یہ پنجابی کا مقولہ ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر چور حکمران ہو تو جرائم پیشی کو فیصلے دینے پر لگا دیا جاتا ہے ۔ اب پڑھیئے حالِ وطن
اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کا ترلائی کا دفتر ہفتے کی صبح خلاف ورزی کرنے والے بااثر افراد کو نوٹس جاری کرنے کیلئے تیار تھا لیکن اسے اعلٰی حکام کی جانب سے ایسا کرنے سے روک دیا گیا ۔ اسکینڈل بے نقاب ہونے کے بعد اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چک شہزاد کے فارم ہاؤسز کو فراہم کئے گئے تمام کنکشنز کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے ایک ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جس شخص کو ٹیم کا سربراہ مقرر کیا گیا، وہ وہی شخص ہے جس سے اس بات کی تفتیش ہونی چاہیے کہ یہ سب کچھ اس کی ناک کے نیچے ہونے کی اجازت کیوں دی گئی۔ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مطابق متعلقہ ایس ای ٹیم کی قیادت کریگا۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ گھریلو صارفین کو زرعی ٹیرف دے کر غلط استعمال اور چک شہزاد میں بجلی کی چوری اسی ایس ای سیف اللہ جان، متعلقہ ایکس ای این رشید خٹک اور ایس ڈی او میاں جمیل کی نگرانی میں کئی برسوں سے جاری ہے۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے کسی با اختیار اور غیر جانبدار ٹیم کے تقرر کی بجائے وہ لوگ جن سے تفتیش کرنے کی ضرورت تھی ان کو اپنے جرائم کیلئے تفتیش کار، جج اور جیوری مقرر کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی و بجلی کے وزیر راجہ پرویز اشرف بھی ایک فارم ہاؤس کے مالک ہیں اور اس کا بہت زیادہ تجارتی استعمال ہوتا ہے جیسے شادی کی تقریبات کیلئے شادی ہال کرائے پر دینا۔ ذرائع نے کہا کہ اگر تمام فارم ہاؤسز کے کنکشن اور بلز کے ریکارڈ کی فزیکل سروے کے بعد چھان بین کی جائے تو یہ کہیں زیادہ بڑا اسکینڈل ہو سکتا ہے۔ تاہم اتھارٹیز معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ کسی خود مختار تفتیش کا مقصد نہ صرف ماضی کے بلکہ موجودہ حکومت کے بھی بااثر ترین افراد کو سزا دینا ہوگا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں فوج کی قیادت میں واپڈا نے بجلی چوری کرنے کیخلاف مہم شروع کی تھی اور جب کہنہ مشق سیاستدان عابدہ حسین پر بجلی چوری کا الزام عائد کیا گیا تھا تو یہ اخبارات کی سرخیاں بن گیا تھا۔
تحریر انصار عباسی ۔ بشکریہ ۔ جنگ
محترم۔۔۔ میرے خیال میں یہ محاورہ کچھ یوں ہے ”چور اچکا چوہدری تے غنڈی رن پردھان“
اور جناب بجلی کی چوری تو ٹپ آف دی آئس برگ ہے۔۔ آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کیا اور کیسے کیسے لوٹا جارہا ہے۔۔۔
جعفر صاحب
میں نے محاورہ درست لکھا ہے ۔ ویسے آپ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں
یہ لُنڈی نہیں غالباً غنڈی ہے۔
اجمل صاحب!
پاکستان کے ویرانوں میں ایک پودا پایا جاتا ہے ۔ جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں۔ جس کی نہ لکڑی ہوتی ہے ، نہ ایندھن کے طور پہ کام آسکتا ہے۔زمین کی خوشنمائی میں بھی اضافہ نہیں کرتا ہے۔ بلکہ دیکھنے میں کسی حد تک بد ہیبت ہے۔ نہ چارے کے طور پہ جانوروں کو کھلایا جاسکتا ہے ۔ حتٰی کے اس میں چرند پرند اپنا گھونسلہ یا آشایں تک بناے نسے گریز کرتے ہیں اور اسے پنجابی میں اَک کہتے ہیں۔
کوئی شخص تھا جو بہت ہی ڈھیٹ تھا اور ہمیشہ دوسروں کو لاجواب کر دیتا تھا۔ اور اسکی پیٹھ پہ اک کا پودا اُگ آیا۔ تو لوگوں نے سوچا کہ اب یہ ضرور پریشان ہوگا۔ اور اپنی اس پریشانی پہ ازراہ ترحم افسوس کرنے والوں کا ممنون ہوگا۔ مگر ان کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی ۔ جب اس نے جواباً ان سے کہا کہ اس میں پریشان ہونے کی ضرورت ہے ۔ اچھا ہے کہ میری پیٹھ پہ پودا اک اُگ آیا ہے میں تو اس کے سایے میں پیٹھا کروں گا۔
تو محترم اجمل صاحب! جو لوگ اس قدر ڈھیٹ ہوں کہ پیٹھ پہ اگے اک کے کسی حل کی بجائے محض اپنی بر تری دکھانے کی خاطر اکے کے سائے میں بیٹھنے کا کہیں۔ ان سے بہتری کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اک کی یہ فصل دن بدن پھیلتی جارہی ہے۔
جاوید گوندل صاحب
لفظ لُنڈی ہی ہے ۔ لُنڈی یا لُندا اسے کہتے ہیں جس میں کوئی اچھائی نہ ہو ۔ یا جس نے کوئی برائی کی ہو ۔ اصل مین پرانے زمانے میں جو عوت اچھی نہیں ہوتی تھی اس کے بال کاٹ دیتے تھے ۔ ایسی عورت کو لُنڈی کہا جاتا تھا ۔ پھر یہ استعارہ بن گیا ۔
اَک کو سمجھانے مین آپ کو بہت وقت ضائع کرنا پڑا ۔ آپ صرف اَک ہی لکھ دیتے تو میں سمجھ جاتا ۔ صرف یہی نہیں کہ اَک میں کوئی اچھائی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بُرائی ہوتی ہے ۔ اس کے پھول میں سے جو بیج نکتے ہیں ۔ ہر بیج پر لمبے باریک سفید بال ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ یہ اُڑ جاتے ہیں ۔ یہ بال کسی انسان یا جانور کی آنکھ میں پڑ جائیں تو آنکھ کی بیماری ہو جاتی ہے ۔ ۔بیج دور دور جا گرتے ہیں اور وہاں اَک اُگ جاتی ہے ۔ جہاں یہ اَک اُگے باقی پودے ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں
اک کے بارے میں تفضیل اس لئیے لکھی جوقارئین اکرام نہیں جانتے وہ بھی اس ضرب المثل کے پس منظر کو جان سکیں۔
عموماً تضیل اس لئیے لکھتا ہوں کہ سب لوگ جان سکیں۔ اور فٰض عام ہو۔