تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ سب شرارت منظرنامہ کی ہے جنہوں نے بلاگستان کا شوشہ چھوڑا ۔ عمر احمد بنگش صاحب نے میری تحریر اور تشریح کے بعد مندرجہ ذیل اظہارِ خیال کیا ہے جو مزید وضاحت مانگتا ہے ۔ میں اللہ کی عطا کردہ سمجھ ۔ تحقیقی کتب کے مطالعہ اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں
1 ۔ چیک پوائنٹحلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کاآلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے
2 ۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میںصرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے
3 ۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے
اس کے علاوہ اگر کچھ میںسمجھنے میںناکام رہا ہوںتو میری کوتاہی ۔ یہاںتک تو بات ٹھیک ہے ۔ لیکن دو ایک چیزیںہیںجو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں
4 ۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
5 ۔ ضمیر کا ماخذکیا ہے؟، دماغ، قلب یا دونوں
6 ۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
7 ۔ کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے
1 ۔ انسان میں اچھے بُرے کی تمیز پیدائشی ہے ۔ میں نفسیات بالخصوص بچوں کی نفسیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ میں انسانوں اور بچوں پر ہلکے پھُلکے تجربات کرتا رہا ہوں ۔ میں نے 6 سے 10 ماہ کے بچوں پر آزما کے دیکھا ہے کہ اُنہیں بھی اچھے بُرے کی پہچان ہوتی ہے ۔ بعد میں جب ماحول ان پر حاوی ہو جاتا ہے تو یہ پہچان معدوم یا مجروح ہو جاتی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین لکھتے ہیں کہ رحمِ مادر میں بھی بچہ باہر کے ماحول سے متاءثر ہوتا ہے
آپ ایک ايسے بچے کے پاس جو بیٹھتا ہے مگر کھڑا نہیں ہوتا اور کبھی مٹی کے پاس نہیں گیا اس کے دودھ کی بوتل یا بسکٹ جو وہ کھاتا رہتا ہے رکھ دیجئے اور قریب ہی مٹی کا ڈھلا رکھ دیجئے اور کمرے سے باہر نکل جایئے ۔ اگر بچہ مٹی اٹھائے اور عین اس وقت آپ کمرے میں آ جائیں تو بچہ ڈر جائے گا ۔ اگر بچے نے دودھ کی بوتل یا بسکٹ اٹھایا ہو تو اس پر آپ کی آمد کا کچھ اثر نہیں ہو گا
2 ۔ سیدھی یا اچھی راہ کا تعیّن از خود ہو جاتا ہے اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا
3 ۔ سیدھی راہ آگ کا دریا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو وہ تراوٹ بخشتی ہے جو کسی مادی چیز سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اللہ پر یقین شرط ہے
4 ۔ “علم کا منبع” میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ علم تو بذاتِ خود منبع ہے ۔ علمِ نافع انسان کو سیدھی راہ پر چلا کر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جبکہ علمِ باطل انسان کو سبز باغ دکھا کر تباہی کی طرف لے جاتا ہے جس کا احساس بعض اوقات بہت دیر سے ہوتا ہے ۔ وہ علم بیکار ہے جس کا عملی زندگی سے تعلق نہ ہو ۔ اسے المیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں علم نہیں اسناد حاصل کرنے کا رجحان ہے ۔ عالِم یا اچھا انسان بننے کیلئے بہت کم لوگ علم حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کثیر تعداد ایم بی بی ایس کر کے طِب کا پیشہ اختیار نہیں کرتیں ۔ اس طرح ایک تو وہ اپنا عِلم ضائع کرتی ہیں دوسرے ان طلباء اور طالبات کا حق مارتی ہیں جو اِن کی وجہ سے ایم بی بی ایس کے داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ ملک میں اطِباء کی قلت ہے
5 ۔ ضمیر نہ دل میں ہے نہ دماغ میں ۔ یہ ایک احساس ہے جو اللہ تعالٰی نے ہر ذی ہوش انسان میں رکھا ہے ۔ بُرے سے بُرے آدمی کا ضمیر کسی وقت جاگ کر اسے سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے ۔ ایسے کچھ لوگ میرے مشاہدے میں آ چکے ہیں جو میرے ہمجماعت یا دفتر کے ساتھی تھے
6 ۔ حق کا سب کو علم ہوتا ہے لیکن خودغرضی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ بات وہیں پر آ جاتی ہے جیسا میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ ” اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا”
7 ۔ وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا جائے یا جس پر عمل نہ ہو سکے ۔ جو لوگ حاصل کردہ علم سے استفادہ کرتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں اللہ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ وقتی تکالیف تو ہر شخص پر آتی ہیں چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق اختیار کرے ۔ تکلیف کی نوعیت فرق ہو سکتی ہے
علم انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے ۔ آئزک نیوٹن نے کہا تھا کہ ہاتھ کے انگوٹھے کی ایک پور کا مطالعہ ہی خالق کو پہچاننے کیلئے کافی ہے
سر جی آپ کی باتیں توجہ اور تفصیل مانگتی ہیں ۔
کامران صاحب
توجہ کیجئے تو تفصیل ازخود واضح ہو جائے گی
عمر بنگش صاحب کے سوال واقعی بڑے گمبھیر قسم کے ھیں
ما شا اللہ آپکے جواب مختصر اورسمجھانے کے لئے کافی ھیں گو میں لکھتا تو بہت صفحے بھر دیتا۔
آپ نے احادیث سے ھی جواب لکھے ھیں آپکی احتیاط حدیث “کوٹ” کرنے سے روکتی ھے
مگر یہ درست ھے کہ آنحضور صل اللہ علیہ وصلم نے ضمیر کے لئے دل کا اشارہ کیا ھے۔ میں اسے مجازی یا مثا لی دل کہ لیتا ھوں۔ دماغی امراض کا “ماہر” تو ھوں مگر مجھے یہ یقین نھیں ھے کہ انسان کا ضمیر “دماغ” میں ھے(یہ ساینٹفک سٹیٹمنٹ ہے اور ابھی تک میرا مطالعہ اس ٹاپک پر مکمل نھیں ھئوا)
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
حدیث مین دِل سے مراد وہ دل ہی ہے جسے ہم عام زبان میں دل یا جی کہتے ہیں ۔ جیسے میرا دل نہیں چاہتا ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ جلیبی کھاؤں ۔ تو اس سے مراد وہ دل نہیں ہے جو سینے کے اندر دھڑک رہا ہے ۔ جہاں تک حدیث کے حوالہ کا تعلق ہے ۔ جب تک مستند حوالہ یاد نہ ہو حوالہ نہیں دینا چاہیئے
اسلام وعلیکم،
جناب سب سے پہلے تو میںانتہائی معذرت خواہ ہوںکہ ایک تو اتنی دیر سے یہاںحاضر ہوا، اور وعدہ کے مطابق ابھی تک آپ کو ای میل بھی نہیںکر سکا، دراصل رمضان کی آمد آمد ہے اور میرے دفتر کی خواہش ہے کہ کافی سارا کام اگر رمضان سے پہلے نبٹا دیا جائے تو بہتر، امید ہے آپ سمجھ سکتے ہیں۔
اب تک کی بحثاورآپ کی انتہائی قیمتی آراءمیںکئی ایک چیزیںواضع ہوتی ہیں۔ اس پہلو میںکچھ چیزیںدلچسپی سے خالی نہیںجیسے،
1۔ اچھے برے کی تمیز اگر پیدائشی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
2۔ علم کے حوالے سے ایک بات کہ تعلیم حاصل کرنا واقعی اب ایک المیہ ہے- اگر سیدھی راہ کا تعلق علم سے ہے تو ان پڑھوںکا کیا ہو گا، کیا وہ سیدھی راہ پر نہیںچل سکتے۔ اس بات سے تو آپ بھی متفق ہوںگے کہ علم کی ذیادتی بھی بعضاوقات شر بن جاتی ہے۔
3۔ آپ کے مطابق ضمیر ایک احساس کا نام ہے جسے تصوف میںہم قلب کے نام سے جانتے ہیں، وھاج الدین صاحب بھی شاید یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟
4۔ علم اور عمل چولی دامن کے ساتھی ہیں۔ لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ تکالیف یا مشکلات کا تعلق آزمائش سے ہے ناںکہ آپ کی سمجھ سے۔ مطلب بہتر علم اور بہتر عمل اس بات کی گارنٹی نہیںکہ اس سے تکالیف دور ہو سکتی ہیں، بلکہ تکالیف جدا آزمائشیںہیں؟ ہاںسکون قلب یا اس دنیا میںراحت ملنا اور بات ہے۔
بہت شکریہ جناب، انتہائی مفید باتیںاب کے پلے پڑی ہیں، جن کی وجہ سے مجھے یقین ہے میرا کافی بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔
وھاج الدین صاحب کا بھی بہت شکریہ۔
عمر احمد بنگش صاحب
آپ کے دوسرے اندراج کے سلسلہ میں میں کہوں گا کہ علم سیکھنا اور سکول کالج یا يونیورسٹی جانا دو مختلف عمل ہیں ۔ دیگر ان پڑھ بھی علم سیکھ سکتا ہے ۔
علم کی زیادتی نہیں بلکہ یہ گمان کہ میں نے بہت علم حاصل کر لیا شر ہے ورنہ جس ٹہنی پر زیادہ پھل ہو گا وہ زیادہ جھُکی ہوئی ہو گی
جی متفق ہوںصاحب