محبت بے عقل نہیں ہوتی جبکہ عشق اندھا ہوتا ہے ۔ محبت کرنے والا محبوب کی خوشنودی چاہتا ہے جبکہ معشوق کی بے رُخی پر عاشق معشوق کو قتل کرنے پر تُل جاتا ہے ۔ بعض اوقات عاشق کا یہ زہر کسی اور کیلئے تریاق ثابت ہوتا ہے ۔ تین دہائیوں سے زائد قبل کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق مُنشی سے عشق ہو گیا ۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے ۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے ۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق مُنشی کینُوپ میں ملازم ہو گیا ۔ ایک دن رفیق مُنشی اچانک غائب ہو گیا
چار سال بعد رفیق مُنشی پھر کراچی میں نمودار ہوا ۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا ۔ گو اُس کے دل میں رفیق مُنشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سُلگتی رہی ۔ ایک دن رفیق مُنشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا ۔ اُس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کافی کاغذات پڑے ہیں ۔ ان کاغذات میں بہت اہم مُلکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اُس کے ذہن پر سوار ہوگئے ۔ وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہو گئی ۔ اپنے علاج کیلئے وہ نفسیات کی ماہر ایک ڈاکٹر کے پاس گئی لیکن اسکے سامنے کچھ اُگلنے کو تیار نہ تھی
اُن دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کا سربراہ تھا ۔ بات اُس تک پہنچی ۔ اُس نے کوشش کی اور اللہ کی نُصرت شاملِ حال ہوئی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی ۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا ۔ رفیق مُنشی امریکی خُفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا ۔ امریکی خُفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا ۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی معشوقہ بنی ہوئی تھی ۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹا لیشنز [Nuclear installation] کے رفیق مُنشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج [counter-sabotage] کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے ۔ امریکیوں کو مُلک سے نکال دیا گیا ۔ صدر ضیاء الحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئیندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی
رفیق مُنشی کو پھانسی اور باقی پاکستانیوں کو عمر قید کی سزا ہوئی ۔ رفیق مُنشی کا تعلق سندھ کے ایک بڑے سیاستدان سے تھا ۔ اُس سیاستدان نے ضیاء الحق پر دباؤ ڈال کر اور ضیاء الحق کی حکومت کی سیاسی حمائت کا وعدہ کر کے رفیق مُنشی کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کروا لی
متذکرہ بالا لیفٹنٹ کرنل امتیاز ریٹائرڈ بریگیڈیئر امتیاز ہی ہے جو بعد میں آئی بی کا سربراہ بھی رہا اور جسے بینظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی قید میں ڈال دیا تھا اور تین سال کی قید کاٹ کر عدالت کے حُکم پر رہا ہوا تھا ۔ پھر پرویز مشرف نے بھی اسے قید میں ڈال دیا تھا اور ہائی کورٹ کے حُکم سے پانچ سال بعد رہا ہوا تھا
یہ خلاصہ ہے ۔ تفصیل انگریزی میں ہے جو یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
ایٹمی پروگرام کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم میڈیکل فیلڈ میں بھی پاکستان میں نیوکلئیر ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ اور ہم نے اسے محض بم بنانے کے لئے ہی استعمال نہیں کیا ہے۔ مگر افسوس کہ توانائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ان میدانوں میں کام کرنے سے مغربی ممالک ہمیں اپنے بے جا قوانین کے ذریعے روکنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس میدان میں چین اور ایران کے ساتھ ملکر مزید کام کرنا چاہئے خصوصا توانائی کے منصوبوں پر۔
افسوس کے ہمارے ملک میں لکھنے والے جب ایٹمی ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں تو اس ٹیکنالوجی کے دیگر فوائد کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ جس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم بس اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر اتراتے ہیں۔ ہمیں اس ٹیکنالوجی کے دیگر استعمالات پر اپنے سائنسدانوں پر اور بھی فخر کرنا چاہئے۔
میںنے بھی یہ کہانی پڑھی ہے لیکن چند ایک باتیںہیںجو بریگیڈیر صاحب گول کر گئے ہیں مثلاَ یہ کہ سرخمزدا کار کے ذریعے وہ رفیق منشی تک تو پہنچے لیکن اسکے اس لڑکی سے تعلق کا علم انھیں کیسے ہوا یہ بات واضح نہیں ہے۔
کچھ شرمناک باتیں بھی ہیںمثلاَ انڈیا کے جاسوس کو تو ہم جیل میںڈال دیتے ہیںلیکن امریکنوںکو جہاز پر بٹھا کر با عزت رخصت کر دیتے ہیں۔ یہاںتک کہ یہ وعدہ بھی کرتے ہیںکہ انکا نام بھی نہیں لیا جائے گا۔ اسی طرحسیاسی حمایت کے بدلے عدالے کے فیصلے یعنی سزائے موت کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ ویسے صدر کو یہ اختیار کیوںحاصل ہے یہ بات آج تک سمجھ میںنہیںآئی۔
ایک اور بات بھی جو کھٹکھتی ہے۔ مرد مومن نے باوجود سخت عالمی دباؤ کے چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو معاف کر کے عمر قید میں تبدیل نہیں کیا تھا۔ اسلئیے ضیاءالحق نے صدر رہتے ہوئے ہر سزائے موت کو بحال رکھا۔ حتیٰ کہ عورتوں کو بھی پھانسی چڑھایا گیا۔ ورنہ بھٹو کو معاف نہ کرنے کا الزام و فساد ہوتا۔
یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کی سربراہی میں آئی ایس آئی پاکستان کا اہل ترین ادارہ تھا اور بریگیڈئیر امتیاز نے جنرل عبدالرحمٰن کی سربراہی میں بہت عرصہ کام کیا۔ جنرل عبدالرحمٰن میں بہت سی خوبیاں تھیں جن میں ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے آئی ایس آئی کو باقی دنیا کے کسی بھی بہترین سے بہترین خفیہ ادارے کے پائے کی تربیت اور نمو کی۔ یہ ہی وہ وجہ تھی کہ آئی ایس آئی کو ہر قسم کے دشمن ایجنینٹوں پہ ھاتھ ڈالنے کی آزادی تھی۔ آئی ایس آئی نے بارہا امریکہ سمیت بہت سی مغربی اور نان مغربی خفیہ اداروں پہ ھاتھ ڈالا اور پاکستان کے اہم رازوں کی حفاظت کی۔ اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
جس دنیا میں پاکستان کی کسی بھی ابھرتی ہوئی اسپورٹس ٹیم (کرکٹ، ہاکی۔ وغیرہ وغیرہ) کو اپنوں( ڈاکٹر نسیم اشرف مشہور یہود نواز امریکی تھنک ٹینک) اور غیروں سے ملکر محض اس لئیے حیلے بہانوں سے ناکام کیا جائے۔ تانکہ پاکستان ہر لحاض سے ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرے۔ وہاں پاکستان کی بقا کی جنگ لرنے والے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے خلاف کون کون سی سازش نہ کی گئی ہو گی۔ اور اسی وجہ سے آئی ایس آئی کو پاکستان مخالف قومیں اور انکا میڈیا لعن طعن کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اور جس میں خیر سے موجودہ پاکستانی حکومت کے بہت سے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔
یہ ضرب المثل تو سنی تھی کہ کسی کا ماتھا اپنے ماتھے سے خوبصورت دیکھ کر اپنا ماتھا سے دیوار پہ ٹکریں مارنے سے خوبصورت نہیں ہوتا۔ مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ پاکستان کے پاس ایک عالمی پائے کاایک بہترین ادارہ ہے آئی ایس آئی موجود ہے جس سے حکومت کو مفید کام لینے چاھئیں نہ کہ اسے وزیر اعظم کے زیر نگرانی کر کے ڈومیسٹیک کر کے باقی ماندہ اداروں کی طرح کر لیا جائے ۔ہم اپنا ماتھا خوبصورت ہونے کے باوجود ٹکریں مار مار کر اسے بھونڈا کرنے میں مثال نہیں رکھتے۔
بریگیڈئیر امتیاز نے۔ طیارے کے ناگہانی حادثے میں ضیاءالحق کے ساتھ جاںبحق ہونے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اختر عبدالرحمٰن۔ کے بارے ایک کتاب ۔۔فاتح۔۔ لکھی تھی۔ جو جنرل اختر عبدالرحمٰن اور خفیہ اداراے کے طریقہ کار کے اردگرد گھومتی تھی۔وہ کتاب بھی دلچسپ ہے۔
عاشق کا انتقام اور ہمارا نیوکلیئر پروگرام
اور جو لوگ نکاح جیسے پاکیزہ بندھن سے پہلے ہی an illicit sexual relationship رکھتے ہوں۔ وہ اور سب کچھ تو ہوسکتے ہیں۔ مگر عاشق؟ نہیں ہو سکتے۔
نعمان صاحب
میں ایک کم علم سا آدمی ہوں لیکن اللہ کی مجھ پر بڑی کرم نوازی رہی کہ میں بہت سے اہم قومی منصوبوں کے قریب رہا ہوں ۔ ایٹمی توانائی کا سب سے پہلا منصوبہ زرعی شعبہ میں تھا ۔ دوسرا طِبی میں تیسرا برقی توانائی میں اور چوتھا بم بنانے کا
عزیز میاں کی قوالی والی بات ہے اب تو “اللہ ہی جانے کون بشرہے” یعنی اب تو ہر اینٹ کے نیچے رفیق منشی چھپا بیٹھا ہے بلکہ ایسے منشیوں سے پارلیمنٹ بھری پڑی ہے اور نہ ہی بیرونی ایجینٹوں کو اب چھپنے کی ضرورت رہی ہے۔ ہر کام سرعام ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔
فیصل صاحب
یہ درست ہے کہ بریگیڈر امتیاز صاحب نے بہت سی باتیں گول کر دی ہیں لیکن لڑکی تک پہنچنے کی کہانی دی نیوز میں موجود ہے ۔ میرے انگریزی کے بلاگ میں دی نیوز کا ربط موجود ہے ۔ امریکی آپریٹر سفارتکار تھے ۔ بھارت کے سفارتکار بھی چند بار اسی طرح ملک بدر کئے گئے ہیں ۔ اگر ہمارے حکمران خودغرضی نہ کرتے تو آج مُلک کا یہ حال تو نہ ہوتا ۔ موجودہ حکمرانوں کا کردار تو بہت گھناؤنا ہے
جاوید گوندل صاحب
اللہ کا شکر ہے کہ کسی نے آئی ایس آئی کا اصل رُخ پیش کیا ۔ میں کافی عرصہ سے آئی ایس آئی کے متعلق لکھنے کا سوچ رہا ہوں لیکن رونما ہونے والے واقعات مجھے اس پر نظر کرنے نہیں دے رہے ۔ بہت سے ایسے واقعات ہیں جو میں زبان پر نہیں لا سکتا
محترم اجمل صاحب!
نئی نسل میں پڑھی لکھی پود کے اذھان، ملک و قوم اور اسکے دوست و دشمن کے بارے میں بہت واضح ہیں۔ پروپگنڈاہ سے ہٹ کر حقائق کی روشنی میں دوست و دشمن کی تمیز کرنا سب کو آتا ہے۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ بحث بھی کریں گے اور اپنے ذھن کو ایڈجسٹ بھی کرتے جائیں گے۔
مسئلہ ان لوگوں سے ہے جو بنے بنائے سانچوں میں کچھ اس طرح ڈھل چکے ہیں۔ انکے سانچے لچک سے خالی ہیں۔ جو تڑخ سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کو نئی حقیقتوں یا سچائی اور حق تک رسائی ہو تو ان میں اتنی لچک نہیں کہ اپنے ویو کو بدل سکیں۔ اور بد قسمتی سے ملک کے سیاہ و سفید پہ بھی کسب کمال سے خالی، بے ہنر اور بے لچک لوگ قابض ہیں۔ نوشتہ دیوار جب تک عمل میں ڈھل کر انہیں آن نہیں دبوچتا۔ وہ بے بہرہ آنکھیں بند کئیے ملک و قوم کی ستیاناس کرتے رہتے ہیں۔
اس کی ایک مثال مشرف و زراداری ہیں۔ مشرف کام سے گیا۔ ملک سے گیا۔ قوم کا مجرم اور خدا کا بھی مجرم، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ اور زارداری نے جب تک لانگ مارچ نہیں ہوا ۔تب تک چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کو بحال نہیں کیا۔ جبکہ یہ کوئی اتنا مسئلہ نہیں تھا ۔ بس ان کے پاس بصیرت نہیں کہ یہ دیکھ سکیں۔ یہ صرف اشروں پہ کام کرتے ہیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ انکل!
پوری خبر پڑھ لینے کےبعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ ‘جاسوسی ڈائجیسٹ’ کی کسی کہانی سے ماّخوذ اقتباسات ہوں۔
لیکن ہر صورت میں مسلمانوں کو اللہ کا شکربجالانا چاہئے کہ انکے پاس بھی اپنے بچاؤ کا کچھ سامان میسر ہے۔ اور انشااللہ اسی نعمت کے بدولت غیروں کو افغانستان/عراق کی طرح پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
اللہ ملک و ملت کو غیروں کے ناپاک عزائم سے سلامت رکھے۔ آمین۔
اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذ بک من شرورھم۔
ہم نے دور حاضر کے تین نام پکڑ لئے ہیں۔
مشرف ، ذرداری تے نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
انادے وچ کون ایجنٹ نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی کسی دا ہیرو ہے تے کوئی کسی کا۔ کیونکہ ہم سب کے مفادات اپنی اپنی قومیت کے گرد گھومتے ہیں کاش ہم صرف پاکستانی بن کرسونچنے لگے۔
آپ اپنی عددی برتری سے پھروہی وقت لانے جارہے ہو جس میں باقی صوبوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سول آمر امیرالمومنین بنے پر تل جاتا ہے اور پھرمجبورآ ہائی کمان کو حرکت میں آنا پڑتا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ مشرف نے اب تک جو کچھ کیا اوراب بھی جو کررہا ہے وہ پاکستان کے خیرخواہوں کی مرضی کے بغیر کررہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شہباز کے آنے کے بعد بھی آپ اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ہو۔
اپنی سونچاں نو وسیع کرواورعقل نو کھولو، بار بارغلطیاں مت دھراؤ ، مگر افسوس یہی ہے کہ آپ بڑے ضدی ہو، اپنی ہٹا توں نہیں ہٹدے۔
اللہ بار بار موقع نہیں دیتا ، اپنے میں سے ایماندان ، سمجھ دارپڑھے لکھے اورمتوسط طبقے کو اگے آنے دو ، اور انا دوناں بھائیاں نو کہو کہ یار بس بہت ہوگئی ، آپ اپنی انڈسٹری پر توجہ دو جہاں پچھلے تین ہفتوں سے آپ کے مزدور آپ سے صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں انکو حکومت کی کہی گئی کم سے کم تنخواہ 6 ہزار دو۔
چیف کو بحال کرنے میں دیراس لئے کروائی گئی کہ اب آپ اس کےہرکام کو من وعن تسلیم کرو، اب آپ کس منہ سے اس کےانکاری ہو سکتے ہو۔ کیا سمجھدار کے لیے اتنا اشارہ کافی نہیں۔
افتخار میرے خیال میں ہمیں ہتھیاروں کے بجائے ان دیگر منصوبوں پربھی فخر کرنا چاہئے۔
جاوید گوندل صاحب
بات آپ کی درست ہے ۔ مسئلہ اُس خاموش اکثریت کا ہے جو یہ سب کچھ لیٹے لیٹے برداشت کر رہی ہے
محبِ پاکستان صاحب
میں آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں
نعمان صاحب
ہمیں ایک نہیں ہر خُوبی پر فخر کرنا چاہیئے ۔ تکبر نہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ماضی کی خوبیوں میں کھو کر مزید ترقی نہ کریں ۔ میرے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ۔ عبدالمجید ۔ سلطان بشیر الدین محمود اور دوسرے آٹھ مایہ ناز انجنیئر ہمیشہ سے محترم رہے ہیں جنہیں ملک و قوم کے دُشمن پرویز مشرف نے قید میں ڈالا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی درجنوں لوگ ہیں جو میرے لئے قابلِ احترام ہیں ۔ میں ان سب کے نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ یہ بات نیوکلیئر فیلڈ کی ہو رہی ہے ایٹم بم کی نہیں ۔ دوسری بھی کئی فیلڈز ہیں جن میں قوم کے درجنوں فرزندوں نے مایہ ناز کام کئے ہیں اور ان کے نام صرف متعلقہ لوگ ہی جانتے ہیں ۔
آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپ سے اسی طرح بے تکلف بات کروں جس طرح آپ کی عادت ہے ۔ میں آپ کی تحاریر اور مختلف بلاگز پر تبصرے پڑھتا رہتا ہوں ۔ آپ کے اکثر تبصروں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جس کی تحریر پر آپ تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ سے کم علم یا تجربہ رکھتا ہے ۔ اسلئے تبصرہ کرتے ہوئے آپ کو احساس نہیں رہتا کہ آپ غلط جواز پیش کر رہے ہیں ۔
دیگر آپ کی عادت جسے آپ اپنے سٹائل کا نام دے چکے ہیں اُسے آپ بدلنے کو تیار نہیں ۔ صوفی محمد کے داماد فضل اللہ کا بھی ایک سٹائل ہے اور وہ اسے بدلنے کو تیار نہیں ۔ اس لحاظ سے آپ میں اور فضل اللہ میں کوئی فرق نہیں ۔
آپ کیلئے بہتر ہو گا کہ آپ جب بھی بات کریں تو یہ سمجھ کر کریں کہ دوسرا شخص آپ سے زیادہ جانتا ہے اور آپ نے اُس سے سیکھنا ہے ۔ میں حالیہ مثال دیتا ہوں آپ نے میرے نہیں کسی اور بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ “تمہاری پیدائش سے پہلے بھی کراچی میں سلِیو لَیس قمیضیں پہنی جاتی تھیں اور مثال پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کی دی تھی”۔ اس مثال سے آپ کی کم علمی اور معاشرے سے بے خبری کا ثبوت ملتا ہے
آپ کی مادری زبان اُردو ہے ۔ میرے بزرگوں کی رہائش آگرہ ۔ حیدرآباد دکن ۔ بھوپال ۔ مصر ۔ فلسطین ۔ جموں کشمیر ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہی ہے ۔ ہمارے گھر میں اپنے سے چھوٹے کو بھی آپ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ اور جن علاقوں کا میں نے نام لکھا ہے ان میں اپنے سے دس پندرہ سال بڑے کو کوئی بھی نام سے مخاطب نہیں کرتا بلکہ نام کے ساتھ بھائی صاحب ۔ چچا ۔ وغیرہ لگا لیتا ہے ۔ میرے علم میں ہندوستان یا پاکستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں اپنے سے دس سال یا زیادہ بڑے کو نام سے مخاطب کیا جاتا ہو ۔ سوائے آپ کے ۔ اس سلسلہ میں میں نے آپ کو صرف آپ کی خاطر سمجھانے کی کوشش کی ۔ اور آپ کے کچھ ہم عمروں نے آپ کو سمجھایا مگر آپ اپنی ضد پر قائم ہیں ۔
جب آپ اپنی کسی بُری عادت کو نہیں بدل سکتے تو پھر آپ دوسروں بشمول پاکستانی طالبان کی بُرائیاں گننے کا کیا حق رکھتے ہیں ؟
آپ بھی مجھے براہ راست نام لے کر مخاطب کیا کریں مجھے خوشی ہوگی۔ اور میرے خیال میں آپ کا اس بات پر اعتراض کرنا کہ میں آپ کو نام لیکر مخاطب کرتا ہوں بلاجواز ہے۔ میری آپ سے کوئی رشتہ داری نہیں تو خواہ مخواہ میں کیوں بلاوجہ کی رشتہ داری بنائی جائے۔ احترام کی جہاں تک بات ہے تو میں کوشش کرتا ہوں تہذیب کے دائرے میں رہوں۔ مجھے یاد نہیں میں نے آپ سے کبھی بدتہذیبی سے بات کی ہو۔ اگر ایسا کبھی ہوا ہے یا آپ کو لگا ہو کہ ایسا ہوا ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔
بہت شکریہ آپ کے اس شکوے کا کہ میں اکثر دوسرے لوگوں کو کم علم سمجھتا ہوں۔ مجھے قریبا یہی شکوہ آپ سے ہے۔ کہ آپ سمجھتے ہیں جو بھی اختلاف کرے وہ جاہل ہے۔ آپ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اور اختلاف رائے عموما آپ کو فرسٹریٹ کردیتا ہے۔
اچھا اب آتے ہیں نیوکلئر پروگرام کی طرف میرے تبصرے کا محض ایک ہی پہلو تھا کہ ہمارے ملک کی عوام میں نیوکلئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے صرف یہی تفاخر پایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ عوام میں اس بارے میں بھی آگاہی پھیلائی جانی چاہئے کہ ہم نیوکلئر ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی کافی ترقی یافتہ ہیں۔
نعمان صاحب
آپ کی اس تحریر نے میرے لکھے کو سچ ثابت کر دیا ہے اب مزید مجھے کچھ نہیں کہنا ہے
رہی نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عوام کی بے خبری توآپ کے استدلال نے ثابت کیا ہے کہ آپ دوسروں کو کم علم سمجھتے ہیں
Pingback: مئی 2009ء کے بلاگز کا تجزیہ
Pingback: مئی 2009ء کے بلاگز کا تجزیہ | منظرنامہ