لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس خواجہ محمدشریف نے چیف ٹریفک افسر لاہورکی اہلیہ کی سہیلی کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکنے کے جُرم میں معطل کئے گئے ایک ٹریفک وارڈن کو بحال اوردیگر دوکے خلاف انکوائری ختم کرنے کاحکم دیدیا
ڈی آئی جی ٹریفک محمد عثمان خٹک ۔چیف ٹریفک افسر مرزاشکیل احمد اورتینوں وارڈنز چیف جسٹس ،جسٹس خواجہ محمدشریف کے روبروپیش ہوئے ۔چیف ٹریفک افسر نے عدالت کو بتایا کہ ٹریفک وارڈنز نے ایک حساس ادارے کے افسراوران کے اہل خانہ کو غیر قانونی طورپر روک کر ان سے بدتمیزی کی جس پر اس آفیسر کی بیٹی جوان کی اہلیہ کی سہیلی ہیں نے انہیں اطلاع دی اور باقاعدہ انکوائری کے بعد ایک ٹریفک وارڈن سرفراز کو معطل کیا گیا ۔ٹریفک وارڈن غلام مرتضی اورحافظ سرفراز نے عدالت کو بتایا کہ حساس ادارے کے ایک افسرکو ممنوعہ علاقے میں کوسٹر لانے سے روکاگیاتھا جس پر ان کی بیٹی نے چیف ٹریفک افسر کی اہلیہ کو بلا لیا اور انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں کہ اگرانہیں نہ چھوڑا توتمہاری وردیاں اتروادوں گی۔ عدالت نے اس معاملے پر افسوس کا اظہار کیا اورمعطل وارڈن کو بحال کرنے اورانکوائری ختم کرنے کا حکم دیدیا۔
ابھی حق پورا نہیں آیا اور باطل بھی موجود ہے
چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
باطل کو سزا کیا ملی تنگ کرنی کی؟ اور اب ان کا ساری زندگی کیا ہوگا وارڈنز کا؟ ابھی سفر بہت باقی ہے
ہاں خوش ہولینے میں حرج نہیں :P
احمد صاحب
سیدھی راہ پر چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
کامران صاحب
حق و باطل اول روز سے موجود رہے ہیں ۔ اگر سب حق ہی ہو تو پھر حق پر چلنا کونسی بہادری ہو گی ۔ حق تو یہ ہے کہ باطل کی یلغار میں حق پر چلا جائے جو ان جوانوں نے کیا
ھق میں فیصلہ ہونے کے باوجود میری ہمدردیاں تینوں وارڈنز کے ساتھ ہیں
۔۔جس پر ان کی بیٹی نے چیف ٹریفک افسر کی اہلیہ کو بلا لیا اور انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں کہ اگرانہیں نہ چھوڑا توتمہاری وردیاں اتروادوں گی۔ عدالت نے اس معاملے پر افسوس کا اظہار کیا۔۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایسے شرمناک واقعے پہ، عدالت کو چیف ٹریفک افسر کو سخت شرمسار کرنے(کیونکہ ایسے لوگ ایسی بات پہ پانی میں ڈوب مرنے کی بجائے فخر کرتے ہیں) کے ساتھ ساتھ کوئی چھوٹی موٹی سزا دینی چاہئیے تھی۔(یہ بھی پاکستان کے حالات کی وجہ سے کہہ رہا ہوں ورنہ ایسے آفیسر سے اسکا عہدہ واپس لے لیا جانا چاھئے) یا مذکورہ ٹریفک وارڈنز کو کو کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ میں تبادلہ کردینا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان میں بیوروکریسی مافیا ان نوجوانوں کو چین سے نہیں رہنے دی گی۔ بہت سے لوگوں کو عدالت نے بحال کیا مگر پھر وہ کیا ہوئے ۔ کسے علم ۔؟
جو لوگ (ٹریفک چیف افسر) اپنے عہدے کا لحاظ اور شرم کئیے بغیر عدالت کے سامنے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔ ایک سچے آدمی کو جھوٹا قرار دینے اور ان کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے نوکری سے برخاست کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کیا اعتبار کہ کل کو پھر کوئی ان وارڈنز پہ اوچھا وار کردیں جس سے آئیندہ کوئی عدالت ان بت بھی نہ سننا چاہے۔ پھر کیا ہوگا-
عدالت کو اپنے فیصلے میں کوئی ایسا میکینزم واضح کرنا چاہئیے تھا جس سے ان نوجوانوں سے مستقبل میں انتقامی کاروائی کے دروازے بند ہوجاتے ۔