قومی کانفرنس تمام ہوگئی ۔ 43 چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ سب کو اظہار خیال کا موقع ملا ۔گھنٹوں مباحثہ ہوا ۔ حکومت کی تیار کردہ قرارداد میں ترامیم ہوئیں ۔ ایک متفقہ قرارداد کا متن تیار ہوا ۔ اس پر تمام جماعتوں کے عمائدین نے دستخط ثبت فرمائے ۔ اس 16نکاتی اعلامیے میں سب کچھ ہے لیکن کہیں ”فوجی آپریشن“ کے الفاظ استعمال نہ ہوئے اور نہ ہی زعمائے ملت نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ باجوڑ کے شدت پسندوں کو زبردست فوجی قوت کے ساتھ کچل دیا جائے ۔ منظور کردہ قرارداد میں ”طالبان“ کا لفظ بھی موجود نہیں ۔ عمومی اندازوعظ و تلقین اور دعوت و ارشاد کا سا ہے ۔ کوئی ایک بھی ٹھوس، جامع اور متعین بات نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا میکانزم تجویزکیا گیا ہے جو اس کانفرنس کی منظور کردہ قراردادکو عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کرے گا ۔ سب کچھ ایک بار پھر اسی حکومت پر چھوڑدیا گیا ہے جس کی ناک میں امریکہ کی نکیل پڑی ہے اور جو مشرف کے اس فلسفے کو ایمان کا درجہ دیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے
کانفرنس نے اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں کی حمایت کی ۔ آئین اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کا عہد کیا ۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ریاستی رٹ پر زور دیا ۔ آئین اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی مسلح کوششوں کی مذمت کی ۔ فوجیوں اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ۔ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کہا ۔ بے گھر ہوجانے والے افراد کی ہرممکن امداد اور بحالی کا عزم ظاہر کیا ۔ قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑی ہو ۔ ایک متحرک اور فعال جمہوری نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ پورے یقین کے ساتھ دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایک موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں ۔ زور دے کر کہا کہ اہم قومی دفاعی معاملات اور فوج کی مختلف مقامات پر تعیناتی صرف پاکستان کا کام ہے ۔ کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اقتصادی ، سیاسی اور جانی قربانیاں دی ہیں ان کی نظیر کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور علاقائی خودمختاری کے خلاف کارروائیوں بالخصوص ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی گئی اور قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے اور اسے دی جانے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو شرائط میں جکڑنے کے منفی اثرات برآمد ہوں گے
یہ ایک لحاظ سے وعظ و نصیحت کا وہ پرچہ ہے جو آپ کو کبھی کبھار ڈاک میں موصول ہوتا ہے اور جس کے کنارے پہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر تم نے اس کی مزید دس کاپیاں تیار کرکے تقسیم نہ کیں تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ ممکن ہے یہ تاثر مبنی برحقیقت نہ ہو لیکن قیاس یہی ہے کہ قومی کانفرنس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ فوجی آپریشن اسی انداز میں چلتا رہے گا، گناہ گاروں اور بے گناہوں کی تمیز کے بغیر لاشیں گرتی رہیں گی ۔ بے خانماں ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہے گی
عرفان صدیقی کے مضمون کا بقیہ یہاں کلک کر کے پڑھیئے
بشکریہ ۔ جنگ