت ڈاس يعنی ڈسک آپریٹنگ سسٹم ہوتا تھا ۔ جب میں نے پینٹیئم 2 خریدا تو فلاپی ڈسکس پر اصل ونڈوز دستیاب تھی ۔ پھر جب میں نے اسے اَپ گریڈ کر کے پینٹیئم 3 بنایا تو لوگ ابھی ڈی ایکس 2 استعمال کر رہے تھے ۔ میں نے ونڈوز 95 پھر 98 پھر 2000 پھر میلینیئم پھر ايکس پی انسٹال کی ۔ یہ سب اصل بازار میں ملتی تھیں اور میری دسترس سے باہر نہ تھیں ۔ اصل ایکس پی ابھی میرے پاس موجود ہے ۔ چند سال قبل اسی کے ذریعہ مائکروسافٹ کی ویب سائٹ سے پیک ون اور پیک ٹو ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کئے تھے ۔ اس کے بعد ایکس پی پیک ٹو ایک عزیز نے مجھے برطانیہ سے لا کر دی ۔ چند ماہ قبل میں نے پيٹیئم 4 استعمال کرنا شروع کیا ۔ اس میں وزٹا انسٹال نہیں کروایا کہ اصل بہت ہی مہنگا ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود نہ تھا ۔ دیگر وزٹا پر میرے اپنے بنائے ہوئے ایک دو اہم پروگرام نہیں چلتے ۔ اسلئے میں نے اپنی ایکس پی پیک ٹو انسٹال کی
ہم لوگ دین پر عمل کرنے پر بہت زور دیتے ہیں لیکن دین کے اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور انسان کا بنایا ہوا قانون بھی کہتا ہے کہ
A person is innocent until proved guilty
مگر عملی طور پر آجکل ساری دنیا مندرجہ ذیل پر عمل کر رہی ہے
A person is guilty until proved innocent
کاش کوئی صاحبِ علم ہو جو عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا منطقی جواب دے ؟
اور ہو سکے تو میرے اُٹھائے ہوئے 5 سوالوں کا بھی جواب دے
انسان کے عمومی اطوار مندرجہ ذیل اقتباس سے احاطہ کیا جا سکتا ہے جو مارچ 1975ء میں شائع ہونے والے میرے ایک تحقاتی مقالے سے ہے
4.4. Perceptions of communication vary according to the group involved as well as according to an individual’s frame of reference. The frame of reference of upper management, lower management and workers is quite different. This is bound to influence the perception of each group in communication. Management perceives conceptions through it’s own interests and values. What worker (the Employee) perceives in a message has a great bearing on his response. Past experience from all facets of living, that is, childhood, school, previous work and home along with past relations with the Supervisor affect his perception.
سر مجھے نہیں لگتا کے آپ کو اپنی طرف سے صفائی کے طور پر اک بلاگ پوسٹ تحریر کرنے کی ضرورت تھی ۔۔۔ جہاں سب اپنی نفس کی قید میں جیتے ہو وہاں اجارہ داری کی سمجھ کچھ الجھن کا شکار رہتی ہے ۔
البتہ سر آپ نے جو کہانا کہ ۔۔ گلٹی انٹل پروون انوسینٹ ۔۔۔ بہت درست کہا مسلمانوں کا تو یہی حال ہوا پڑا ہے ۔
آپ کی اٍس تحریر کے آخر میں بھی ایک سوال ہے ۔۔ میرا بھی وہی سوال ہے پر آپ سے ۔۔ امید ہے آپ ضرور جواب دینگے ۔
السلام علیکم۔
ایک سوال میرے ذہن میں بھی چھلانگیں مار رہا ہے کہ اگر نعمان صاحب کی بات درست ہے کہ سافٹ وئیر کو آج کل عام استعمال ہونے والی شرائط کے ساتھ بیچنا غلط ہے، تو کیا ان شرائط پر خریدنا بھی غلط ہوگا؟
معاہدے کی خلاف ورزی تو ظاہری بات ہے کہ جائز نہیں۔ لیکن کیا ان شرائط پر معاہدہ کرنا جائز ہے؟ :?
سر جی اگر میری کسی بات سے دل آزاری ہوئی ہے تو میں معزرت چاہتا ہوں
اجمل صاحب اگر کسی صورت میری طرف سے ایسی کوئی بات کہی گئی تو معذرت چاہتا ہوں۔ تبصرے کرتے ہوئے میں نے واضح کیا تھا کہ آپ کی تحریر سے کنفیوژن پیدا ہوا ہے اور اس کا لازمی اثر ہوگا۔
نعمان صاحب اور عنیقہ ناز صاحبہ کے اٹھائے گئے سوالات کی بابت کچھ لکھ رکھا ہے یعنی سافٹ ویر انڈسٹری کا بزنس ماڈل جو انشاء اللہ کل شائع کرنا ہے جس سے شاید کچھ چیزوں میں ایک حلقے کے موقف کی مزید وضاحت ہوسکے۔
کامران صاحب
آپ کیوں پریشان ہونے لگے ؟ میں تو ان کا بھي برا نہیں مناتا جو مجھے برا کہتے ہیں
راشد کامران صاحب
آپ کی تحریر کا انتظار رہے گا
لنک بھی دینا تھا کہ کدھر ہے۔ نعمان صاحب کی باتیں سنجیدگی سے نہ لیا کریں وہ اکثر اوقات کسی انگلش بلاگ سے کچھ پڑھ کر ترجمہ کرتے وقت لطیفہ چھوڑہی جاتے ہیں۔
دراصل یاسر عمران مرزا کا سوال تھا کہ آیا یہ حرام ہے یا حلال تو اس سلسلے میں میں نے اپنی رائے دی تھی کہ اسلامی معاشی اصولوں کے مطابق اسلامی ریاست میں ان شرائط کے ساتھ سافٹوئر فروخت نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہ اسلام کے معاشی اصولوں کے خلاف ہوگا۔ لیکن چونکہ لوگ سافٹوئر انسٹال کرتے وقت وہ شرائط قبول کرلیتے ہیں تو پھر وہ اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں چاہے وہ غیر اسلامی ہی کیوں نہ ہوں۔ اسلئے اگر بات اسلام کی ہوگی تو اسلامی ریاست میں اس قسم کی شرائط کے ساتھ سافٹوئر کی فروخت پر پابندی لگ جائے گی۔ جو ظاہر ہے مغربی کارپوریشنز کبھی ہونے نہ دیں گی۔
نعمان صاحب
یہی بات تو میرے مہربانوں کو سمجھ نہین آ رہی
ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری وجہ سے آپ کی دل آزاری ہوئی۔ دراصل ہمیں یہ نہیں لکھنا چاہیے تھا کہ چونکہ آپ پائریٹڈ سافٹویئر استعمال کر رہے ہوں گے اس لیے اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ کامران راشد صاحب کے بقول ہم بھی انہی لوگوں میں شمار ہوئے جنہیں غلط فہمی ہوئی۔ دراصل آپ کی تحریر کا عنوان اور پھر بعد میں کچھ ایسی باتیں کنفیوژ کرنے والی تھیں۔
ہمارا استدلال پھر یہی ہے کہ بیشک گورا یا یورپ مسلمانوں کا استحصال کر رہا ہے لیکن اس کے جواب میں اسلام کبھی اجازت نہیں دے گا کہ مسلمان بھی استحصال شروع کر دیں۔ راشد صاحب نے صیحح کہا کہ بعض اوقات پابندیوں سے ہی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس دنیا کا ایک منطقی اصول ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کو طاقت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ وہ غلط کیخلاف ایکشن لے سکیں۔ آج یورپ طاقتور ہے اور اسی کے اصول ساری دنیا پر مسلط ہیں۔ جب مسلمان طاقتور تھے تو مسلمانوں کی چلتی تھی۔
اب بھی اگر ہم آپ کی تحریر کا مطلب نہیںسمجھے تو اس کیلیے پھر سے معذرت۔
افضل صاحب
میری تو ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ یہ استحصالی ہمارے ملک کی امداد بند کر دیں تاکہ جو کچھ ہونا ہے ایک بار ہو جائے اور روز روز کا مرنا بند ہو کیونکہ اس امداد کا 10 فی صد سے زیادہ ترقی پر نہیں لگتا
اجمل انکل،
جو سوالات آپ نے اور عنیقہ بہنا نے اٹھائے تھے مجھے ان کی اصل سے اختلاف ہے۔ دراصل بدقسمتی سے ہمارے یہاں رواج یہ ہو چکا ہے کہ قانون وہی نافذ العمل ہوتا ہے جس سے کسی طاقتور کو فائدہ پہنچنے کی امید ہو۔ اسی لئے جن قوانین پر عمل درآمد سے ہمارے حکمران یا بااثر طبقے کا فائدہ ہوتا ہے ان کا نفاذ بھی بھرپور ہوتا ہے۔ عوام کیونکہ اپنے لئے بھی ایسی ہی آسانی چاہتی ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتی سو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتی ہے۔ سافٹ ویئر کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہاں امریکی یا غیر امریکی کا نہیں بلکہ سیدھا سا بنیادی اصول تجارت کا ہے۔ کیا شرع ہمیں کسی کی بھی چیز بلا قیمت ادا کئے یا بنا پوچھے استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ اس کے جواب میں تو آپ کا میرا اور کسی کا بھی اختلاف نہیں۔ سافٹویر بھی ایک پراڈکٹ ہے، ایک ثمر ہے کسی کی محنت کا۔ اس سے بنا قیمت ادا کئے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ دین کے معاملہ میں آپکے ایک اور سوال کا میری ناقص فہم کے مطابق تو یہی جواب ہے کہ دین کو جتنا بھی زندگی میں نافذ کیا جاسکتا ہے کیا جانا چاہئے۔ ایک برائی دوسری برائی کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ آج کی دنیا میں اوپن سورس اندھا دھند مارکیٹ میں آرہے ہیں۔ مائیکروسافٹ کی چیزیں استعمال کرنا ضروری بھی نہیں لیکن اگر آپ کو کرنا ہیں تو حقدار کو اس کا حق دیں۔ آپ نے بیان کیا کہ پاکستانی نوجوان محنت سے سافٹویر کے حصے بناتے ہیں اور منافع بیرونی کمپنی لے جاتی ہے۔ آپ یہ بھی دیکھئے کہ اگر وہ بیرونی کمپنی ان پاکستانیوں سے سافٹویر نہ بنوائے تو پھر ان کے گھر کی روٹی کیسے چلے؟ یہ تو سیدھا سا طلب و رسد کا معاملہ ہے۔ وہ کمپنیاں پاکستانیوں کو پاکستان کے حساب سے اچھی تنخواہ دیتی ہیں۔ اگر انہوں نے پاکستانیوں کو بھی اتنا ہی معاوضہ دینا ہے جتنا امریکہ میں ایک سافٹویر انجنیئر کو تو پھر وہ پاکستان سے سافٹویر کیوں بنوائیں؟ اسی سستی لیبر کو استعمال کرکے بھارتی کمپنیاں آج امریکی کمپنیوں کو دیوالیہ کررہی ہیں کہ جتنے پیسوںمیں ایک امریکی انجنیئر ملتا ہے، وہ پانچ بھارتی انجنیئر مہیا کردیتی ہیں۔ سو یہ تو آپ کا اپنا کام ہے کہ آپ اپنی مضبوطی کو کیسے کیش کرواتے ہیں۔ جہاں تک اجارہ داری کا معاملہ ہے، ترقی یافتہ ممالک میں ان باتوں کے لئے قوانین موجود ہیں۔ ہمارے یہاںبھی ہوں گے لیکن ان کا نفاذ ایک الگ معاملہ ہے۔ کاروبار میں تو ہر کوئی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی جستجو کرتا ہے اور اس پر قدغن بھی نہیں لگانی چاہئے کہ اسی سے کاروبار دنیا کا اتار چڑھاؤ منسلک ہے۔ لیکن بہرحال صارف کے مفادات کا تحفظ پہلے صارف کی اور پھر حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں ناکامی کا ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہرایا جانا چاہئے۔
محترم افتخار اجمل صاحب!
ایک اور بات جس کا یہاں بار بار تذکرہ ہوا ہے۔ کہ یہ چوری ہے۔ میں سمجھتا ہوں دنیا کے جن ممالک سے مجھے واسطہ پڑا ہے وہاں کسی میں بھی سوفٹ وئیر ناجائز طور پہ استعمال کرنے والوں پہ چوری کا الزام عائد نہیں ہوتا۔ یہ سارا معاملہ دراصل جملہ حقوق کا کے کہ جس کے نام محفوظ ہوں اسکی اجازت ضروری ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی استعمال کے لئیے غیر قانونی طور پہ پائریسی کیا ہوا سوفٹ وئیر یا بکس کی فوٹو کاپیز اور موسیقی اور فلم کی غیر قانونی کاپی نجی استعمال میں لانے سے کوئی فوجداری مقدم نہیں بنتا۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات آپ سے کرنے جارہا ہوں۔آپ نے جو لکھا ہے کہ ۔۔میری تو ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ یہ استحصالی ہمارے ملک کی امداد بند کر دیں تاکہ جو کچھ ہونا ہے ایک بار ہو جائے اور روز روز کا مرنا بند ہو کیونکہ اس امداد کا 10 فی صد سے زیادہ ترقی پر نہیں لگتا۔ میں اس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں بلکہ کسی زمانے میں بہت سارے لوگوں کے سامنے یہ نکتہ اٹھا چکا ہوں کہ اگر یہ ایڈ نہ ہو گی تو بہت سے غیر ممالک کو ہمارے معاملات میں دخل دراندازی کرنے کا بہانہ نہین ملے گا۔ ہمارے حکمران ایک سے بڑھ کر مانگت ہے۔ سوفٹ وئیر کمپنیز تو کچھ لوگوں کا خون چوستی ہیں جبکہ ہمارے حکمران پوری قوم اور ملک کو گروی رکھ کر خیرات میں ملا پیسا حضم کر جاتے ہیں ۔ `پ کی بات درست ہے اگر اس ایڈ کا دس فیصد بھی عوامی منصوبوں پہ لگتا رہتا تو آج ملک میں کہیں نہ کہیں نظر آتا ۔وہاں تو یہ حالت ہے چار چھ ماہ بعد واپس آؤ تو ملک کی پہلے سے بھی پیچھے جا چکی ہوتی ہے ۔ ہم منفی سے نیچے چل رہے ہیں۔ نہ یہ امداد ہوتی تو جن لوگوں کے منہ کو حرام لگا ہوا ہے انہیں اپنی مجبوری کی وجہ سے ہی ریاست کے واسعل کو ترقی دینی پڑتی ۔ اب حالت یہ ہی کہ یہ تو اپنے لئیے قرضے، امداد و خیرات ہڑپ کر کے اپنے بنک بھر لیتے ہیں مگر ملک قوم کے حالات دب بدن وگروگوں ہو رہے ہیں ۔
خرم صاحب
آپ نے درست لکھا ہے ۔ میں اس میں معمولی اضافہ کروں گا ۔ تمام مذاہب میں کسی کا استحصال کرنا یا مجبوری سے فائدہ اٹھانے کو گناہ قرار دیا گیا ہے ۔
جاوید گوند صاحب
درست کہا آپ نے