منظرنامہ کے منتظمین کا شکریہ کہ مجھے چھ سات دہائيوں کا واپسی کا سفر طے کرنے کیلئے تھوڑا سا وقت عنائت کر دیا
مجھے اپنے بچپن کے دو واقعات یاد ہیں ۔ اس کے علاوہ میرے پہلی اور دوسری جماعت کے دو واقعات ہیں جو مجھ سے 7 سال بڑی میری پھوپھی زاد بہن نے بتائے
مارچ 1947ء میں فسادات شروع ہو گئے اور سکول بند ہو گئے ۔ ستمبر میں ہم بچوں کو حفاظت کی خاطر کسی کے ساتھ چھاؤنی بھیجا گیا نتیجہ اپنے بزرگوں سے جدائی بن گیا ۔ 18 دسمبر کو پاکستان پہنچنے پر باقی ماندہ بزرگوں سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے جنوری 1948ء میں خاص رعائت کے تحت امتحان لے کر سکول میں داخل کر دیا گیا ۔ مارچ 1948ء میں سالانہ امتحان ہوا ۔ سارا سال پڑھائی کی بجائے 10 ماہ خوف و دہشت اور 2 ماہ بے یقینی میں گذرے تھے ۔ نتیجہ نکلا تو ہماری جماعت کے طلباء کے نام پکار پکار کر کامیاب قرار دیا گیا ۔ آخر میں اعلان ہوا کہ افتخار اجمل جسے رعائتی طور پر داخل کیا گیا تھا وہ فیل ہے اور دوسرا افتخار اجمل اوّل آیا ہے ۔ افتخار اجمل فیل کا سن کر میرا دماغ بند ہو گیا تھا اسلئے شاید میں دوسرے افتخار اجمل کا سن نہ سکا ۔ میں بھاری قدموں سے گھر کو روانہ ہوا ۔ 2 کلو میٹر کا فاصلہ 20 کلو میٹر بن چکا تھا ۔ گھر پہنچ کر سب سے نظریں چُرا کر ایک کمرے میں گھُس گیا ۔ بیس تیس منٹ بعد ہمارے سکول کا ایک طالب علم ہمارے گھر آیا اور مبارک دے کر مٹھائی کا مطالبہ کیا تب گھر والوں نے مجھے ڈھونڈا ۔ میں پھُوٹ پڑا ۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ لڑکا بولا ”تم اوّل آئے ہو تو رو کیوں رہے ہو ؟“ میری جماعت میں ایک اور افتخار اجمل تھا جو فیل ہو گیا تھا
یہ 1946ء کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہم بچے مغرب کے بعد ایک کھیل میں مشغول تھے جس میں آدھے لڑکے چھُپتے ہیں اور باقی آدھے انہیں ڈھونڈتے ہیں ۔ جب ہماری ٹیم کی ڈھونڈنے کی باری آئی تو ہم بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے ۔ ہمارے ایک ساتھی نے بہانہ بنایا کہ اُس نے جِن دیکھا ہے اسلئے گھر چلنا چاہیئے ۔ میں چونکہ جھوٹ نہیں بوتا تھا اسلئے مجھے چُپ رہنے کا کہا گیا ۔ جب اس لڑکے نے دوسرے لڑکوں کو جِن کا بتایا تو انہوں نے میری طرف دیکھا ۔ میں چُپ رہا ۔ بلاتوقف اسی لڑکے نے کہا ”اجمل کو معلوم ہے جِن کیسا ہوتا ہے“۔ اس پر کئی لڑکوں نے کہا ”اجمل بتاؤ جِن کیسا ہوتا ہے ؟“ میں نے کہا ۔ ”میں نے سُنا ہے کہ اس کے لمبے دانت ہوتے ہیں اور آنکھیں جیسے آگ نکل رہی ہو“۔ سب لڑکے ڈر گئے اور گھر کی راہ لی
جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول سے گھر پہنچا تو میری متذکرہ پھوپھی زاد بہن نے میرے بستے کی تلاشی لی اور میری اُردو کی کاپی نکال کر کہنے لگی ”آج 10 میں سے 9 نمبر کیوں ؟“ میرا جواب تھا ”کرنا تھی برکت پر ہو گئی حرکت“۔ استاذ صاحب نے اِملا لکھائی تھی جب اُنہوں نے برکت بولا تو مجھ سے کافی دور تھے ۔ مجھے حرکت سمجھ آیا اور میں نے حرکت لکھ دیا جس پر ايک نمبر کٹ گیا
پہلی جماعت کا نتیجہ سُن کر میں مُنہ بسورے گھر پہنچا ۔ پوچھا گیا ”فیل ہو گئے ہو ؟“ میں نے کہا ”نہیں“۔ پھر پوچھا ”پاس ہو گئے ہو تو منہ کیوں بنایا ہوا ہے ؟“ میرا جواب تھا ”میں پاس نہیں ہوا“۔ پھر کہا گیا ”نہ فیل ہوئے نہ پاس ہوئے تو پھر کیا ہوا ؟“ میں نے جواب دیا ”فرسٹ آيا ہوں“۔
آپ کا تعلیم سے واسطہ کافی پرانا لگتا ہے۔
ساجد اقبال صاحب
میں خود بھی تو پرانا ہوں
آپ بچپن میں بھی کافی سمارٹ تھے
پاس ہونے نا فیل ہونے بلکہ فرسٹ آنے والی بات تو بہت معصومانہ ہے اور مزیدار بھی ۔
کنفیوز کامی: اور ماشاءاللہ ابھی بھی بہت سمارٹ ہیں ۔
کبھی آپ نے غور کیا کہ کچھ لوگوں کو بچپن سے ہی پڑھائی کا شوق کس طرح ہوتا ہے۔ ہم اب تک اس گتھی کو سلجھا نہیںسکے۔ ہم نے بھی بچپن عام بچوں میں گزارا ہے جو تعلیم سے بھی بہت دور بھاگتے تھے مگر ہمیں یاد ہے ہم نے دوسری جماعت میںہی والدین سے کہ دیا تھا کہ ہماری ٹیوشن کا بندوبست کریں کیونکہ ہمیںسکول میں کچھ سمجھ نہیںآتی تھی۔ یہی وہ لگن تھی جس نے ہمیں تعلیم یافتہ بنایا۔
افضل صاحب
اللہ کا بڑا کرم رہا کہ میں نے اپنے بچوں کو عام سکول کالجوں میں پڑھایا اور انہوں نے کہین ٹیوشن نہیں پڑھی نہ میں نے کبھی انہیں باقاعدہ پڑھایا ۔
فرسٹ آنے والی بات پسند آئی۔
اجمل صاحب یہ دو ناموں کا چکر واقعی بڑا انوکھا ہوتا ہے۔۔ ایک وقت میں ہمارے آفس کے چھوٹے سے اسٹاف میں پانچ کامران جمع ہوگئے تھے اور بڑی دلچسپ صورتحال ہوگئی تھی۔۔ جن والا واقعہ تو واقعی نرالا ہے۔
وہ لوگ جو پاکستان بننے کے دوران اس کے شاہد ہیں، ان کا بچپن واقعی یادگار مگر دردناک ہے۔ زلزلے سے متاثرہ اپنے شہر میںبھی بچوںکو کبھی کبھار سوچتا ہوںکہ کیسا دردناک بچپن ساری عمر یہ اپنے سینے اور زہنوںمیںلیے گھومتے رہیںگے۔ بلاشبہ صاحب یہ بڑا ہی جذباتی موضوع ہے۔ :|
لگتا ہے آپ سب ہفتہ بلاگستان منا رہے ہیں اس لیے میں نے بھی ڈہینگ پار دی ہے امید ہے آپ کو پسند آئے گی
السلام علیکم آپ کے پہلے مواقعہ سے مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد آ گیا
بلکل اسی طرح کا تھا صرف ایک ہی فرق تھا فیل اور اول کا
میری تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ جب پاس ہونے والوں کے نام لیے گے۔ اور ایک بچہ کا نام لیا گیا کہ خرم شبیر فیل ہو گیا ہے اور باقی سب پاس ہو گے ہیں
مجھے فیل ہونے کا افسوس نہیں ہوا کیونکہ میں تھا ہی نالائق ۔
لیکن اس بات کا افسوس ضرور ہوا کہ میرے نام کے ساتھ میرے والد صاحب کا نام بھی پکارا گیا ہے۔ میں نے اس دن کے بعد اپنے نام کے ساتھ والد صاحب کا نام نہیں لگایا
خیرم شبیر کی جگہ خرم شہزاد پکا کر دیا
یہی وجہ ہے کہ میرے باقی سب بھائیوں کو تو سب لوگ جانتے ہیں لیکن مجھے کم ہی کوئی جانتا ہے ابو جی کے حوالے سے
میں نے سوچا میں نالائق ہوں اس میں والد صاحب کا کیا قصور ہے سو ان کا نام الگ کر دیا
Pingback: منظرنامہ » ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں
Pingback: ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں | منظرنامہ