إِنَّ الله لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورت13الرعدآیت11) ترجمہ ۔ الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ۔ ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (سورت 53 النّجم آیت 39) ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ۔ ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ۔ ۔ ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے ۔ ۔ ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی
اس کے لئیے حوصلہ ، اعلٰی ظرفی اور بہت بڑا دل چاہئیے۔مگر اس سے سبق ضرور سیکھنا چاہئیے۔ یہ اس صورت میں جب ذاتی معاملات کی بات ہو۔ اگر قومی معاملہ ہو تو ماضی کی تلخیوں کے ذمہداروں کو نہ صرف قرارِ واقعی سزا دی جانی چاہئیے بلکہ انہیں رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنا دیا جانا چاہئیے تانکہ آئیندہ کوئی بھی خلقِ خدا کو “تلخ” نہ کرسکے۔
افتخار اجمل صاحب، مجھے اس معاملے میںتھوڑی رہنمائی چاہیے ہو گی، اگر آپ مناسب سمجھیںتو،
1۔ بارہا میںنے یہ سنا ہے کہ حال میںرہنا بھی چاہیے، اور ایک حدیث بھی سنی ہے کہ “عقلمند شخصوہ ہے جو اپنی زندگی ایک ایک لمحہ کر کے، اس کی نگرانی کر کے گذارتا ہے۔” اس حدیثکی صحت بارے مجھے پورا علم نہیں، سو اللہ معاف کرے اگر کچھ کمی بیشی ہو تو۔ خیر مجھے یہ جاننا ہے کہ حال میںکیسے رہا جا سکتا ہے، مطلب ایسی کونسی منصوبہ بندی ہو گی جو مجھے اور کئی دوسرے نوجوانوںکو حال میںزندہ رکھ سکے، کیونکہ ہم میںسے اکثر یا تو ماضی یا پھر مستقبل میںجی رہے ہیں؟
2۔ حال میںرہتے ہوئے مستقبل کی فکر کیسے کی جا سکتی ہے، یہ تو متضاد باتیںنہیںہیں؟
3۔ میںاور میرے کئی دوست اس بات پر کڑھتے ہیںکہ ہم جس حال میںہیں، دراصل بڑے ہی بد حال میںہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہماری یہ سوچ انتہائی غلط ہے، اس سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟
رہنمائی کے لیے پیشگی شکریہ جناب۔ :P
میںگوندل صاحب سے بھی درخواست کروںگا کہ وہ بھی ان سوالات پر روشنی ڈالیں۔
عمر نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں!
پچھتاوا اور خوف انسان کی سب سے بڑی بیماریاں ہیں۔
گزرے کل کا پچھتاوا اور آنے والے کل کا خوف
میری ناقص فہم اور ناکافی تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ توکل علی اللہ سے ان بیماریوں کا علاج ہوسکتاہے۔
باقی اس پر روشنی دونوں صاحبان علم بہتر طور پر ڈال سکتے ہیں۔
عمر احمد بنگش بھائی!
ابھی مجھے کچھ کام نمٹانے ہیں انشاءاللہ بعد میں آپ کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرونگا ۔ وقتی طور پہ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ۔ حال میں کئیے گئے چھوٹے بڑے اقدام کل لو آپ کا مستقبل در پیش آنے پہ آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچائیں گے ۔ اور عین اس وقت آپکے روشن یا خداہ نخواستہ سیاہ ماضی کا حوالہ بنیں گے ۔ ماضی ایک ایسی چیز ہے جس میں پیچیدگیوں کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ یہ پیچدگیاں اسوقت ہونی ہی نہیں چاھئیں تھیں ۔ کی ہی نہیں جانی چاھئے تھیں جب آپ اور ہم اس ماضی کو جب وہ ماضی نہیں بلکہ حال تھا ۔ اس میں وہ سب کچھ کر رہے تھے ۔ اس لئیے بھی حال پہ ھی ماضی اور مستقبل تعمیر ہوتے ہیں۔
آپ سوال کا جو حصہ اپنے بارے میں ہے وہ میں کل پرسوں غالبا افضل صاحب کے بلاگ میں لکھ چکا ہوں ۔۔ ۔جبکہ ایک مسلمان پہ اللہ سبحان و تعالٰی کے احکامات لازم اور عبادت یعنی نماز روزہ زکواۃ حج وغیرہ فرض تو ہیں ہی اور انہین ادا کرنے پہ قدرت رکھنے والوں کو اس سے مفر کسی صورت میں نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ان سب احکامات کے بجالانے کے باوجود انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک اسکی ہر بات، ہر کام، اسکا اٹھنا بیٹھنا مرنا جینا دو صورتوں میں تقسیم ہے ۔ ایک حلال دوسرا حرام۔ جس نے اپنے آپ کواپنی پوری زندگی حلال کی حدود میں رکھا وہی مسلمان کہلائے جانے کا اصل حقدار ہے ۔ اور جنہوں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی، ایک زرہ بھی حرام سے کشید کیا ہے۔ وہ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔۔۔
عمر بھائی ! جس نے حلال نہیں اپنایا اس کا حال اور مسقبل اور مستقبل پیش آنے پہ اس کا ماضی سبھی بے چین ہیں اور دنیاوی ترقی بھی نہیں ہوتی ۔ حلال سے مراد صرف حلال کمانا نہیں ہے بلکہ روز مرہ کے اعمال بھی اس میں شامل ہیں کہ آیا جو کچھ ہم کرتے، کھاتے، پیتے ، اور دوسروں سے برتاؤ اور سلوک روا رکھتے ہیں آیا وہ حلال کے ذمرے میں آتا ہے یا حرام کے زمرے میں ۔ اسی بات پہ بدحالی اور خوشحالی ۔ بے چینی اور سکون کی عمارت کھڑی ہے۔
اسلام وعلیکم حضرات۔
جاوید گوندل صاحب کا نہایت مشکور ہوںکہ انھوںنے وقت نکالا، اجمل صاحب میںآپکا بھی نہایت مشکور ہوںکہ ای میل پر رابطے کی اجازت بخشی۔
جاوید گوندل صاحب، پہلی بات جو آپ نے کہا کہ حال نے ماضی میںتبدیل ہونا ہے، تو مجھے اس حدیث اور ایک نظریہ جو کافی عرصہ سے میرے ذہن میںپنپ رہا ہے، اس کو قوت بخش دی ہے۔ ہاںیہ مددگار ضرور ہے، لیکن میرا سوال جوںکا توںہے کہ ایسا کونسا گُر ہے جس کی مدد سے ایک عام انسان جیسے میں، اپنے حال پر نظر رکھیں۔ ایسا کونسا “چیک پوائنٹ” کوئی چیک پوسٹٹائپ شے ہوسکتی ہے جو ہمیںہر لمحے اپنے احتساب پر مجبور کیے رکھے۔ اللہ کی زات کا خوف ایک زریعہ ہو تو سکتا ہے، لیکن جناب ہم نوجوان ایسا کیا کریںکہ ہمارے دل اللہ کی ہیبت سے ہر وقت کانپتے رہیں۔ اور اگر محبت کی بات ہو تو بس فنا ہوجائیں۔
کوئی طریقہ ہو، کوئی گُر یا کوئی کلیہ ہو تو جناب، ضرور بتائیں۔ کیونکہ یہ پوری ایک نسل کے مستقبل کا سوال ہے!۔
افضل صاحب کی وہ پوسٹتلاش کے باوجود مجھے مل نہیںپا رہی ہے، اگر مہربانی کریںتو اسکا لنک ارسال کردیں، اس کا مطالعہ کر کے ہی مذید کچھ کہنے کے قابل ہو سکوںگا۔
جعفر جی، بلاشبہ خوف، پچھتاوا اور اندیشہ بری بلا ہے۔ لیکن میرا اصل سوال وہی ہے کہ توکل علی اللہ کی معراج کیسے پائی جائے۔
عمر بھائی!
میڑی ذاتی رائے میں آپ نے وہ سوال مجھ ناچیز کیا ہے جس کا جواب بہت لوگ اور اللہ کے نیک بندے ساری عمر تلاش کرتے رہیں۔
میں پھر اسی بات پہ زور دونگا۔ کہ روز مرہ زندگی میں کچھ بھی کرت ہوئے آپ اپنے ضمیر سے یہ سوال کیا کریں ۔ کہ آیا جو میں کرنے جارہا ہوں ہی کرنا حلال ہے یا حرام ۔ صرف جائز اور ناجائز نہیں کیونکہ فی زمانہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہیں تو جائز مگر اگر ضمیر کوڑا بن کر برسے کہ نہیں تو پھر ناجائز ہے۔
جب انسان حلال حرام کی تمیز اور اس پہ عمل شروع کردیتا ہے ۔ باقی سارے راز خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
حلال حرام افراد سے لیکر قوموں پہ یونی انفرادی اور اجتماعی طور پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اسی پہ انسنایت اور ترقی کا خمیر اٹھتا ہے۔ اسلام ای سیدھا سادا اور روشن خیال مذہب ہے۔ اس میں کوئی ابہام کوئی شک باقی نہیں ہر بات ہر صورت میں واضح ہے ۔ اسلئیے اسلام پراسرار قسم کے حل پیش نہیں کرتا –
اللہ سبحان و تعالٰی کی بہترین تخلیق انسان ہے۔ اور اللہ کو ہمیشہ سے یہ علم ہے کہ انسان کی حدود کیا ہے ۔ انسان کی خواہشات کیا ہیں۔ کونسی اسٹیج پہ پہنچ کر انسان انسانیت سے گر سکتا ہے۔ کئی قسم کی طلب حضرت انسان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انسان جاہ حشمت کا بھی متمنی ہے۔ خودار بھی ہے خود پسند بھی ۔ ذہین فطین بھی ہے ۔ چالاک اور ہوشیار بھی۔ رحمدل بھی ہے ظالم بھی۔غصیلہ بھی ہے حلیم بھی۔ دیانتدار بھی بد دیانت بھی۔ کمزور بھی ہے بہادر۔ الغرض انسان میں ہر قسم اور ہر کیفیت پائی جاتی ہے ۔ جو حالات کے مطابق ضرورت کے تحت اور بعض اوقات خبث باطن کی وجہ سے، یہ کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ ماحول اس پہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ ڈٹ گیا تو دنیا فتح کرنے پہ کمر بستہ ، گھبرا گیا تو اپنے حالات سے گھبرا گیا۔ اور چونکہ اللہ سبحان و تعالٰی اسکا خالق ہے تو بھلا پھر اللہ تعالٰی کو کیوں پتہ نہیں ہوگا کی حضرت انسان کیا ہےـ؟ اسلئیے اللہ تعالٰی نے قانون قاعدے حدود اور اپنے احکامات بیجھے ۔ تاکہ نہ برائی میں۔نہ جدائی میں۔ نہ تکبر میں ۔ نہ نخوت میں۔ نہ جاہ و حشمت میں۔ نہ امری میں نہ غریبی میں- نہ قلندری میں نہ بادشاہی ۔ یعنی کسی بھی صورت میں انسانوں اور خصوصا مسلمانوں کو اپنی حدود میں رکھنے کے لئیے ۔ ہر بات واضح بیان کردی ہے جو پھر بھی ہدایت نہیں پاتے ان کے لئیے حدود ہیں، سزائیں ہیں۔یومِ قیامت سزا اور جزا ہے۔ مگر اان سب سے بڑھ کر جو چیز انسان کو اللہ تعالٰی نے عطا کی ہے اور مسلمانوں کے اندر رکھی ہے وہ ہے ضمیر۔ انسانی ضمیر۔ آپ دن جو بھی کریں اپنے ضمیر سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا جو آپ کرنے جارہے ہیں کیا آیا وہ حلال اور حرام دونوں میں سے اسکا پلڑا کس طرف ہے۔ جب حرام مسلمان کی زندگی سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے لئیے خیروبرکت کے دروازے خود بخود ہی وا ہوجاتے ہیں۔
عمر احمد بنگش صاحب
انسان جو کچھ بھی ہے اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہے ۔ انسان اللہ پر مکمل یقین رکھے تو اللہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔ سخت وقت انسان پر نہ آئے تو انسان تجربہ حاصل نہیں کر سکتا ۔ چیک پوائنٹ وہ ہے جس دن کوئی انسان فیصلہ کر لے کہ آج کے بعد اس نے حق کا ساتھ دینا ہے
کوشش کرتے رہنا چاہئے
کھلاڑی ہوتا ہے نا جی، مسلسل مشق سے کامل ہوجاتاہے۔
بچہ چلنا سیکھتا ہے تو گرتا ہے بار بار، روتا بھی ہے، چوٹ بھی لگتی ہے
لیکن چلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے
تو جی ایک دن چلنے لگتا ہے
اسلام وعلیکم حضرات۔
سب سے پہلے توآپ تمام صاحبان کا شکریہ کہ رہنمائی کے واسطے اتنا وقت نکالا۔
اگر میںساری بات کو سمیٹتا ہوں، تو مجھ کم علم کو مندرجہ ذیل نُکتے ملتے ہیں،
1۔ چیک پوائنٹحلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کاآلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے۔
2۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میںصرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔
3۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے”۔
اس کے علاوہ اگر کچھ میںسمجھنے میںناکام رہا ہوںتو میری کوتاہی۔ یہاںتک تو بات ٹھیک ہے، لیکن دو ایک چیزیںہیںجو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں۔
1۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
2۔ ضمیر کا ماخذکیا ہے؟، دماغ، قلب یا دونوں
3۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے!!!۔
پیشگی شکریہ
ایک بات کا ہم بھی اضافہ کر دیں
خود غلطی کرنے سے پہلے دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا۔
ماضی کی تلخیوں کو بھُلانا
اس کے لئیے حوصلہ ، اعلٰی ظرفی اور بہت بڑا دل چاہئیے۔مگر اس سے سبق ضرور سیکھنا چاہئیے۔ یہ اس صورت میں جب ذاتی معاملات کی بات ہو۔ اگر قومی معاملہ ہو تو ماضی کی تلخیوں کے ذمہداروں کو نہ صرف قرارِ واقعی سزا دی جانی چاہئیے بلکہ انہیں رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنا دیا جانا چاہئیے تانکہ آئیندہ کوئی بھی خلقِ خدا کو “تلخ” نہ کرسکے۔
افتخار اجمل صاحب، مجھے اس معاملے میںتھوڑی رہنمائی چاہیے ہو گی، اگر آپ مناسب سمجھیںتو،
1۔ بارہا میںنے یہ سنا ہے کہ حال میںرہنا بھی چاہیے، اور ایک حدیث بھی سنی ہے کہ “عقلمند شخصوہ ہے جو اپنی زندگی ایک ایک لمحہ کر کے، اس کی نگرانی کر کے گذارتا ہے۔” اس حدیثکی صحت بارے مجھے پورا علم نہیں، سو اللہ معاف کرے اگر کچھ کمی بیشی ہو تو۔ خیر مجھے یہ جاننا ہے کہ حال میںکیسے رہا جا سکتا ہے، مطلب ایسی کونسی منصوبہ بندی ہو گی جو مجھے اور کئی دوسرے نوجوانوںکو حال میںزندہ رکھ سکے، کیونکہ ہم میںسے اکثر یا تو ماضی یا پھر مستقبل میںجی رہے ہیں؟
2۔ حال میںرہتے ہوئے مستقبل کی فکر کیسے کی جا سکتی ہے، یہ تو متضاد باتیںنہیںہیں؟
3۔ میںاور میرے کئی دوست اس بات پر کڑھتے ہیںکہ ہم جس حال میںہیں، دراصل بڑے ہی بد حال میںہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہماری یہ سوچ انتہائی غلط ہے، اس سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟
رہنمائی کے لیے پیشگی شکریہ جناب۔ :P
میںگوندل صاحب سے بھی درخواست کروںگا کہ وہ بھی ان سوالات پر روشنی ڈالیں۔
جو قومیں اپنا ماضی یاد نہیں رکھتیں ان کا حال کیا ہو گا اگر ہمارے جیسا ہو تو مستقبل کیسا ہو گا کہ مستقبل کے انتظار میں جنریشن گیپ آ جائے ۔
عمر نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں!
پچھتاوا اور خوف انسان کی سب سے بڑی بیماریاں ہیں۔
گزرے کل کا پچھتاوا اور آنے والے کل کا خوف
میری ناقص فہم اور ناکافی تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ توکل علی اللہ سے ان بیماریوں کا علاج ہوسکتاہے۔
باقی اس پر روشنی دونوں صاحبان علم بہتر طور پر ڈال سکتے ہیں۔
عمر احمد بنگش بھائی!
ابھی مجھے کچھ کام نمٹانے ہیں انشاءاللہ بعد میں آپ کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرونگا ۔ وقتی طور پہ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ۔ حال میں کئیے گئے چھوٹے بڑے اقدام کل لو آپ کا مستقبل در پیش آنے پہ آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچائیں گے ۔ اور عین اس وقت آپکے روشن یا خداہ نخواستہ سیاہ ماضی کا حوالہ بنیں گے ۔ ماضی ایک ایسی چیز ہے جس میں پیچیدگیوں کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ یہ پیچدگیاں اسوقت ہونی ہی نہیں چاھئیں تھیں ۔ کی ہی نہیں جانی چاھئے تھیں جب آپ اور ہم اس ماضی کو جب وہ ماضی نہیں بلکہ حال تھا ۔ اس میں وہ سب کچھ کر رہے تھے ۔ اس لئیے بھی حال پہ ھی ماضی اور مستقبل تعمیر ہوتے ہیں۔
آپ سوال کا جو حصہ اپنے بارے میں ہے وہ میں کل پرسوں غالبا افضل صاحب کے بلاگ میں لکھ چکا ہوں ۔۔ ۔جبکہ ایک مسلمان پہ اللہ سبحان و تعالٰی کے احکامات لازم اور عبادت یعنی نماز روزہ زکواۃ حج وغیرہ فرض تو ہیں ہی اور انہین ادا کرنے پہ قدرت رکھنے والوں کو اس سے مفر کسی صورت میں نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ان سب احکامات کے بجالانے کے باوجود انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک اسکی ہر بات، ہر کام، اسکا اٹھنا بیٹھنا مرنا جینا دو صورتوں میں تقسیم ہے ۔ ایک حلال دوسرا حرام۔ جس نے اپنے آپ کواپنی پوری زندگی حلال کی حدود میں رکھا وہی مسلمان کہلائے جانے کا اصل حقدار ہے ۔ اور جنہوں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی، ایک زرہ بھی حرام سے کشید کیا ہے۔ وہ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔۔۔
عمر بھائی ! جس نے حلال نہیں اپنایا اس کا حال اور مسقبل اور مستقبل پیش آنے پہ اس کا ماضی سبھی بے چین ہیں اور دنیاوی ترقی بھی نہیں ہوتی ۔ حلال سے مراد صرف حلال کمانا نہیں ہے بلکہ روز مرہ کے اعمال بھی اس میں شامل ہیں کہ آیا جو کچھ ہم کرتے، کھاتے، پیتے ، اور دوسروں سے برتاؤ اور سلوک روا رکھتے ہیں آیا وہ حلال کے ذمرے میں آتا ہے یا حرام کے زمرے میں ۔ اسی بات پہ بدحالی اور خوشحالی ۔ بے چینی اور سکون کی عمارت کھڑی ہے۔
اسلام وعلیکم حضرات۔
جاوید گوندل صاحب کا نہایت مشکور ہوںکہ انھوںنے وقت نکالا، اجمل صاحب میںآپکا بھی نہایت مشکور ہوںکہ ای میل پر رابطے کی اجازت بخشی۔
جاوید گوندل صاحب، پہلی بات جو آپ نے کہا کہ حال نے ماضی میںتبدیل ہونا ہے، تو مجھے اس حدیث اور ایک نظریہ جو کافی عرصہ سے میرے ذہن میںپنپ رہا ہے، اس کو قوت بخش دی ہے۔ ہاںیہ مددگار ضرور ہے، لیکن میرا سوال جوںکا توںہے کہ ایسا کونسا گُر ہے جس کی مدد سے ایک عام انسان جیسے میں، اپنے حال پر نظر رکھیں۔ ایسا کونسا “چیک پوائنٹ” کوئی چیک پوسٹٹائپ شے ہوسکتی ہے جو ہمیںہر لمحے اپنے احتساب پر مجبور کیے رکھے۔ اللہ کی زات کا خوف ایک زریعہ ہو تو سکتا ہے، لیکن جناب ہم نوجوان ایسا کیا کریںکہ ہمارے دل اللہ کی ہیبت سے ہر وقت کانپتے رہیں۔ اور اگر محبت کی بات ہو تو بس فنا ہوجائیں۔
کوئی طریقہ ہو، کوئی گُر یا کوئی کلیہ ہو تو جناب، ضرور بتائیں۔ کیونکہ یہ پوری ایک نسل کے مستقبل کا سوال ہے!۔
افضل صاحب کی وہ پوسٹتلاش کے باوجود مجھے مل نہیںپا رہی ہے، اگر مہربانی کریںتو اسکا لنک ارسال کردیں، اس کا مطالعہ کر کے ہی مذید کچھ کہنے کے قابل ہو سکوںگا۔
جعفر جی، بلاشبہ خوف، پچھتاوا اور اندیشہ بری بلا ہے۔ لیکن میرا اصل سوال وہی ہے کہ توکل علی اللہ کی معراج کیسے پائی جائے۔
عمر بھائی!
میڑی ذاتی رائے میں آپ نے وہ سوال مجھ ناچیز کیا ہے جس کا جواب بہت لوگ اور اللہ کے نیک بندے ساری عمر تلاش کرتے رہیں۔
میں پھر اسی بات پہ زور دونگا۔ کہ روز مرہ زندگی میں کچھ بھی کرت ہوئے آپ اپنے ضمیر سے یہ سوال کیا کریں ۔ کہ آیا جو میں کرنے جارہا ہوں ہی کرنا حلال ہے یا حرام ۔ صرف جائز اور ناجائز نہیں کیونکہ فی زمانہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہیں تو جائز مگر اگر ضمیر کوڑا بن کر برسے کہ نہیں تو پھر ناجائز ہے۔
جب انسان حلال حرام کی تمیز اور اس پہ عمل شروع کردیتا ہے ۔ باقی سارے راز خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
حلال حرام افراد سے لیکر قوموں پہ یونی انفرادی اور اجتماعی طور پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اسی پہ انسنایت اور ترقی کا خمیر اٹھتا ہے۔ اسلام ای سیدھا سادا اور روشن خیال مذہب ہے۔ اس میں کوئی ابہام کوئی شک باقی نہیں ہر بات ہر صورت میں واضح ہے ۔ اسلئیے اسلام پراسرار قسم کے حل پیش نہیں کرتا –
اللہ سبحان و تعالٰی کی بہترین تخلیق انسان ہے۔ اور اللہ کو ہمیشہ سے یہ علم ہے کہ انسان کی حدود کیا ہے ۔ انسان کی خواہشات کیا ہیں۔ کونسی اسٹیج پہ پہنچ کر انسان انسانیت سے گر سکتا ہے۔ کئی قسم کی طلب حضرت انسان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انسان جاہ حشمت کا بھی متمنی ہے۔ خودار بھی ہے خود پسند بھی ۔ ذہین فطین بھی ہے ۔ چالاک اور ہوشیار بھی۔ رحمدل بھی ہے ظالم بھی۔غصیلہ بھی ہے حلیم بھی۔ دیانتدار بھی بد دیانت بھی۔ کمزور بھی ہے بہادر۔ الغرض انسان میں ہر قسم اور ہر کیفیت پائی جاتی ہے ۔ جو حالات کے مطابق ضرورت کے تحت اور بعض اوقات خبث باطن کی وجہ سے، یہ کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ ماحول اس پہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ ڈٹ گیا تو دنیا فتح کرنے پہ کمر بستہ ، گھبرا گیا تو اپنے حالات سے گھبرا گیا۔ اور چونکہ اللہ سبحان و تعالٰی اسکا خالق ہے تو بھلا پھر اللہ تعالٰی کو کیوں پتہ نہیں ہوگا کی حضرت انسان کیا ہےـ؟ اسلئیے اللہ تعالٰی نے قانون قاعدے حدود اور اپنے احکامات بیجھے ۔ تاکہ نہ برائی میں۔نہ جدائی میں۔ نہ تکبر میں ۔ نہ نخوت میں۔ نہ جاہ و حشمت میں۔ نہ امری میں نہ غریبی میں- نہ قلندری میں نہ بادشاہی ۔ یعنی کسی بھی صورت میں انسانوں اور خصوصا مسلمانوں کو اپنی حدود میں رکھنے کے لئیے ۔ ہر بات واضح بیان کردی ہے جو پھر بھی ہدایت نہیں پاتے ان کے لئیے حدود ہیں، سزائیں ہیں۔یومِ قیامت سزا اور جزا ہے۔ مگر اان سب سے بڑھ کر جو چیز انسان کو اللہ تعالٰی نے عطا کی ہے اور مسلمانوں کے اندر رکھی ہے وہ ہے ضمیر۔ انسانی ضمیر۔ آپ دن جو بھی کریں اپنے ضمیر سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا جو آپ کرنے جارہے ہیں کیا آیا وہ حلال اور حرام دونوں میں سے اسکا پلڑا کس طرف ہے۔ جب حرام مسلمان کی زندگی سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے لئیے خیروبرکت کے دروازے خود بخود ہی وا ہوجاتے ہیں۔
آزمائش شرط ہے۔
عمر احمد بنگش صاحب
انسان جو کچھ بھی ہے اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہے ۔ انسان اللہ پر مکمل یقین رکھے تو اللہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔ سخت وقت انسان پر نہ آئے تو انسان تجربہ حاصل نہیں کر سکتا ۔ چیک پوائنٹ وہ ہے جس دن کوئی انسان فیصلہ کر لے کہ آج کے بعد اس نے حق کا ساتھ دینا ہے
کوشش کرتے رہنا چاہئے
کھلاڑی ہوتا ہے نا جی، مسلسل مشق سے کامل ہوجاتاہے۔
بچہ چلنا سیکھتا ہے تو گرتا ہے بار بار، روتا بھی ہے، چوٹ بھی لگتی ہے
لیکن چلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے
تو جی ایک دن چلنے لگتا ہے
اسلام وعلیکم حضرات۔
سب سے پہلے توآپ تمام صاحبان کا شکریہ کہ رہنمائی کے واسطے اتنا وقت نکالا۔
اگر میںساری بات کو سمیٹتا ہوں، تو مجھ کم علم کو مندرجہ ذیل نُکتے ملتے ہیں،
1۔ چیک پوائنٹحلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کاآلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے۔
2۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میںصرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔
3۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے”۔
اس کے علاوہ اگر کچھ میںسمجھنے میںناکام رہا ہوںتو میری کوتاہی۔ یہاںتک تو بات ٹھیک ہے، لیکن دو ایک چیزیںہیںجو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں۔
1۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
2۔ ضمیر کا ماخذکیا ہے؟، دماغ، قلب یا دونوں
3۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے!!!۔
پیشگی شکریہ