جو اچھائی دوسرے میں نظر آتی ہے وہ دراصل اپنے اندر ہوتی ہے
جو غلطی دوسرے میں نظر آتی ہے وہ اپنے اندر ہو تی ہے
جو کام دوسرے کیلئے ممکن محسوس ہوتا ہے وہ اپنے لئے بھی ممکن ہے
دوسرے کی بات غور سے سننے والے کی باتیں دوسرے بھی سمجھنے لگتے ہیں
ظاہر ہے کہ کسی چیز کو پہچاننے کیلئے اس کا جاننا ضروری ہے
دنیا ايک آئینہ ہے جو ہر شخص کو اس کی حقیقت دکھاتا ہے
جو دنیا کو بہتر بنانے کی تمنا رکھتا ہے اُس کیلئے لازم ہے کہ پہلے خود کو بہتر کرے
انسانی فطرت میں کمینگی کا جو عنصر ہے
اس پر کیسے قابو پایا جائے؟
اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیں۔۔۔
جعفر بھائی!
کمینے آدمی کو سو جوتے لگا کر۔
(اگر بس میں ہو تو۔)
واہ جاوید بھائی کیا بات ہے