وفاقی حکومت کا 28 برسوں میں کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی ،واپڈا ملازمین کی تنخواہوں،سڑکوں کی تعمیر پر 80 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ بنتا نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے بجلی کا بحران حکومتی کوششوں کے باوجود آئندہ 5 برس تک کم نہیں ہوگا۔وفاقی حکومت نے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ25 پیسے فی یونٹ کی لاگت سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی لاگت 10 برس قبل200 ارب روپے لگائی گئی تھی جو سیاست کی نذر ہو کر اب 550 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت اگلے 6 برسوں میں دریائے سندھ کے 90 ملین کیوبک فٹ پانی پر قبضہ کرنے کے لئے کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو دریائے سندھ کے 80 فیصد پانی کو سٹور کر لے گا۔کیونکہ بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیاں گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کر چکی ہیں تاکہ سندھ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں کمی نہ آئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے سندھ کی فصل خریف اور ربیع کو بہت فائدہ پہنچے گا فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا
سوال یہ ہے کہ جب حکمران کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو وہ کسی کی نہیں سنتے
مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ لال مسجد آپریشن ۔۔۔
تو کالاباغ ڈیم پر ہی کیوں ان کو قومی اتفاق رائے چاہئے۔۔۔؟؟؟؟؟
جعفر صاحب
کیا آپ جانتے ہیں کہ کس نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے سب سے پہلے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تھی ؟
ذوالفقار علی بھٹو
افتخار صاحب! گو کہ میں کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت میں ہوں لیکن معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقتاً صورتحال یہ ہے کہ کوٹری ڈاؤن اسٹریم تو چھوڑیے سکھر بیراج سے نیچے دریائے سندھ نالے کی صورت اختیار کر چکا ہے اور جو پانی ہے وہ سکھر بیراج سے اوپر کے علاقوں میں ہی وافر مقدار میں موجود ہے۔ دریائے سندھ کا ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے کیونکہ پانی ڈيلٹائی علاقے تک پہنچ ہی نہیں رہا۔ سمندر آگے بڑھتا آ رہا ہے اور قابل کاشت زمین کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ کو قائل کرنا کافی مشکل نظر آتا ہے اور اگر کوئی حکومت پھر بھی کالا باغ ڈیم بنانے پر مصر ہے اور اس پر عمل کر گزرتی ہے تو یہ سندھی قوم پرستی کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کے مترادف ہوگا اور اس کا سراسر فائدہ قوم پرست سیاست کو ہوگا۔ ایک بڑے ڈیم کے بجائے بہت سارے چھوٹے چھوٹے ڈیم مسئلے کا بہتر حل ہو سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو بحال کرنے کی ضرورت ہے فی الوقت تمام صوبے اپنے مسائل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔
ابوشامل صاحب
پچھلے دس سالوں میں سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے جس نہج پر پہنچا دیا ہے اب کسی بڑے ڈیم کا نام لینا حماقت سے کم نہیں کیونکہ اس کیلئے پانی کہاں سے آئے گا ۔ میں 19 اپریل 2009ء کواس سلسلہ میں لکھ چکا ہوں ۔ ديکھیئےاُس تحریر کا آخری بند
https://theajmals.com/blog/2009/04/%da%af%da%be%da%91%db%8c-%d9%86%db%81-%db%81%d9%88-%d8%aa%d9%88-%d8%a8%da%86%d8%aa-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%db%81%d9%88-%d8%9f/#comments
“بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیاں گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کر چکی ہیں۔”
جس طرح ماضی میں، چراہگاہوں کے لئیے دنیا کے بڑے قبائل کے الحاق وجود میں آئے۔ اور نئی چراہگاہوں کے حصول
کے لئیے بڑے بڑے قبائل نے کئی مما لک پہ قبضے کئے ۔ ماضی قریب میں بہت سی جنگیں توانائی کے ذرائع کے حصول کے لئیے لڑی گئیں۔ اب دنیا بھر کے عسکری ماہرین اس بات پہ پہ متفق ہیں ۔ کہ آئیندہ اکثر جنگوں کی کی بنیاد میٹھے پانی اور خاصکر دریاؤں کے پانی پہ اختیار کی بنیاد پہ ہوں گی۔
ہماری قومی سیکورٹی ایک عرصے سے سیاست یا علاقائی سیاستدانوں کی نظر ہو رہی ہے ۔ ذاتی سیاسی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے کا جو عمل لیاقت علی کے دور سے شروع ہوا تھا ۔ اب اس نے ایک عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے (پاکستان میں فوج کو بھی ایک سیاسی گروپ تصور کیا جائے) کہ سیاسی مفاد کو قومی سیکورٹی پہ بھی ترجیج دی جارہی ہے۔ڈیم کی تعمیر سے قطع نظر میں ایک ایسے امر کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتاہوں۔ جس کا علم ہماری ایجیسیوں کو شروع سے ہے۔ مگر اس کا کوئی توڑ پچھلی نصف صد ی سے نہیں کیا گیا۔ پاکستان بننے پہ جو سندھی ھندؤ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے ۔ وہ سندھی ھندؤ پاکستان بنے سے پہلے اندرون سندھ میں بہت بڑی بڑی زمینداریوں ،اور کاروبار پہ قابض تھے۔ مسلمان ان کے مقروض تھے۔ و ہ ہندؤ سندھ کی سیاست پہ بہت عمل دخل رکھتے تھے ۔ اور در حقیقت وہ کسی راجوں کی سی زندگی گزارتے تھے ۔
ھندؤں کا ایک عقیدہ ہے کہ چندا (چاند) زمین کا ٹکڑا ہے اور ایک دن زمین سے آن ملے گا۔ اس عقیدے کے پس منظر کو بنیاد بنا کر وہ سندھ کو ایک دن بھارت سے ملانا چاہتے ہیں۔ بھارت نے انہیں کمال چابکدستی سے پاکستان کے خلاف متحد کیا ہے ۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ سندھ سے نکالے گئے ھندوؤ پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں لابنگ کرتے ہیں ۔ اور عام ھندؤ سے ذیادہ پاکستان سے متعصب ہیں ۔ ساری دنیا میں پھیلی ھندؤ سندھی برادری ( جو زیادہ تر کاروبار سے منسلک ہیں) نے پاکستان کے خلاف ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے جس فنڈ کا مقصد پاکستان میں اور خصوصا سندھ میں انتشار کو اس حد تک ھوا دینا ہے کہ سندھ دھرتی بھارت ماتا دھرتی سے آن ملے۔
پاکستان اپنی ذہین افرادی قوت۔ رقبے۔ اور جوہری طاقت ہونے کی وجہ سے مناسب استحکام ہونے کی وجہ سے اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں آسکتاہے اور دنیا کی چند ایک بڑی قوموں میں شامل ہوسکتا ہے ۔
پاکستان میں سرحد اور بلوچستان کارڈ کھیلنے اور ناکام ہونے کے بعد اگلا مرحلہ سندھ میں انتشار اور تقسیم ہے۔ خواہ اس کی بنیاد کالاباغ ڈیم ہو یا کوئی اور ایشو۔ اس لئیے امریکہ بھار ت اور طفیلیوں (اسرائیل اور افغانستان وغیرہ ) کی منصوبہ بندی اور کوشش یہ ہے (جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔) کہ مسلم دنیا اور خاصکر پاکستان میں بہانے بہانے سے انتشار پھیلتا رہے اور قوم یکسُو ہو کر اپنی ترقی کی کوئی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔ کیونکہ کسی قوم کی ترقی کے لئیے استحکام اور قومی اتفاق رائے ویکسوئی ترقی کی منصوبہ بندی کے لئیے پہلی شرط ہے۔
یہ معاملہ بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیوں کے گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کرنے سے بڑھ کر ہے ۔ جس کا سدباب کرنا بہت ضروری ہے۔
معلوم نہیں، ابو شامل کو اس گرانٹ میں سے کتنے پیسے ملے۔ میں تو حلفیہ قسم کھانے کو تیار ہوں کہ کسی نے مجھے ایک پائ بھی نہیں دی۔ سارے خود ہی ہڑپ کر لئے۔
پاکستان میں پانی کے مسائل کے سلسلے میں پبلک ریڈیو انٹرنیشنل پر ایک رپورٹ سنائی گئی جسے یہاں سنا اور پڑھا جاسکتا ہے۔
http://www.theworld.org/node/25692
ہماری سیاست تو ملک توڑنے سے شروع ہوتی ہے اور ملک توڑنے پر ختم وہاں کالا باغ ڈیم کا بننا تو اب قریب قریب نا ممکن ہو چلا ہے۔
اینٹ کا جواب پتھر ہے ہمارے پاس اب طاقت ور میڈیا پاور ہے ان ایجنسیوں کا توڑ کیا جا سکتا ہے اگر ہم مخلص ہوں ۔
ڈاکٹر عنیقہ ناز صاحبہ
بی بی ۔ ہمیں اور آپ کو کیا ملے گا ؟ ہم لوگ عوام کہے جاتے ہیں جن کو نچوڑنا وڈیروں کا کام ہے ۔
دعا ہے کہ عوام کو عقل آ جائے اور وڈیروں کی خاطر آپس میں جھگڑنے کی بجائے متحد ہو کر قوم و مُلک کیلئے کام کرنے لگ جائیں ۔ ابھی کام ٹکڑیوں میں بٹا ہے جو رائیگاں جا رہا ہے
راشد کامران صاحب
پرويز مشرف نے جو کام ممکن بنایا وہ بھارت شاید کبھی نہ کر سکتا ۔ پاکستان کے سب دریا نالے کی طرح بہہ رہے ہیں
دوسرا بڑا مسئلہ بددیانت سیاستدان اور وڈیرے ہیں جو دریاؤں کا پانی چوری کرتے ہیں ۔ قائداعظم نے جموں کشمیر کو پاکستان کی شہرگ ایسے ہی نہیں کہا تھا ۔ وہ بہت دُور اندیش تھے
مسٹر کنفیوز
یہ ذرائع ابلاغ جو مال دے اس کے مرید ہیں ۔ یہ درست ہو جائیں تو بہتری آ سکتی ہے