“سیکولر ہندوستان ایک ایسا شجر سایہ دار ہو گا جس میں ہندو کو اپنے مذہب کے مطابق اپنے بتوں کی پرستش اور اپنے طرز زندگی پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنی مساجد اور عبادت گاہوں میں اپنے دین پر چلنے کی آزادی ہوگی اور میرے جیسے ”منکر خدا“ کو بھی اپنا عقیدہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہوگا”
یہ غیر منقسم ہندوستان کے مشہور کمیونسٹ لیڈر ڈاکٹر محمد اشرف صاحب کی تقریر کا اقتباس ہے جو اُنہوں نے 1940ء کے عشرے میں نمک منڈی چوک پشاور میں منعقدہ جمعیت علماء ہند کے جلسہ میں کی تھی
اسٹیج سیکرٹری میرے ماموں اور خسر مولانا محمد لطف اللہ صاحب تھے مجھے خود میرے ماموں جان نے بتایا کہ “میرا تو سُن کر خون کھولنے لگا لیکن مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نے جو ان دنوں جمعیت علماء ہند کے صدر تھے اور جلسے کی صدارت فرما رہے تھے مجھے سختی سے مداخلت کرنے سے منع کیا کیونکہ ان دنوں برطانوی استعمار سے آزادی ہی اصل مقصود تھا اور برطانوی استعمار کے ہر مخالف کو گلے لگانا جمعیت علمائے ہند کی پالیسی تھی”
میرے والد محترم 1930 کے عشرے کے آخر اور 1940 کے عشرے کے آغاز میں جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ کی فکر سے وابستہ ہوا تو میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ “ابا جان آپ لوگ مسلم لیگ کے مقابلے میں ہندو کانگریس سے کیسے وابستہ ہوگئے تھے” ۔ میرے والد گرامی نے اپنا موقف بیان کیا کہ “دراصل ہم یہ سمجھتے تھے کہ اصل مقابلہ امت مسلمہ اور برطانوی استعمار کا ہے ۔ برطانوی استعمار نے امت مسلمہ سے عالمی قیادت چھینی ہے خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ کر کے عالم اسلام کو ٹکڑیوں میں تقسیم کیا ہے ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر عربوں کو بھی کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مشرق و مغرب میں مسلمان ممالک پر استعماری گرفت مضبوط کر کے ان کے نظام تعلیم اور نظام قانون کو تبدیل کردیا ہے اور تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کو مغربی رنگ میں رنگی ہوئی لیڈر شپ کی قیادت میں دے دیا ہے ۔ یا ان پر اپنے دست نگر بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو مسلط کر دیا ہے اس لئے مسلمانوں کا اصل مسئلہ برطانوی استعمار سے آزادی ہے اور برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کو عالمی سطح پر لیڈر شپ کا مقام واپس مل جائے گا ۔ ہمارے پیش نظر صرف ہندوستان نہیں تھا جس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی بلکہ پورا عالم اسلام تھا جو کرہٴ ارض کے ایک چوتھائی حصہ میں پھیلا ہوا تھا اور جو اپنے وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے قوموں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہے”
میرے والد گرامی ایک مخلص اور عبادت گزار عالم دین تھے لیکن جس طرح جمعیت علمائے ہند نے اپنے تشخص کو ختم کر کے اپنی تنظیم کو انڈین نیشنل کانگریس میں ضم کر دیا اس سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو اتفاق نہیں تھا ۔ وطن کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے قرآن و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اتفاق نہیں کیا اور “مسئلہ قومیت” نامی کتاب لکھ کر واضح کیا کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد عقیدہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے وطن یا زبان نہیں ہے
علامہ اقبال نے اپنی فارسی کتاب مثنوی اسرار و رموز میں مسلمان فرد اور مسلم قوم کی حقیقت واضح کی اور وطن کو قومیت کی بنیاد ماننے سے انکار کیا ۔ انہوں نے اپنی اردو شاعری میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
علامہ اقبال نے اس موضوع پر اتنی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے اور جو لوگ علامہ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ سیکولرزم یا وطنیت کو پاکستانی قومیت کی بنیاد تسلیم کریں ۔ برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کو تسلیم نہیں کیا اور اسی وجہ سے علماء ہند کی قیادت سے نکل کر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت قبول کر لی
پاکستان میں 62 سال بعد اب کچھ لوگ نظریہ پاکستان سے انکار کر رہے ہیں اور اس کے لئے قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جو انہوں نے ایک خاص پس منظر میں پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو تسلی دینے کی خاطر کی تھی کہ ان کی جان، مال اور آبرو پاکستان میں اسی طرح محفوظ ہو گی جس طرح مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو اورا نہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ اس ایک تقریر کو بنیاد بنا کر برصغیر ہند وپاک کے مسلمانوں کی اس عظیم الشان جدوجہد کی نفی نہیں کی جا سکتی جو انہوں نے پاکستان کی صورت میں پورے عالم اسلام کو ایک مرکز کے گرد جمع کرنے کے لئے کی تھی اور جس کی خاطر انہوں نے قائد اعظم کو قائد اعظم بنایا
مسلمانوں نے صرف اس بنا پر قائد اعظم کی قیادت قبول کی کہ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وطن کی بنیاد پر قومیت کا سیکولر نظریہ مسترد کر کے اسلامی قومیت اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ایک ریاست کے قیام کا بیڑا اٹھایا ۔ قومیت کے اس اسلامی تصور کی بنیاد پر میری طرح کے بہت سے نوجوان جمعیت علمائے ہند کے اکابر کے گھرانوں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے حلقہ بگوش بنے
پاکستان بننے کے بعد دستور اسلامی کا مطالبہ پاکستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا ۔ دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اور سردار عبدالرب نشتر اس کے سرگرم موئیدین میں سے تھے جبکہ مولانا مودودی نے اسمبلی کے باہر اس کے لئے آواز اٹھائی ۔ یہ مطالبہ بر وقت تھا اور اس کو اتنی عوامی تائید حاصل تھی کہ اس کا مسترد کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھا اس مطالبے کے نتیجے میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد پاس کی اگر قرار داد مقاصد کو اس تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے جو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کی تائید میں کی تھی تو دستور کی اساس کے طورپر اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے
پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی اکثریت کو بھی اس قرار داد کو دستور سے نکالنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست کی وہ بنیاد ہے جو پاکستان کی گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی امانت ہے جو لوگ قرار داد مقاصد کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل اس بنیاد کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں جس پر یہ ملک قائم ہے
اس وقت جب کہ علاقائی اور لسانی بنیادوں پر پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کو تقویت مل رہی ہے اور جب کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم کا پرچار کر رہی ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بنیادی رشتے کو مضبوط کر دیا جائے جس کی وجہ سے ہم ایک پاکستانی قوم میں ڈھل سکتے ہیں قرار داد مقاصد میں پارلیمنٹ کو اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی [Sovereignty] ا ور قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ملک میں پھیلی ہوئی موجودہ بے چینی کو طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ قرار داد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات پر صدق دل کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے جو لوگ ان نازک حالات میں جن سے ملک گزر رہا ہے قرار داد مقاصد کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہ ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو ملک میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر اس کا تیاپانچہ کرنا چاہتی ہیں
تحریر ۔ قاضی حسین احمد ۔ بشکریہ جنگ
جناب اپنے ڈاکٹر قدیر صاحب بھی کالم لکھتے ہیں انکو بھی جگہ دیں
کامران صاحب
آپ نے مجھے ایک بہت پرانا فقرہ یاد کرا دیا مصطفٰے قریشی کا
نواں آیاں اے سوہنیا
میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مضامین بہت پہلے شائع کر چکا ہوں