ماحول انسان کے ذہن پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان کے لئے حقیقت کو سمجھنا ہی محال ہو جاتا ہے ۔ کل میں نے اسی حوالے لکھا تھا ۔ تشریح نہ کی کہ میں اسلام آباد گيا ہوا تھا ۔ وہاں بھتیجے کا کمپیوٹر استعمال کیا جس میں اُردو نہیں تھی
ماضی کی تلخیوں کو بھُلانا دینا چاہیئے مگر ان سے سبق ضرور حاصل کرناچاہیئے
حال میں رہنے کا مطلب ہے کہ نہ تو یہ سوچا جائے کہ بڑے آدمی کی اولاد چھوٹا کام نہ کرے اور نہ یہ کہ چھوٹے آدمی کی اولاد بڑا کام نہیں کر سکتی ۔ نہ مستقبل کے لئے خیالی پلاؤ پکائے جائیں بلکہ حال میں مستقبل کیلئے جد و جہد کی جائے
اجمل صاحب، امید ہے آپ خیریت سے واپس لاہور پہنچ گئے ہوںگے۔
جی اب کچھ بات واضع ہو رہی ہے، بہت شکریہ۔ میںاس طور کچھ سوچ رہا ہوں، جلد ہی آپ سے رابطہ کروںگا، اگر اجازت دیںتو آپ کی ای میل پر آپ سے رابطہ کر لوں؟ اجازت ہو تو براہ مہربانی میرے ای میل پر ایک پیغام ارسال کر دیں۔ کچھ الجھنیں ہیں، اگر ان میں رہنمائی فرما دیں گے تو نوازش ہو گی۔
عمر احمد بنگش بھائی!
ابھی مجھے کچھ کام نمٹانے ہیں انشاءاللہ بعد میں آپ کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرونگا ۔ وقتی طور پہ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ۔ حال میں کئیے گئے چھوٹے بڑے اقدام کل لو آپ کا مستقبل در پیش آنے پہ آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچائیں گے ۔ اور عین اس وقت آپکے روشن یا خداہ نخواستہ سیاہ ماضی کا حوالہ بنیں گے ۔ ماضی ایک ایسی چیز ہے جس میں پیچیدگیوں کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ یہ پیچدگیاں اسوقت ہونی ہی نہیں چاھئیں تھیں ۔ کی ہی نہیں جانی چاھئے تھیں جب آپ اور ہم اس ماضی کو جب وہ ماضی نہیں بلکہ حال تھا ۔ اس میں وہ سب کچھ کر رہے تھے ۔ اس لئیے بھی حال پہ ھی ماضی اور مستقبل تعمیر ہوتے ہیں۔
آپ سوال کا جو حصہ اپنے بارے میں ہے وہ میں کل پرسوں غالبا افضل صاحب کے بلاگ میں لکھ چکا ہوں ۔۔ ۔جبکہ ایک مسلمان پہ اللہ سبحان و تعالٰی کے احکامات لازم اور عبادت یعنی نماز روزہ زکواۃ حج وغیرہ فرض تو ہیں ہی اور انہین ادا کرنے پہ قدرت رکھنے والوں کو اس سے مفر کسی صورت میں نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ان سب احکامات کے بجالانے کے باوجود انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک اسکی ہر بات، ہر کام، اسکا اٹھنا بیٹھنا مرنا جینا دو صورتوں میں تقسیم ہے ۔ ایک حلال دوسرا حرام۔ جس نے اپنے آپ کواپنی پوری زندگی حلال کی حدود میں رکھا وہی مسلمان کہلائے جانے کا اصل حقدار ہے ۔ اور جنہوں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی، ایک زرہ بھی حرام سے کشید کیا ہے۔ وہ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔۔۔
عمر بھائی ! جس نے حلال نہیں اپنایا اس کا حال اور مسقبل اور مستقبل پیش آنے پہ اس کا ماضی سبھی بے چین ہیں اور دنیاوی ترقی بھی نہیں ہوتی ۔ حلال سے مراد صرف حلال کمانا نہیں ہے بلکہ روز مرہ کے اعمال بھی اس میں شامل ہیں کہ آیا جو کچھ ہم کرتے، کھاتے، پیتے ، اور دوسروں سے برتاؤ اور سلوک روا رکھتے ہیں آیا وہ حلال کے ذمرے میں آتا ہے یا حرام کے زمرے میں ۔ اسی بات پہ بدحالی اور خوشحالی ۔ بے چینی اور سکون کی عمارت کھڑی ہے۔