ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے ۔ حالِ چمن پھر کیا ہو گا
سینیٹ سیکریٹریٹ نے 1973ء کے آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارت قانون پر عائد کردی ہے۔ ان غیر آئینی نسخوں میں اقتدار سے بے دخل کئے جانیوالے آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے
سینیٹ سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نے واضح کیا ہے کہ ارکان سینیٹ کو آئین کی جو کاپیاں مہیا کی گئی ہیں وہ ہو بہو وہی ہیں جو وزارت قانون نے اپریل 2008ء میں تقسیم کی تھیں اور اُس وقت سینیٹ کے موجودہ چیئرمین فاروق نائیک وزیر قانون تھے ۔ اگرچہ سینیٹ سیکریٹریٹ کی وضاحت آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے پر ایک طرح سے معذرت کا اظہار ہے لیکن اس سے ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ حکومت نے کس طرح سینیٹ سیکریٹریٹ تک آئین کی ایسی کاپیاں پہنچنے دیں جن میں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بغیر پرویز مشرف کے اقدامات کو توثیق دیدی گئی
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید گیلانی حکومت نے بھی کسی رسمی اعلان کے بغیر مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ مان لیا ہے ۔ اگرچہ آئین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آئین میں بگاڑ پیدا کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے لیکن موجودہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی شاید ممکنہ طور پر پرویز مشرف کے بینظیر بھٹو کے ساتھ این آر او سے متعلق معاہدے کا قرض ادا کیا جا رہا ہے
غیر آئینی نسخوں کی تقسیم ۔ بشکریہ جنگ
یہ والے الیکشن چیف جسٹس جو مشرف نے لگائے تھے ان کے انڈر ہوے تھے سو جو جو پارٹی اس الیکشن میں آئی اور جیت گئی تو اب ان پر تو ایک طرح سے فرض ہی ہوا نا کہ مشرف جی کے کاموں کو پروٹیکشن دی جائے ۔
ویسے زرداری پارٹی نے بہت زور لگایا تھا کہ پورانے چیف بحال نا ہو ۔۔ پر جو بھی ہوا عوام کے حالات تو بحالی کے بعد خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔۔ کاربن ٹیکس لگا دیا گیا ہے ، کیا پہلے کم ٹیکس تھا پٹرول پر ! ۔۔ چیف صاحب کو پوچھنا چاہیے تھا جبکہ چیف صاحب نے حکمرانوں کو بس حضرت عمر کی سیرت پر چلنے کی تلقین کر دی ۔
اللہ خیر کرے
ریحان صاحب
جج صرف فیصلہ کرتا ہے ۔ فیصلے پر عملدرآمد حکومت کا کام ہوتا ہے
سیاست سے قطع نظرمیرا ذاتی خیال ہےکہ مشرف نے قانونی طورپرایسا کوئی خلا نہیں چھوڑا ہے کہ اس کوقانون کے کٹھیرے میں لایا جاسکتا ، اگریہ ممکن ہوتا تو قانون سے پنگا لینےمیں وہ کب کا اندر ہوتا۔ لہذا میرا خیال ہے کہ اگردوبڑے (جسٹس اورڈاکٹرقدیر) جیسے سفرراس کو درگزرکررہے ہیں تو ذرداری کوبھی استثنا دے دینا چائیے۔
ہمیں اس حکومت سےاپنےمثائل کا حل چائیے، بجلی، پانی، گیس، امن و امان اورروزگارچاہئے۔ ایسا حکمران چاہئے جو خود بھی ایک وقت بھوکا رہ کرجان سکے کہ بھوک کیسی ہوتی ہے۔
اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب ہمیں میچیورہوجاناچائیے تاکہ آئندہ کے لیے جمھوریت کی راہ ہموار کرسکیں، باربار پنگے لینا عقلمندی نہیں کہلاتا۔
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے ۔ حالِ چمن پھر کیا ہو گا
کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔