میں نے ڈائری کے سلسلے میں اپنے جموں سے سرینگر جس سفر کا ذکر کیا تھا وہ حادثاتی طور پر میرے لئے بہت دلچسپ بن گیا تھا مجھے شیروں کے ساتھ کھیلنے نہ دیا گیا ۔ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرتے ؟ معلوم نہ ہو سکا ۔ بہر حال وہ میرا ایک یادگار سفر ہے
ہمیں 1946ء میں سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ۔ ہمارے والدین فلسطین میں تھے میں اور میری دونوں بہنیں جو مجھ سے بڑی ہیں چھٹیاں شروع ہونے پر اپنی پھوپھی اور دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک دن صبح سویرے گھر سے نکلے اور ٹانگے پر بیٹھ کر بس کے اڈا پر پہنچ گئے ۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی بس روانہ ہوئی ۔ بس میں کُل 6 سواریاں بیٹھنے کی اور پیچھے سامان رکھنے کی جگہ تھی ۔ میں کچھ تنگی محسوس کر رہا تھا ۔ پوچھ کر پیچھے سامان کے اُوپر چڑھ کے کبھی بیٹھتا اور کبھی لیٹتا رہا ۔ سورج چڑھنے کے بعد ہم اُودھم پور پہنچے ۔ وہاں پُوڑے بن رہے تھے سب نے گرم گرم پُوڑوں سے ناشتہ کیا ۔ ہم لوگ آجکل والی انگریزی چائے نہیں پیتے تھے ۔ نمکین چائے جسے آجکل کشمیری چائے کہتے ہیں یا قہوہ جسے آجکل چائنیز ٹی [Chinese Tea] کہتے ہیں پیتے تھے ۔ پوڑوں کے ساتھ سب نے قہوہ پیا
اُودھم پور سے بس روانہ ہوئی تو اُونچے پہاڑوں پر چڑھنے لگی ۔ بس پہاڑ کے ساتھ ایک سمت کو جاتی پھر گھوم کر واپس آتی پھر واپس اُدھر جاتی پھر اِدھر آتی ۔ اُوپر چڑھنے پر ہم جس سڑک سے آئے تھے نیچے ایک رسی کی مانند دائیں بائیں بَل کھاتی نظر آنے لگی۔ بس کی رفتار اتنی تھی کہ کوئی شخص اس کے ساتھ بھاگ کر آگے نکل سکتا تھا ۔ ایک طرف سے پہاڑ پر چڑھ کر بس دوسری طرف اُترنا شروع ہو گئی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ عمل کتنی بار دوہرایا گیا
عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بس آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکی تھی کہ رام بن کے علاقہ میں دریائے چناب کا پُل گذر کر بس کوئی 20 میل آگے گئی تھی کہ کھڑی ہو گئی ۔ معلوم ہوا کہ بس کے پچھلے ایک پہیئے کی نابھ یا دھُرا [hub] ٹوٹ گیا ہے جو کہ جموں یا سرینگر سے لایا جائے گا ۔ مغرب کے وقت ڈرائیور گزرنے والی بس میں بیٹھ کر سرینگر چلا گیا بس میں باقی ایک مرد ۔ دو عورتیں اور ہم تین بچے رہ گئے ۔ قصہ کوتاہ بس وہاں دو راتیں اور ایک دن کھڑی رہی
جو کچھ ہمارے پاس تھا ہم نے پہلی رات کو کھا لیا ۔ رات کو سب بس میں بیٹھے اُونگ رہے تھے ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور بس سے باہر نکلنے کیلئے بے چین تھا ۔ آخر موقع پا کر بغیر آواز پیدا کئے بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ چاندنی رات تھی ۔ اُونچے اُونچے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ گہری وادی جس میں چناب دریا کا شفاف پانی بہہ رہا تھا ۔ خاموشی اتنی کہ بہتے پانی کا ارتعاش عجب موسیقی پیدا کر رہا تھا ۔ فضا انتہائی خوشگوار تھی ۔ پہلے میں ٹہلتے ہوئے بلند پہاڑوں پر غور کر کے لُطف اندوز ہوا پھر نیچے وادی اور اس میں بہتے پانی کا نظارہ کیا ۔ وادی بہت گہری تھی پھر بھی نیچے پانی تک جانے کی خواہش نے دل میں چُٹکی لی ۔ وادی میں اُترنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک مجھے نیچے پانی کے قریب کچھ نظر آیا ۔ یہ دو شیر تھے ۔ وہ مجھے اتنے خُوبصورت لگے کہ جی چاہا جلدی سے ان کے پاس جا کر اُن سے کھیلوں ۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے اُترنے کا عادی تھا مگر سڑک کے ساتھ ایکدم گہرائی ہونے کی وجہ سے نیچے اُترنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اچانک بڑی خاموشی کے ساتھ کوئی پیچھے سے مجھے دبوچ کر بس میں لے گیا ۔ وہ میری پھوپھی تھیں جنہوں نے نیند کھُلتے ہی مجھے ڈھونڈا اور بس سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اُن کی نظر شیروں پر پڑی تھی
دوسرے دن صبح سویرے ہی کھانے کی فکر ہوئی ۔ ایک رشتہ دار مرد جو ہمارے ساتھ تھے سڑک پر پیدل چلتے ہوئے گئے اور دو گھنٹے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں رام سُو سے ساگ ۔ گھی اور کچھ نمک مرچ وغیرہ لے آئے ۔ پتھروں کا چولہا بنایا ۔ اِدھر اُدھر سے سوکھی لکڑیاں چُن کر آگ چلائی گئی ۔ چاول ہمارے پاس تھے ۔ چاول اور ساگ پکائے گئے ۔ ہم نے وہ ساگ نہ پہلے کھایا تھا نہ بعد میں کبھی کھایا ۔ رات کو ڈرائیور نابھ لے کر پہنچ گیا ۔ ساتھ ایک مستری بھی لایا اور نابھ تبدیل کیا گیا ۔ اُس سڑک پر رات کو سفر نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسلئے اگلی صبح سرینگر روانہ ہوئے ۔ جب بس راستہ میں قاضی کُنڈ پہنچی تو مجھے چھوٹی چھوٹی پیاری سی ٹوکریوں میں خوبصورت چھوٹی چھوٹی ناشپاتیاں دکانوں پر نظر آئیں اور میں بھاگ کر ناشپاتیاں لے آیا اور سب نے کھائیں ۔ ناشپاتیاں خوبصورت اور بہت لذیذ تھیں
سرینگر میں ہم نے جہلم دریا میں مِیرا قدل [قدل پُل کو کہتے ہیں] کے قریب کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں قیام کیا ۔ اس میں دو کافی بڑے سونے کے کمرے دو غسلخانے اور بہت بڑا بیٹھنے اور کھانے کا کمرہ تھا ۔ اس بڑی کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی تھی جس میں باورچی خانہ اور نوکروں کے رہنے کا بندوبست تھا ۔ نوکر ہاؤس بوٹ والا ہی مہیا کرتا تھا ۔ سبزی پھل خریدنے کہیں نہیں جانا پڑتا تھا ۔ سبزی پھل اور مچھلی سب کچھ کشتیوں میں بیچنے آ جاتے تھے ۔ چھوٹی مچھلیاں لینا ہوں تو اسی وقت دریا میں جال ڈال کر پکڑ دیتے تھے
سرینگر میں ہم حضرت بَل ۔ نسیم باغ ۔ نشاط باغ اور جھیل ڈَل ۔ وغیرہ کی سیر کو گئے ۔ پھلوں کے باغات میں بھی گئے ۔ ایک باغ میں گلاس [Cherry] کے درخت تھے جو اس طرح لگائے گئے تھے کہ چاروں طرف سے بالکل سیدھی قطاروں میں تھے ۔ ان پر لگے گلاس بہت خُوبصورت منظر پیش کر رہے تھے ۔ گلاس دو قسم کے تھے ۔ مالی نے ہمیں دونوں چکھائے ۔ کالے بہت میٹھے تھے جبکہ سُرخ کچھ تُرش تھے ۔ ہم نے کالے والے ایک سیر خریدے جو اُس نے درخت سے اُتار کر دیئے ۔ ہم آلو بخارے ۔ بگو گوشے اور بادام کے باغات میں بھی گئے ۔ قریبی پہاڑوں پر گلمرگ ۔ ٹن مرگ ۔ کُلگام ۔ پہلگام ۔ وغیرہ بھی دیکھے ۔ وہاں بہت سردی تھی کئی جگہ برف پڑی ہوئی تھی ۔ ایک ماہ رہ کر ہم واپس جموں لوٹے ۔ ایک رات راستہ میں ہوٹل میں گذاری اور دوسرے دن گھر واپس پہنچے ۔ واپسی کا سفر بغیر کسی اہم واقعہ کے گذرا
پیارے ماموں جان،
آپ کا سفر نامہ پرہنے کے بعد میرے دل میں اک ارزو نے جنم لیا کہ کاش میں بھی آپ کا ھم سفر ھوتا- میں بھی 1946 میں آپ کا ھم عمر ھوتا، میں بھی اس چاندنی رات میں دریاے چناپ کی موسیقی سے لطف اندز ہوتا اور شیرؤں کے ساتھ دوستی کرتا، آخر میں بھی تو ارسلان (شیر) ھوں-
میں بھی میٹھےمیٹھے اور طرح طرح پھل کھاتا، میں بھی کشتی پر بنے گھر میں رھتا جس کے نیچے دریاے جھلم کا پانی بہتا تھا-
کاش، ۔۔۔
کاش کہ میں بھی ھوتا اس جنت کا ٹکرے پر-
کاش کہ نہ غداری کی ھوتی فرنگیوں نےاس خطے پر-
کاش کہ نہ قابض ھوتی بت پرستوں کی یہ فوج اس گلزار پر-
کاش آج بھی میں ھوتا تری آغوش میں-
کاش آج بھی میں سوتا تیری پھولوں کی سیج میں-
کاش آج بھی چڑھتی پروان میری نسلیں تیرے سایے میں-
کاش،کاش،اور پھرکاش۔۔۔
مامں جان اس سے پھلے میں نے اپنی پوری زندگی شاعری نھیں کی، مگر آپ کے سفرنامے نے دل کو اتنا متاثر کیا کہ خود با خود آمد کا سلسلہ جاری ھو گیا-
اللھ آپ کو برکتوں کے ساتہ لمبی عمر عطا فرماے – آمین۔
بہت اچھا سفرنامہ ہے۔
اچھا یہ بتائیں کہ : کیا شیر بھی خوبصورت یا ہینڈسم ہوتے ہیں؟
شعروں میں کچھ تبد یلی کے بعد:
کا ش کہ میں بھی ھوتا اس جنت کے ٹکرے پر-
کا ش کہ نہ غداری کی ھوتی فرنگیوں نےاس خطے پر-
کا ش کہ نہ قابض ھوتی بت پرستوں کی فوج اس گلزار پر-
تو آج بھی میں ھوتا تیری آغوش میں-
تو آج بھی میں سوتا تیری پھولوں کی سیج میں-
تو آج بھی چڑھتی پروان میری نسلیں تیرے سایے میں-
کاش،کاش،اور پھرکاش۔۔۔
حیدر آبادی صاحب
آپ کے حیدرآباد میں بھی شیر ہوا کرتے تھے ۔ ہو سکتا ہے سب بلی دان کی نذر ہو گئے ہوں ۔ بچپن میں دادا جان سے سُنا کرتا تھا حیدر آباد میں شکار کا وہ 1955ء مین فوت ہو گئے تھے ۔
جناب شیر ایک خوبصورت جانور ہے خاص کر جب وہ آزاد ہوتا ہے جنگل میں ۔ اور خیال کیجئے میری عمر اس واقعہ کے وقت نو سال سے کم تھی
دن۔ سہانے دن۔ بیتی یادیں۔ ہاتھ سے نکل اڑا بچپن۔
یہ تو پوری ایک سیریز ہونی چاہئے
ماشاءاللہ بہت حافظہ ہے آپ کا
میرا دماغ تو میرے بولتے بولتے بھول جاتا ہے کہ میں بات کیا کر رہا تھا
اجمل ساھاب، ےعھ باگوگوسھ کےا پھل ھای؟
دعا خان صاحب
میرا خیال ہے آپ نے بگو گوشے کا پوچھا ہے ۔ یہ مخروطی ناشپانی کی شکل کا ناشپاتی سے بڑا پھل ہوتا ہے جو بہت میٹھا اور رسیلا ہوتا ہے ۔ یہ صرف ریاست جموں کشمیر کے برفانی علاقوں میں پایا جاتا ہے