اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون
لاہور ميں دورِ حاضر کے تین عالِمِ دين تھے جنہيں میں جانتا ہوں اور جن کا سياست سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک جنہیں پچھلی حکومت کے دور میں شہید کیا گیا تھا
آج لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں مسجد جامعہ نعیمیہ میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مُہتمم اعلیٰ مولوی ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی صاحب مسجد سے ملحق اپنے دفتر میں حسبِ معمول لوگوں سے مل رہے تھے کہ ایک خودکش حملہ آور نے اُن کے دفتر میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے
شہید ہونے والوں میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے معتمد ڈاکٹر خلیل بھی شامل ہیں ۔ ان دو سميت چار افراد شہید اورآٹھ افراد زخمی ہوگئے
کيا يہ خود کُش حملہ آور مُسلمان ہیں ؟
نہیں نہیں نہیں ۔ ہو ہی نہیں سکتا
یہ طالبان کے بھیس میں غيرمُلکی ايجنٹوں کے سوا کچھ نہیں
اب حکومت کو چاہیئے کہ کم از کم ڈاکڑ اسرار احمد کی حفاظت کی معقول بندوبست کرے
اللہ تعالٰی انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔
ہے کوئی جو وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک سے یہ سوال کرے ۔ قوم کی اندورنی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری ملکے کے وزیرداخلہ ہونے کی صورت میں، آپ پہ آتی ہے جس میں آپ (رحمٰن ملک) مکمل طور پہ ناکام رہے ہیں۔ آپ میں وہ مطلوبہ اہلیت نہیں ہے جو اس عہدے کے حامل فرد سےایسے حالات تقاضا کرتے ہیں۔ آپ استعفٰی دیں تا کہ کسی اہل آدمی کو یہ موقع دیا جائے۔کہ وہ عوام کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کو ہر ممکنہ حد تک یقینی بنایا جاسکے۔ وزیر اعظم اور صدر ذرداری کی خالی خولی مذمت سے پاکستانی عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
طوفان ِ نوح کے وقت اللہ تعالٰی نے حضرت نوح علیۃ والسلام کو فرمایا کہ تمہارا بیٹا تمہارا اہل نہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہلیت رشتوں کی بنیاد پہ نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد پہ ہوتی ہے- این آر او کے تحت پاکستان کے بادشاہ بننے والوں کی جو اہلیت ہے وہ سب پہ عیاں ہے۔ پھر بھی منافقت کی انتہا ہے ۔ مسلمان ہر طرف مر رہے ہیں شہید ہو رہے ہیں اور این آر او کے مزے لوٹنے والے بادشاہ بننے کے بعد ملک کے اعلٰی ترین منصب پہ فائز ہونے کے بعد سوائے مذمت کے کچھ نہیں کر پارہے ۔ امریکہ نے ان کے ھاتھ باندہ کے پاکستان بیجھا تھا۔
ہمیں ممبئی حملوں کے بعد بھارتی وزیر داخلہ کا وہ بنیان بھی ذہن میں رکھنا چاھئیے ۔ جس میں انہوں نے کہا تھا۔ کہ اب ہم (بھارتی ادارے) جو کریں گے وہ دنیا دیکھے گی۔
امریکہ کے نائن الیون کے بعد ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پاکستان کو بلقنائز کیا جارہا ہے جس میں امریکہ ۔انڈیا ۔اسرائیل اور افغانستان سب شامل ہیں۔ اور طرف تماشہ ہے کہ ہم امریکہ کو ہی نہ صرف دوست گردنتے ہیں ۔ بلکہ امریکہ کا کلرک بھی پاکستان کے دورے پہ نکل پڑے تو حکومت کے ھاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔
اس افسوسناک واقعے پہ جتنا افسوس کیا جائے ، کم ہے ۔اللہ تمام مسلمانوں کو صبر اور جراءت سے کام لینے کی توفیق دے اور پاکستانی حکومت امریکہ کے سامنے جراءت آمیز انداز اپنا سکے۔آمین
اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون
اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری مایوسی میں ایک اور اضافہ
جاوید صاحب شائد بات ایک مخصوص حد تک دہرانا ضروری سمجھتے ہیں
ورنہ وہ کیسے بھول سکتے ہیں یہ عقیدہ کی جنگ ہے۔ کافروں کو منافقوں اور مرتدوں کی امداد کی ہر بار ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس بار بھی کندھا ان ہی لوگوں نے دیا ہے جن کی پیدائش ہی غالبآ اسی مقصد کیلئے ہوئی تھی
رافضی عورتوں نے بھی کیا کوکھ پائی ہے ، انسان پیدا کریں نہ کریں میر جعفر اور میر صادق وافر تعداد میں پیدا کرتی رہیں گی
میں جب یہ جانتا ہوں کہ منافقوں کا ٹھکانہ جہنم میں سب سے بری جگہ میں ہوگا تو غم میں کمی محسوس کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے شکر کے کلمات نکلتے ہیں
رحمان ملک خراب داخلی صورتحال پر تب مستعفی ہوتے جب ان کی یہ ذمہ داری ہوتی۔ ان کی تو ذمہ داری اسلام آباد میں سفارت خانوں کے انکلوژرز تک ہے اور اسی کی انہیںتنخواہ ملتی ہے۔ اپنے مرتے ہیں تو مریں مگر کوئی غیر ملکی اور وہ بھی اپنے آقاؤں میںسے کوئی نہیںمرنا چاہیے۔
جب صدر فرماتا ہے امداد امداد تو اس کا کیا مطلب پیسہ دو عوام مارو اب ایک عام آدمی بھی ساری گیم سمجھ چکا ہے تو ہمارے حقمروان کیوں انجان بنے بیٹھے ہیں ۔کہاں گئی وزارت دلالیہ کہاں گئی ایجنسیاں سب بے بس کیوں ہیں کیا عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی پڑے گئی ۔
احمد صاحب
ہمارے حُکمران ایک گھناؤنی سازش میں شریک بن چُکے ہیں ۔ ہمای قوم و مُلک کو ٹھکانے لگانے کے صیہونی منصوبہ پر عمل درآمد جاری ہے ۔
ایک دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صورت میں جس میں ہمارے دُشمن کامیاب نظر آتے ہیں ۔
دوسرا فرقہ واریت کو ہوا دینے کی صورت میں جس میں ابھی تک ہمارے دُشمن کامیاب نہیں ہو سکے
ميں واضح کردينا چاہتا ہوں کہ میں شہید ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتا لیکن وہ عالِم تھے اسلئے میرے دل میں اُن کی بہت قدر و منزلت ہے
حُکمران تو خُود غرض ثابت ہو رہے ہیں ۔ اللہ عوام کو عقلِ سليم عطا کرے کہ وہ متحد ہو کر جد و جہد کریں اور اس ناپاک منصوبے کو خاک میں ملا دیں
آپکے آخری تنصرے پر صاد کرتے ہوئے میں اپنی ایک تحریر کا حوالہ دینا چاہوں گا جو کہ میں نے گزشتہ ماہ ہی لکھی تھی:
http://achoota.blogspot.com/2009/05/blog-post_09.html
فرقہ واریت کا یہ جِن ایک مرتبہ نکل آیا تو پھر ہر گلی کوچے میں لڑائی ہوگی۔ ہم ایک دُوجے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ہماری وحدت میں موجود دراڑیں نمایاں ہو کر کھائیوں کی شکل اختیار لیں گی۔
اللہ نہ کرے ایسا ہو، مگر ہمارے اعمال کی بنا ٕ پر ہونی کو کون روک سکتا ہے؟ ؟
جاوید گوندل صاحب
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے
مسٹر کنفیوز
آپ نے سُنا نہیں ۔ چور اُچکا چوہدری تے لُنڈی رَن پردان
منیر عباسی صاحب
میرا خيال ہے میں نے آپ کی وہ تحریر پڑھی تھی ۔ یہ فتنہ دو دہائیاں قبل بھی اُٹھایا گیا تھا ۔ اُس دور میں بھی کوئی غيرملکی قوت ملوث تھی اور اور اب بھی ہے
مُحترم اجمل انکل جي
السلامُ عليکُم
اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون
مجھے يُوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے
انکل جی آپ کی اِس بات کے بعد اور کيا کہُوں کہ لگتا ہے اِلفاظ ختم ہو گۓ ہيں اللہ تعاليٰ سب کو اپنی امان ميں رکّھے،آمين اور ہميں آنے والے دُکھوں سے محفُوظ رکّھے مُجھے ابھی تک ڈاکٹر غُلام مُرتضيٰ کی شہادت نہيں بُھولتی جو ايسے ہی حالات ميں ہُوئ تھی اب دُشمنِ دين ہمارے مُفتيوں اور عالموں تک پہنچ گۓ ہيں کُچھ سمجھ ميں نہيں آرہی
دُعاگو
شاہدہ اکرم صاحبہ
عِلم والوں کا قتل قوم کی بدقسمتی ہوتا ہے لیکن ہماری قوم کو نجانے کب سمجھ آئے گی