کوئی جو بھی لبادہ پہنا دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے حُکمرانوں نے اپنی ذاتی اغراض اور اپنے غیرمُلکی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے پہلے بلوچستان میں اور پھر صوبہ سرحد خانہ جنگی کو جنم دیا جو اب تک جاری ہے ۔ اس میں ہلاک ہونے والے کی اکثریت بے قصور عام شہریوں کی ہے ۔ امریکہ نے جو ڈرون حملے قبائلی علاقہ میں اب تک کئے ہیں ان میں درجن بھر انتہاء پسند اور 700 بے قصور شہری ہلاک ہوئے ہیں ۔ چند دن قبل شروع ہونے والی فوجی کاروائی کے نتیجہ میں 30 فوجی ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں سرکاری ذرائع کے مطابق 700 سے زائد شدت پسند ہلاک کر دیئے گئے ہیں ۔ 13 لاکھ سے زائد شہری اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے ہی وطن میں مہاجر اور بے یار و مددگار پناہ گزین ہو گئے ہیں ۔ سینکڑوں بچے لاوارث ہو گئے ہیں ۔ ابھی مزید کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ نہیں ۔
وہ نام نہاد سِول سوسائٹی کے لیڈر جو ہردم انسانی حقوق کا گیت گاتے تھے اور سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائی کروانے کیلئے تقریریں کرتے اور جلوس نکالتے تھے وہ کہاں گم ہو گئے ہیں ؟ 13 لاکھ بے قصور بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ مرد اور عورتیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی آفات میں مبتلا ہیں ۔ اُن میں بمشکل ایک لاکھ کو حکومت خیمے مہیا کر سکی ہے اور ان کی خوراک کا بندوبست عام شہری اور ایک دو کونسلر کر رہے ہیں مگر کوئی نام نہاد سِول سوسائٹی یا ڈالر کمانے والی این جی او وہاں نظر نہیں آتی
ہم کیا کرنا چاہ رہے ہیں اور ہمارا مقصد کیا ؟ اس کا جواب شاید آصف علی زرداری کے پاس بھی نہ ہو کیونکہ اسے اپنی غُربت دُور کرنے کے لئے اربوں ڈالروں کی اشد ضرورت ہے اور اس کیلئے وہ امریکہ کی سرتابی نہ کرنے پر مجبور ہے ۔ دوسری طرف ہموطنوں کی اکثریت دُشمنوں کے پروپیگنڈہ سے اتنی محسور ہو چکی ہے کہ اللہ اور رسول کے فرمان کی بجائے اخبار اور ٹی وی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ اب وہ قرآن کو بھی پاکستانی ٹی وی چینلز پر آنے والے نام نہاد روشن خیال عُلماء کی زبان سے سمجھتے ہیں قرآن کی اصلیت سے نہیں
ایک صدی قبل اُمت کے ایک غمخوار ۔ الطاف حسین حالی صاحب ۔ نے یہ نظم لکھی تھی اور میں نے آدھی صدی سے زیادہ قبل سکول کے زمانہ میں پڑھی تھی ۔ کتنی اَشَد ضرورت ہے آج اسے پڑھ کر صدق دِل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی فقط مسلمانوں کو
اے خاصہءِ خاصانِ رُسل وقتِ دُعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجَب وقت پڑا ہے
جو دِین بڑی شان سے نِکلا تھا وطَن سے
پردیس میں وہ آج غرِیبُ الغُرَباء ہے
وہ دین ہُوئی بزَمِ جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بَتّی نہ دِیا ہے
وہ دِین جو تفَرّقے اَقوام کے آیا تھا مِٹانے
اس دِین میں خُود تفَرّقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دِین نے دِل آ کے تھے غَیروں کے مِلائے
اس دِین میں خُود بھائی سے اب بھائی جُدا ہے
ہے دِین تیرا اب بھی وہی چشمہءِ صافی
دِینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
جِس قوم میں اور دِین میں ہو عِلم نہ دولت
اس قوم کی اور دِین کی پانی پہ بِناء ہے
[پانی پہ بِناء ۔ پانی پر بنیاد۔ یعنی عمارت کی ایسی کچی بنیادجو رکھتے ہی بہہ جائے]
مُختصر سوانح
خواجہ الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ انکے والد کا نام خواجہ ایزو بخش تھا – ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا ۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی ۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن شریف حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی ۔ غالباً 18 برس کی عمر میں انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ 1856ء میں حصار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہوگئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ تین چار سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ تقریباَ 8 سال دہلی چلے گئے ۔ مرزا اسداللہ غالب کی وفات پر لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی ۔ لاہور میں محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمنِ پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی ۔ 4 سال لاہور میں رہنے کے بعد پھر دہلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے ۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی ۔ 1904ء میں شمس العلماء کا خطاب ملا ۔ 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی
Click on “Reality is Often Bitter” and see that conditions for marriage written in Qur’aan are the same as were written in the Bible write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com
انکل اجمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شک یہ وقت دعا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور حالی نے تو لفظوں کو زباں دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈالروں کے حصول کےلیے بہت بڑی گیم کھیلی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ان پندرہ لاکھ مہاجرین کو بیچ بیچ کر کھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے خاصہءِ خاصانِ رُسل وقتِ دُعا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا بھی عمل کرنے کے بعد کرنی چاہئے میرے خیال میں۔۔۔
صرف دعائیں کرکے تو کام نہیں بنے گا۔۔۔
حکیم خالد اور جعفر صاحبان
آپ نے تو ضرور دیکھا ہو گا کہ میں بار بار لکھتا رہا اور مجھ پر اعتراضات بھی ہوتے رہے ۔ جس قوم کی اکثریت دنیا کی مہبت مین اللہ کو بھول جائے پھر مستقبل تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے نیک باعمل لوگوں کیلئے وقتِ دعا ہے ۔ جو لوگ اچھے عمل ہی نہیں کرتے وہ اللہ کی بجائے بڑی طاقتوں ۔ قبروں اور نام نہاد پیروں سے مانگتے ہیں
اے خاصہءِ خاصانِ رُسل وقتِ دُعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجَب وقت پڑا ہے
hairat hai us waqt bhee aur aajkal bhee…itnay arsay main koi farq naheen para? :s
میسنا 02 صاحب
فرق تو ہے ۔ اب آپ بھی ہیں
میسنا 02 صاحب
شکر ہے کہ آپ بھی مسکرائے ورنہ ناک ہمیشہ ماتھے پہ رکھی رہتی ہے