نادرا حکام نے انکشاف کیا ہے کہ مختلف طریقوں سے بنوائے گئے ساڑھے دس لاکھ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کر دیئے گئے ہیں جبکہ مزید 1 لاکھ 4 ہزار جعلی کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا پتہ لگایا گیا ہے جو اب بھی شہریوں کے زیراستعمال ہیں ۔ ان میں سے لاکھوں کارڈز 2005 میں ہونے والے بلدیاتی اور 2008 میں عام انتخابات میں بھی استعمال ہوئے۔ اب بھی ایک لاکھ سے زائد غیرقانونی ذرائع سے بنوائے گئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شہریوں کے زیراستعمال ہیں جو بینک اکاؤنٹس کھلوانے، موبائل فون کی سمز کے اجراء اور پاسپورٹس اور دیگر اہم دستاویزات بنوانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ دہری شناخت کے حامل ان شناختی کارڈز کے بارے میں جدید نظام کے ذریعے شناخت ہو چکی ہے اور ان افراد کو یہ شناختی کارڈ واپس کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے ورنہ ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں گے اور اگر اس میں نادرا کے عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تو ایسے افراد کو نہ صرف نوکری سے فارغ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جا ئے گی۔
کچھ سوال
کیا یہ سراسر نااہلی نہیں ہے ؟
جعلی کارڈوں کی واپسی کیلئے مزید تین ماہ کیوں دیئے گئے ہیں ؟
ایسے لوگوں کے خلاف قانون فوری طور پر کیوں حرکت میں نہیں لایا جا رہا ؟
کیا ایسا کسی خاص مقصد کیلئے کیا گیا تھا جو ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہوا ؟
کیا نادرا دہشتگردی کے فروغ میں مددگار نہیں ؟
جعلی شناختی کارڈ بنوانے کی سرپرستی ایک تو اسمبلی کے امیدوار کرتے رہے ہیںتاکہ انہیںجعلی ووٹ مل سکیں۔ دوسرے نادرا کیا تمام سرکاری محکموںمیں بہت سارے بے ایمان لوگ کام کرتے ہیںجو پیسے کیلیے ملک بھی بیچ سکتے ہیں۔ جب تک یہ محکمے ایسے راشیوں اوربے غیرتوں سے بھرے رہیںگے دنیا کا کوئی بھی کمپیوٹرایزڈ محفوظ نظام غیرمحفوظ ہی رہے گا۔
آپ آج بھی اگر نادرا کے دفتر چلے جائیںتو آپ کو بہت سارے لوگ دفتر کے باہر اور اندر ملازم ایسے مل جائیںگے جو دو چاہ ہزار نہیں تو دس پندرہ ہزار روپے میں آپ کو جعلی شناختی کارڈ بنوا کر دے دیں گے۔
نادرہ کے ملازمین ہی نہیں اس کا چیئرمین سب اوپر تک کو سزا ملنی چاہیے ناقابل معافی سزا یہ غداری ہے ملک سے
میں کامران صاحب کی بات سے متفق ہوں۔ کہ چند حزار روپؤں کی خاطر نادارا کے کرپٹ ملازمیں محض ایک جعلی کارڈ نہیں بنا رہے بلکہ یہ ملک دشمنوں کو ایک نئی شناخت کے ذرئعیے نئی زندگی بخش دیتے ہیں تا کہ جرم پیشہ لوگ ھنستے بستے رہیں اور کبھی نہ پکڑے جائیں اور پاکستان میں آئے دن قتل و غارت کے نت نئے بازار گرم ہوتے رہیں۔
یہ ایک معمولی جرم نہیں ہے۔ اس کی سنگین سزا ہونی چاھئیے۔ اسے ریسات سے غداری تصور کرتے ہوئے ۔ادراے کے تمام زمہ داران سے بھی سخت ترین جوب طلب کیا جانا چاھئیے۔ اور ہمارے اداروں کی پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ ہی وہ اور اس طرح کی غیر ذمہ دار اور نا اہل کارگردگیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم خود رو پودوں کی طرح اُگ رہے ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہماری ہر قسم کی سرکاری دستاویز کو دنیا میں شک کی بنیاد سے دیکھا جاتا ہے۔اور عالمی برادری ہم سے نفریں ہے۔
اسپین میں غیر ملکی اگر اپنے ملک کے جعلی پاسپورٹ وغیرہ پہ پکڑا جائے تو اس کی سزا دو سال ایک دن تک ہے۔لیکن اگر وہ اسپین کے پاسپورٹ یا کسی سرکاری کارڈ وغیرہ میں ھیرا پھیری کرے تو اسکی سزا آٹھ سال ایک دن تک ہے اور بعض صورتوں میں اس سے زیادہ۔ کیونکہ اسپین میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ میں ھیرا پھیری کو کو کاروبار ِحکومت کی سرکاری دستاویزات میں ردو بدل میں لیا جاتا ہے اور اسے ریاست کے خلاف ایک بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سے ملتی جلتی صورتِحال سارے یوروپی ممالک میں ہے۔
جب محکموں کو سیاستدان چلائیںگے تو یہی حال ہو گا