میرا مشاہدہ ہے کہ جدیدیت کے اس دور میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم کسے کہتے ہیں کیونکہ پڑھائی عام ہے اور تعلیم خال خال ۔ ہم 18 جولائی کو لاہور آئے ۔ جو مکان ہم نے کرایہ پر لیا ہے اس کے سامنے والے مکان میں جو صاحب رہتے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ کچھ دن بعد رات کو بجلی غائب تھی تو میں باہر کھُلی ہوا میں نکلا اتفاق سے وہ بھی باہر کھڑے تھے ۔ بات چیت کے دوران کہنے لگے “میرے بچے ایک اعلٰی معیار کے سکول میں پڑھتے ہیں ۔ پڑھائی اور لباس ٹھیک ہے تربیت کہیں نظر نہیں آتی”
میں وطنِ عزیز میں تعلیم کے حوالے سے صرف دو پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا لیکن پہلے اپنے پڑھائی کے طریقہ کار کا بالکل مختصر بیان ۔ میرا طریقہ دسویں جماعت تک یہ رہا کہ سکول کا کام [home task] وہیں فارغ وقت یا آدھی چھٹی [recess] کے دوران یا گرمیوں میں چھٹی کے بعد دھوپ ڈھلنے تک کسی درخت کے نیچے بيٹھ کر ختم کر لیتا ۔ گھر پہنچنے پر کھانا کھاتا پھر سودا سلف لاتا ۔ اس کے بعد ہاکی کھیلنے چلا جاتا ۔ واپس آ کر نہاتا اور تازہ دم ہو جاتا ۔ اگر کچھ کام رہ گیا ہوتا تو کر لیتا ورنہ بیٹھ کر اخبار یا رسالہ یا کوئی اور کتاب پڑھتا ۔ رات کا کھانا کھا کر عشاء کے فوراً بعد سو جاتا ۔ صبح فجر سے پہلے اُٹھ کر گھر سے دو کلو میٹر دور ايک دوست کے ساتھ جاتا ۔ وہاں سے پھلائی کی ٹہنی توڑ کر دونوں مسواک کرتے واپس لوٹتے ۔ گھر واپس آ کر نہاتا ۔ نماز پڑھتا اور جو سبق اس دن سکول میں پڑھنا ہوتا اس پر نظر ڈالتا ۔ اس کے بعد ناشتہ کر کے سکول روانہ ہو جاتا ۔ گیارہویں بارہویں میں اس معمول میں معمولی فرق پڑا لیکن انجنيئرنگ کالج میں تو سوائے پڑھائی کے اور کچھ نہ تھا ۔ راتوں کو جاگ کر پڑھنا معمول بن گیا کیوں کہ دن کا وقت بہت کم تھا
ایک پہلو
ہمارے سکول کالج کے زمانہ میں تعلیمی اداروں کا ماحول کچھ مختلف تھا ۔ اساتذہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دلی لگاؤ محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ سکول ۔ کالج وغیرہ سے فارغ ہو کر جب بھی میں نے مُڑ کر دیکھا مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں اس طرح تعلیم دی جیسے کہ ہم اُن کے اپنے پیارے بچے تھے ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئر بننے تک جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے ہمارے اساتذہ کبھی کبھی وقت بچا کر ہمیں ایک اچھا انسان یعنی حق پر چلنے والا ہمدرد انسان بننے کی ترغیب دیتے اور اس کا عملی طریقہ بھی سمجھاتے ۔ ہم پر اپنے اساتذہ کی باتوں کا بہت اثر ہوتا ۔ شریر سے شریر طالب علم بھی اساتذہ کا احترام کرتا ۔ اگر استاذ کسی کی سرزنش کرتا تو وہ اسے اپنی بہتری سمجھ کر قبول کرتا ۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے غلط سزا کی شکائت کی
ہمارے بعد ایک دور آیا کہ بچے کی سرزنش سکول میں ہوئی تو والد صاحب استاذ سے بدلا چکانے سکول پہنچ گئے یا سکول سے گھر جاتے ہوئے لفنگوں سے ان کو سزا دِلوا دی ۔ دورِ حاضر میں تو استاذ کو شاگرد کا خادم تصور کیا جاتا ہے سو کسی استاذ کی مجال نہیں کہ کسی کے بچے کو بُری نظر سے دیکھ سکے
دوسرا پہلو
ہمارے زمانہ میں اکثر سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ براہِ راست مقرر کردہ کتابوں سے نہیں پڑھاتے تھے بلکہ نصاب [syllabus] کے مطابق پڑھاتے تھے اور ہدائت کرتےتھے کہ کتابیں خود پڑھیں ۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اور کتابوں کے نام لکھوا دیتے کہ پانچ سات یا دس لڑکے مل کر خرید لیں اور باری باری پڑھیں ۔ اساتذہ کبھی خلاصہ [notes] نہیں لکھواتے تھے ۔ اس کی بجائے ہدائت کرتے کہ اچھی طرح پڑھ کر خود خلاصہ [notes] تیار کریں اور اگر چاہیں تو فارغ وقت میں مجھے [استاذ کو] دکھا دیں ۔ اگر استاذ سے اشارہ [guess] مانگتے کہ امتحان میں کیا آئے گا تو یا ڈانٹ پڑ جاتی یا کہا جاتا “جو تم نے نہ پڑھا وہی امتحان میں آئے گا”۔ اُس زمانہ میں سکول یا کالج کے داخلی [internal] امتحان کیلئے کوئی چھٹی نہ ہوتی تھی اور بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان کیلئے دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی تھیں ۔ ہر امتحان میں 7 میں سے 5 یا 8 میں سے 6 سوال کرنا ہوتے تھے اور ہر سوال کے ایک سے 4 جزو ہوتے تھے جبکہ ہر جزو ایک مکمل سوال ہوتا تھا
سنا تھا کچھ سال قبل تک 10 میں سے 5 سوال کرنا ہوتے تھے [اب کا مجھے معلوم نہیں]۔ پورے نصاب کی تیاری بہت کم طلباء کرتے تھے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ امتحان میں تمام سوالات پڑھائی گئی کتابوں میں سے آتے ہیں ۔ اور چونکہ 10 میں سے 5 کی رعائت کے باعث اکثر تعلیمی اداروں میں پورا نصاب نہیں پڑھایا جاتا اسلئے نصاب سے باہر [out of course] کا شور مچتا رہتا ہے
يہی وجہ ہے کہ عِلم جسے ماضی میں بڑی دولت کہا جاتا تھا اب اس کی بجائے اسناد کی تعداد دولت بن گئی ہے ۔ جو طالب علم اپنے طور محنت کر کے عِلم حاصل کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ بن جائیں ان کی ہمارے ہاں کوئی قدر نہیں کچھ لوگ انہیں بیوقوف یا پاگل کا خطاب دیتے ہیں
اسی وجہ سے تعلیم اب انحطاط کا شکار ہے۔ ہمیں تعلیمی نظام کے دوہرے پن سے ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ اگر آپ امیر ہیں تو اچھے سکول میں اور اگر غریب تو عام سے سکول میں یہ سراسر زیادتی ہے ان بچوں کیساتھ جو ذہین ہونے کے باجود وہ کچھ نہیں بن پاتے جو بننا چاہتے ہیں۔
پرچے میں چوائس بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے ایک تو نصاب سے باہر کا شور مچتا ہے دوسری جانب استاد بھی مختلف سوالوں کے مختلف نمبر دیتا ہے جبکہ ان کا معیار ایک ہی ہو۔ آسان الفاظ میں سبجیکٹیویٹی بڑھ جاتی ہے۔
اسلام، مساوات، برابری، انصاف کے نعرے لگاتے لگاتے ہمارے سرپنچوں کے گلے بیٹھ جاتے ہیں
پھر انہی بیٹھے ہوئے گلوں کے ساتھ وہ ہمارے گلوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
جس دن تعلیم نظام میں ہی برابری آگئی تو ہماری قسمت بدل جائے گی۔۔۔ لیکن
ایں خیال است و محال است و جنوں
تعلیمی نظام کی مشکلات بڑا المیہ ہے، میں خود ایسی مشکلات کا شکار ہوا، کمپوٹر سائنس میں گریجویشن کے لیے لاہور گیا تو دیکھا ، ادارے تعلیم نہیں دے رہے، کاروبار کر رہے ہیں،
اب صرف فیسین بڑھ رھی ھیں معیارِ تعلیم نہیں
میری بڑی خالہ کی تعلیم مڈل تک ھے مگر ان کی انگلش گرائمر مجھ سے اچھی ھے
میری پھوپھو ایک انگلش میڈیم اسکول پڑھاتی تھیں ایک لڑکے کو ڈانٹا شام کو اس کی مدر کا فون آیا کیا ھم اتنی فیسیں اس لیے دیتے ھین کہ ھمارے بچوں کو کسی عام بچے کے طرح ڈانٹا جائے – ان باتوں سے بچے کے دل میں کیا یہ خیال پیدا نہیں ھوگا وہ پیسے والا ھے اور اسے سب کرنے کا حق ھے کوئ اس سے بازپرس نہیں کر سکتا
جب ماں باپ ٹیچرز کو اپنا ملازم سمجھیں گے تو بچے کیا احترام کریں گے
سعدیہ سحر صاحبہ
اللہ کا شکر ہے کہ آپ کی پھوپھی صاحبہ کو صرف فون ہی کیا گیا
کیا آپ بتا سکتی ہیں اُستاذ کی عزت ختم کرنے ۔ تعلیم میں طبقات بنانے اور تعلیم کو کاروبار بنانے میں کون سے حکمران شامل ہیں ؟
بھائی اجمل صاحب
آپ نے لکھا تو مختصر ھے مگر بات کھول دی ھے
اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی مڈل اور ہائی کلاسیں یاد کرا دی ھیں
حضرت علی رضی اللہ تعالے کا قول کھا جاتا ھے کہ جس سے ایک لفظ بھی سیکھا جائے اس کی عزت استاذ کی طرح کرنی چاہئے
میرے ایک دوست اور ھم جماعت ایک دماغی کینسر کے لیے اپریشن کرانے کسی ھسپتال میں داخل ھوئے تو بتا رھے تھے ڈاکٹروں نے صرف اس لئے ان کی تعظیم کی اور خاص خیال رکھا کہ وہ ھیڈ ماسٹر تھے تعریف کرتے تھے
استاد کہاں جناب اب تنخواہ پر پرھانے والے کہیں ۔
میں ذاتی طور پہ بچوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے یا جیسے ہمارے ہاں اسے فخریہ کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے جسمانی سزا دینے یا تھپڑ ، طمانچہ مارنے کے سخت خلاف ہوں۔ اور اسے ایک ایسا جرم تصور کرتا ہوں جو ایک طاقتور شخص ایک معصوم اور کمزور بچے سے محض اپنا غصہ رفع کرنے لے لئیے کرتا ہے۔جس سے بچے کی ذہنی استعداد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے بچے کے ذہن پہ خوف مسلط ہوجاتا ہے جو بعض اوقات آگے چل کر اس کی شخصیت میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دیتا ہے۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ بچے بچپن میں کسی بڑے کے تششدد کا یوں شکار ہوئے ہوں، وہ بچے بڑے ہو کر بظاہر نارمل نظر آتے ہیں مگر متشدد طبعیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اور کسی معمولی سے واقعہ سے انکا متشدد رویہ عود کر آتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہوں گا۔ کہ جو اساتذہ فرض کی لگن پہ توجہ دیتے ہیں یا بچے کو کوشش کر کے محبت اور توجہ سے پڑھاتے ہیں انھیں انکے شاگرد بڑے ہو کر بھی کبھی نہیں بھولتے۔ اور ان کے دلوں میں اپنے اساتذہ اکرام کا احترام ہمیشہ رہتا ہے۔
یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی نظام کی عدم موجودگی۔تعلیم کے لئے بجٹ میں نہ ہونے کے برابر رقم مختصص کرنا۔ اساتذۃ کی معمولی تنخواہیں اور عدم سہولتیں۔ اور سیاسی مصحلتوں کے تحت بھرتی کئیے گئے نااہل یا کم اہل اساتذہ ۔ اور کچھ دیگر معمولی عوامل وہ وجہات ہیں جس وجہ سے پاکستان میں تعلیمی انقلاب نہیں آسکا اور اگر تعلیمی انقلاب آجائے تو زندگی کے ہر شعبے میں ایک درست انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
جب سے دنیا دنیا ہے کوئی ایک قوم ایسی نہیں بتائی جاسکتی۔ جس کی مچال دی جاسکے ۔ جس نے تعلیم کے بغیر ترقی کی ہو۔ خواہ اسکا تعلق عصری لحاظ سے کسی بھی دور سے ہو۔
استاد تو انکل اب بھی مل ہی جاتے ہیں لیکن مواقع بہت کم ہو گئے ہیں
جاوید گوندل صاحب
میں نہ صرف بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف ہوں بلک ڈانٹ ڈپٹ کے بھی خلاف ہوں لیکن بعض اوقت ہلکی سزا لازم ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں سکولوں میں جو جسمانی سزا دی جاتی تھی عام طور پر اس کی وجہ متعلقہ بچے کے گھر کا ماحول ہوتی تھی ۔ جس بچے کو گھر میں ہر بات تھپڑوں کے ساتھ سمجھائی گئی ہو وہ سکول میں پیار سے بات کیسے سمجھے گا ؟
میں نے چھوٹے بچوں کو فی سبیل اللہ اور بڑوں کو کالجوں میں پڑھایا ہے اور کسی بچے کی پٹائی تو درکنار کبھی کسی کو ڈانٹا بھی نہ تھا کالج میں کچھ لڑکے ایسے تھے کہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ ان میں سوائے ایک کے باقی مالدار باپوں کی اولاد تھے ۔ ایک دن پرنسپل صاحب نے انہیں اُدھم مچاتے ديکھ لیا اور سارا دن بنچ پر کھڑا رکھنے کے بعد ان کا کالج سے داخلہ معطل کر دیا ۔ پہلے تو سفارشیں آئیں ۔ جب بات نہ بنی تو وہ طلباء معافی مانگنے پر تیار ہوئے
Pingback: منظرنامہ » ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں
Pingback: ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں | منظرنامہ