کسی قوم کی اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ اُس کے رہنما جھوٹ بولیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قوم کے افراد اُسے قبول کر لیں یا کم از کم اُس پر اعتراض نہ کریں
تازہ ترین مثال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نے 18 مئی 2009ء کو کُل جماعتی اجلاس بُلایا ۔ اُس میں جو متفقہ قراردار منظور کی گئی اس میں کہیں ذکر نہیں کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اُلٹا فوجی کاروائی پر اعتراضات کئے گئے ۔ لیکن اجلاس کے بعد وزیرِ اطلاعات نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ بیان دیا کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اسی پر بس نہیں ۔ صدر صاحب نے سمجھا کہ وہ اپنا حق ادا نہیں کر سکے اور انہوں نے 19 مئی کو بیان داغ دیا کہ پوری قوم فوجی کاروائی کی حمائت کرتی ہے
اللہ کی مہربانی تو ہر صورت ہے ہی ۔ اس کے بعد شاید میرے بزرگوں اور اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ جب سے مجھے یاد ہے سمجھ لیں 10 سال کی عمر سے جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ میرا اعتقاد ہے کہ جھوٹ کا بہت جلد عِلم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہے
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میری رائے:
انسان کی ایک صفت ہے (جو بعض اوقات خوبی جبکہ بعض اوقات خامی بن جاتی ہے) کہ وہ اسی چیز کو یاد رکھ پاتا جو اس کے سامنے بار بار دہرائی جاتی رہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں جہاں لوگوں کو جھوٹ سے روکنے والے اور اس کے نقصانات بتانے والے موجود ہوں، وہاں جھوٹ کی شرح عموماً کم ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سوا لاکھ کے لگ بھگ پیغمبر بھیجے۔ یہاں تک کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد بھی یہ ذمہ داری امت کو سونپ دی۔ چنانچہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کو نیکی کی ترغیب دیں اور برائی سے روکیں۔ اور جیسی ہمارے معاشرے کی حالت اب ہو چکی ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ ابتداء بالکل بنیادی چیزوں سے کرنی ہوگی۔ شاید تبھی صحیح معنوں میں اثر سامنے آئے گا۔ خاص طور پر بچوں کی تربیت اچھی طرح ہونی چاہیے کیونکہ بڑوں کے مقابلے میں وہ اچھی بات کو زیادہ آسانی سے قبول کرتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ جس کا میں اکثر مشاہدہ کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ لوگ دین کے متعلق علماء کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ بلکہ اہمیت تو کیا دینا لوگ علماء کی بات سنتے تک نہیں۔ حالانکہ تقریباً ہر مسجد میں باقاعدگی سے درس کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ عموماً لوگوں کی توجہ بھی مسجد کی طرف تبھی جاتی ہے جب کسی سلسلے میں کوئی احتجاج وغیرہ ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ مولوی نے مسجد کو سیاست کا گڑھ بنا دیا ہے۔ حالانکہ وہی مولوی جب سارا سال دین کی باتیں بتاتا ہے تو کسی کو اس کی آواز تک نہیں سنائی دیتی۔
میری رائے میں علمائے دین کی بے توقیری کی وجہ سے بھی ہم دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال کچھ یوں دوں گا کہ کسی شخص کو ملیریا ہو اور وہ کہے کہ ڈاکٹر تو سارے جاہل ہوتے ہیں، اور اپنا علاج خود شروع کر دے۔ باقی لوگ بھی اس کی حمایت کریں اور جب وہ کچھ دن بعد مر جائے تو کہیں کہ ڈاکٹر کی جہالت کی وجہ سے مرا ہے۔
اجمل صاحب۔۔۔ اسی موضوع سے متعلقہ ایک بات کہنا چاہتاہوں۔ محمود اچکزئی نے کل کسی پروگرام میں ایک بات کہی تھی کہ اگر فوج امریکہ کو قبائلی علاقے میں پھنسانا (انگیج کرنا کہا تھا انہوں نے) چاہتی ہے تو کم ازکم ہمیں بتائے تو سہی۔
میری ناقص عقل جہاں تک کام کرتی ہے، جتنا کنفیوزن پھیلایا جارہاہے تو اس ساری سموک سکرین کے پیچھے کھیل کچھ اور ہی چل رہا ہے ۔۔۔
کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں؟؟؟؟
جعفر صاحب
میں شکرگذار ہوں پیدا کرنے والے کا کہ کسی قاری کو میری بات سمجھ آئی ہے ۔ میں کتنے عرصہ سے قارئین کو اس طرف لانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ ایک بار لکھ بھی چکا ہوں کہ شاید میرے ہموطنوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔
یہ سب ڈرامے ہو رہے ہیں ۔ ان ڈراموں کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کون ہیں ؟ یہ سمجھنے کی بات ہے ۔
کبھی آپ نے سوچا کہ نواز شریف کی پارٹی مرکزی حکومت میں شامل کیوں نہیں ہوتی ۔ صرف ایک وجہ ہے کہ اس طرح وہ بھی اس غیرملکی ڈرامے کا کردار بن جائے گی
محمد سعد صاحب
زبددست باتیں لکھ گئے آپ ۔
کیا واقعی؟ :grin:
قوم جھوٹ بولتی ہے تو جھوٹ برداشت بھی کرنا پڑے گا۔
نا کرے گی تو کس منہ سے؟
یہاں تو منی بیک گارنٹی کے ساتھ چیز لے آؤ تو ملٹی نیشنلز تک سروس دینے سے مکر جاتی ہیں فرد کی تو بات ہی کیا کی جائے؟