شام کو کھانا کھا کر اور دیگر فرائض سے فارغ ہو کر جب میں بستر پر دراز ہوتا ہوں تو کبھی کبھی نیند کی بجائے میں دُور ماضی کی پھُلواڑی میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ایک ایسی ہی رات میں اپنے اساتذہ کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا جنہوں نے مجھے انسان بنایا ۔ آب وہ سب راہی مُلکِ عدم ہو چکے ہیں
میرے پرائمری جماعتوں کے اساتذہ مجھے اُردو کے ہدائت حسین ۔ حساب کے بھگوان داس اور انگریزی کی مسز گُپتا یاد آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اُستاذ ہدائت حسین نے کس طرح پہلے میری کاپی پر خود لکھ کر اور پھر مجھ سے لکھوا کر مجھے پہلی جماعت میں اُردو لکھنا سکھائی تھی ۔ اُستاذ بھگوان داس ہر بچے کی کاپی دیکھ کر اُسے اُس کی غلطی سمجھاتے اور اگر سوال ٹھیک حل کیا ہوتا تو شاباش دیتے ۔ مسز گپتا ہر بچے سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے اُن کا اپنا اور لاڈلا بچہ ہو ۔ وہ ہمیں انگریزی کی اچھی اچھی نظمیں بھی سُناتيں
چھٹی اور ساتویں جماعتوں کے اُستاذ ہدائت حسین [یہ مُختلف ہیں] جنہوں نے ہمیں حساب اور الجبرا پڑھایا ۔ ان کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اُنہیں مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ کوئی واقعہ ہو جائے اور حقیقت معلوم نہ ہو رہی ہو تو مجھے بلا کر پوچھتے کہ کیا ہوا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سچ بولنے میں بہت دلیر ہو گیا
آٹھویں جماعت میں انگریزی کے اُستاذ نذیر احمد قریشی اور ریاضی کے اُمید علی اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ میں نے درُست انگریزی لکھنے میں جو مہارت حاصل کی وہ اُستاذ نذیر حسین قریشی صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ وہ میٹرک یا ایف اے پاس تھے مگر انگریزی میں اُنہوں نے ہمیں بی اے کے برابر کر دیا ۔ سارا سال بشمول گرمیوں کی چھٹیوں کے اُنہوں نے ہمیں ایک گھنٹہ روزانہ بغیر کسی معاوضہ کے فالتو پڑھایا ۔ ہمارا روزانہ امتحان لیتے ۔ ایک بار میرے 10 میں سے 9 نمبر آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈے ہاتھ پر ڈنڈا مارا ۔ میرا ہاتھ سُوج گیا ۔ میں نے کبھی مار نہ کھائی تھی اس لئے درد کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا ۔ میں آواز کے ساتھ کبھی نہیں رویا ۔ اس وقت بھی میں منہ چھپا کر آنسو بہاتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم کون سے ہم جماعت شام کو اُستاذ کے گھر گئے اور میرے ساتھ زیادتی کی شکائت کی ۔ دوسرے دن اُستاذ میرے پاس آئے ۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا اور کچھ بولے بغير ایک دم دوسری طرف منہ کر کے چل دیئے ۔ بعد میں ہم جماعتوں نے بتایا کہ اُستاذ کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ کچھ دن بعد اُستاذ نے ساری جماعت کے سامنے کہا “آپ سب مجھے اسی طرح پیارے ہیں جیسے میرے اپنے بچے ہیں ۔ اجمل ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتا ہے ۔ اُس نے 10 میں سے 9 نمبر لئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا تھا ۔ میں اپنے بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہوں”۔ اُستاذ اُمید علی نے ایک ایک لڑکے کو اس طرح کر دیا کہ آٹھویں جماعت کا پورا ریاضی کا کورس وہ از بر جانتا تھا ۔ اُستاذ اللہ بخش صاحب نے مجھے ڈرائينگ کرنے کا گُر سکھا ديا
نویں اور دسویں جماعتوں میں انگریزی کے اُستاذ ظہور احمد ۔ سائنس کے شیخ ہدائت اللہ اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ سب ہی اعلٰی اور محنت سے پڑھانے والے ہمدرد انسان تھے ۔ انہوں نے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں بھي ایک ایک ماہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ پڑھایا
گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں انگریزی کے وی کے مَل ۔ ریاضی کے خواجہ مسعود اور کیمسٹری کے نسیم اللہ ۔ انجنیئرنگ کالج کے بزرگ اکمل حسین [ایک اکمل بعد میں بھی تھے] ۔ عنائت علی قریشی ۔ مختار حسین اور عبدالرحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشید ۔ احمد حسن قریشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ اکرام اللہ ۔ محمد سلیم الدين ۔ منیر ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کر تھے اور ہمیں بڑی محنت سے پڑھايا
اساتذہ اور بھی بہت تھے جنہوں نے ہمیں پڑھایا ۔ میں اُں کا احترام کرتا ہوں لیکن ذکر صرف اُن کا کیا ہے جن کا کردار غیرمعمولی تھا ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئرنگ کالج تک کے ہمارے اِن اساتذہ نے پڑھائی کے علاوہ ہمیں معاشرتی تربيت بھی دی اور ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں ہماری رہنمائی کی
آپ کی اس تحریر نے میری بھی بہت سی یادیں تازہ کر دیں اجمل صاحب، اچھے اساتذہ واقعی کسی بھی فرد کو انسان بنا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے اساتذہ کی مغفرت فرمائیں اور انہیں جوارِرحمت میں جگہ دیں۔
افتخار صاحب ۔۔۔ استاد کسی بھی قوم کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اتنے اچھے استادوں کے ہوتے ہوئے (جن کا آپ نے بھی ذکر کیا اور میری یادیں بھی کچھ اسی قسم کی ہیں) ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں مبتلا ہیں؟
کچھ اس پر بھی لکھئے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟
کمال ہے کہ آپکو اپنے اساتذہ کے نام تک یاد ہیں، میں تو سب بھول بھال گیا ہوں۔
جعفر صاحب
میں اخلاقی پہلو پر وقتاً فوقتاً لکھتا رہتا ہوں ۔
جعفر صاحب کی درخواستا پر ضرور غور کیجیے گا۔ ہمارے خیال میں زمانہ بہت تیزی سے بدلا ہے۔ اچھے استادوں نے جن کی تربیت کی وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور بعد میںآنے والے اساتذہ معاشی مجبوریوں کا شکار ہو گئے جن کی بدولت قوم بھی پیٹ پوجا کے چکروں میں اخلاقیات سے کنارہ کشی کر بیٹھی۔
فیصل صاحب
میں کبھی اُس شخص کو نہیں بھولا جس نے میری مدد کی ہو
افضل صاحب
یوں کہیئے کہ بعد میں آنے والوں نے اپنے اخراجات بڑھا لئے اور پھر پيسے کے چکر میں پڑ گئے ۔ ویسے اس خرابی میں حکومت اور والدین کے غلط طرزِ عمل نے بڑا کردار ادا کیا
بهت اچھا موضوع چنا ہے
استادوں کی تعریف هونی چاھیے اور معاشرے میں ان کو پرموٹ کیا جانا چاھیے
کتابوں میں لکھا ہے که قدیم یونان کے زوال کی وجوھات میں ایک یه بھی تھی که انهوں نے استاد کو نیچ سمجھنا شروع کردیا تھا
مجھے اپنےاستادوں کے رویے اور باتیں اتی هیں
همارا گھر سکول کے پڑوس میں هے ، اس لیے اب بھی کوئی استاد رئٹائر منٹ کے بعد بھی کسی کام سے سکول ائے تو ،میرا ضرور پوچھتے هیں ـ
بڑی خوشی هوتی هے
جناب انسان تو انسان ہی پیدا ہوتا ہے بھر اس کو انسان بنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ انسان بنانے سے پہلے ارشاد فرمایا گیا ۔
خاور صاحب
آپ نے بہت اچھی بات کہی ۔ میرا یقین ہے کہ جس نے اساتذا اور والدین کا احترام نہ کیا اُس نے کبھی عزت نہیں پائی
مسٹر کنفیوز
یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ پیدا تو انسان ہوتا ہے اور بن جاتا ہے جانور ۔ کبھی گدھا ۔ کبھی لومڑ ۔ کبھی بھیڑیا
پرانے استاد تو واقعی استاد تھے۔ اس وقت کا پانچ پڑا ہوا اب کے میڑک سے اچھا ہے۔
اللہ آپ کے اساتذہ کی مغفرت فرمائے۔
اب تو ہمارا تعلیمی نظام ایک بزنس کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ویسے بھی عوام سمجھتی ہے جو زیادہ فیس لیتا ہے وہ سب سے اچھا پڑھاتا ہے۔ اب نہ تو استاد اپنے پیشے سے منسلک ہے اور نہ ہی حکومت اس شعبے میں کوئی نمایاں کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال گورمنٹ اسکول کی ابتر حالت ہے، اور پرائیویٹ اسکولوں کے فالتو اخراجات ۔ ۔ ۔
شکاری صاحب
اس ابتری کی ايک وجہ والدین اور خود طالب علم بھی ہیں
کچھ جلاد صفت استاد جن سے شاگر ساری زندگی نفرت اور ملامت کرتے ہیں ۔
مسٹر کنفیوز
جلّاد صفت اُستاذ بہت کم تھے ۔ اور جو تھے وہ بھی اپنے کسی فائدے کے لئے پٹائی نہیں کرتے تھے ۔ کچھ طالب علم ہوتے ہی “لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے” کے مصداق تھے