میکالے نے فارسی کو قتل کیا اور ہماری خواندہ آبادی راتوں رات اَن پڑھ قرار دے دی گئی ۔ اُس وقت مدرسے بقا کی جنگ نہ لڑتے تو جانے ہمارا کیا حال ہوتا ۔ تنقید کرنا آسان ہے اور نَکٹائی کی گِرہ ٹھیک کرکے ، ناک سکوڑ کر باریش نوجوانوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا چنداں مشکل نہیں ۔ لیکن جو جنگ مدارس نے لڑی ہے وہ ایک طویل جنگ تھی ۔ انہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور سفید چمڑی والوں اور اُن کے گندمی رنگ کے حواریوں کی بہت باتیں سننا پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے اور تقسیم ہند تک اپنا کردار نبھاتے آئے
وہ جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں کیا وہ ہمارے ہی لخت ہائے جگر نہیں؟ کیا وہ ہماری آنکھوں کی پتلیاں نہیں؟ کیا وہ پرائے ہیں اور ہمارے صرف وہ ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب ازبر کر رہے ہیں؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ یہ باریش نوجوان ہمارے اپنے ہیں ۔ ہمارے جسم کا حصہ ہیں ۔ ہمار ے دِلوں کے ٹکڑے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں ۔
اِن باريش جوانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے حقوق انہیں دئیے جا رہے ہیں؟ … ان کا پہلا حق… سب سے بڑا حق… یہ ہے کہ اِنہیں وہ تعلیم دی جائے جو انہیں آج کی دنیا میں کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دے اور انہیں بیچ میدان میں کھڑا ہونا پڑے تو ان میں سے ہر شخص احمد دیدات سے کم نہ ثابت ہو
مغلوں کے زمانے میں اور اس سے پہلے بھی مدارس کا نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین تھا ۔ سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں ملتان کے دو بھائیوں [شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ] نے اپنے زمانے کے جدید علوم… منطق ، ریاضی ، ادب فلسفہ اور ہیئت کو مدارس کے نصاب میں داخل کيا ۔ اورنگ زیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کروایا تو مُلا قطب الدین سہالوی نے اس میں بہت کام کیا۔ اُن کے قتل کے بعد اُن کے بیٹے مُلا نظام الدین نے لکھنؤ میں طلبہ کیلئے جو نصاب مرتب کیا… وہی آج درس نظامی کہلاتا ہے ۔ انہوں نے یہ نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین بنایا تھا اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کا سرکاری ملازمتوں میں وہی مقام و مرتبہ تھا ۔ جو آج کل سی ایس ایس کا ہے ۔ منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، تاریخ ، طب اور ہندسہ [انجینئرنگ] اس نصاب کا اہم حصہ تھا ۔ کل 79 کتابیں تھیں
ملا نظام الدین نے 1748ء میں وفات پائی۔ 261 سال ہو گئے ہیں کہ درس نظامی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرسٹر ظفر اللہ خاں نے جنہوں نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور اس سے بھی پہلے درس نظامی کے کنویں سے پانی پیا‘ ایک کتاب تصنیف کی۔ ’’اور زمانے کا خواب‘‘ اگر مالی استطاعت ہوتی تو ہر مدرسے کے ہر طالب علم اور ہر استاد کو اس کتاب کا ایک ایک نسخہ فراہم کرتا۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان دل سوزی سے بتاتے ہیں کہ ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے جو درس نظامی میں پڑھائی جا رہی ہے۔ علم البلاغہ میں تلخیص المفتاح پڑھائی جا رہی ہے جو سات سو سال پہلے لکھی گئی ۔ عربی ادب میں مقامات [حریری اور ہمدانی] پڑھائے جاتے ہیں اور شاعری میں سبع معلقات‘ حماسہ اور متنبی! یہ سب کلاسیکی ادب ہے جدید کا تو ذکر ہی کیا ۔ متوسطین کی تخلیقات بھی نہیں پڑھائی جا رہیں۔ یہ ایسے ہی ہے۔ جیسے اردو ادب کے طلبہ کو ولی دکنی اور میر کے بعد کوئی اور شاعر کو نہ پڑھایا جائے۔
یہ اقتباس ہے اظہار الحق صاحب کے معلوماتی مضمون “مدارس ہمارے قلعے ہیں” سے جس میں وہ تاريخی حقائق مُختصر بیان کئے گئے ہیں جن سے دورِ حاضر کے پڑھے لکھوں کی اکثریت واقف نہیں ۔ بشکریہ ۔ نوائے وقت