سوات ۔ طالبان ؟ کچھ سوال و جواب

محبِ وطن جب وطن سے دُور ہوں تو اُن کی توجہ ہر لحظہ وطن طرف رہتی ہے ۔ ایک ایسے ہی دردمند پاکستانی جو اپنی روزی کے سلسلہ میں وطن سے دور ہیں اُنہوں نے کچھ سوالات مجھ سے پوچھ کر میری حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ہر چند کہ میں مفکر یا محقق نہیں ہوں لیکن جس ملک میں رہتا ہوں اس کی بہتری کیلئے فکر کرنا تو ایک فطری عمل ہے ۔ موصوف کی برقی چِٹھی کے مطابق اُن کے بہت سے ساتھی بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اسلئے جو کچھ میرے علم میں آیا ہے اُس کے مطابق جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ برقی چِٹھی کے ذریعہ جواب دینے کی بجائے یہاں اسلئے تحریر کر رہا ہوں کہ دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں

سوال ۔ 1 ۔ یہ پاکستانی طالبان کون ہیں؟ ان میں اور افغانستان کے حقیقی طالبان میں کیا ربط ضبط ہے؟
جواب ۔ 1 ۔ میں طالبان کے حوالے سے ایک تحریر پورے تاریخی پسِ منظر کے ساتھ لکھ چکا ہوں ۔ ابتداء میں نام نہاد پاکستانی طالبان کا نام بیت اللہ محسود سے منسوب ہوا تھا ۔ بیت اللہ محسود کون ہے ؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اس کے بارے میں سنا ہے اسے گونٹانامو بے میں امریکی قید میں ایک سال گذارنے کے بعد رہا کیا گیا اور یہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں پہنچ کر سرگرمِ عمل ہو گیا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا پاکستانی صحتمند حالت میں گونٹانامو بے سے رہا نہیں کیا گیا اور جو رہا کئے گئے وہ افغانستان یا پاکستان میں ابھی تک قید ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعہ طالبان کا نام دے کر سینکڑوں قبائلی ہلاک کئے ہیں لیکن بیت اللہ محسود کو نشانہ کیوں نہیں بنایا ؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ محسود اور اُس کے ساتھی امریکا کا لگایا ہوا زہریلا پودا ہے

آجکل نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک تو ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق کسی کو کچھ علم نہیں ۔ جولائی 2007ء میں پرویز مشرف کے حُکم سے جامعہ حفصہ میں داخل سینکڑوں بچیاں فاسفورس بموں سے جلا کر ہلاک کر دی گئیں تھیں سو طالبان کہلانے یا کہے جانے والوں میں کچھ وہ ہیں جن کی بہن یا بیٹی یا قریبی عزیزہ ان بچیوں میں شامل تھیں ۔ کوئی اس لئے طالبان بنا کہ اس کے اہلِ خانہ فوجی کاروائی میں ہلاک ہو گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت نے تحفظ نہ دیا تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچانے کیلئے نام نہاد طالبان کے حصار میں چلے گئے ۔ ان میں جو شرارت کی جڑ طالبان ہیں انہیں بنانے اور اسلحہ اور مالی امداد دینے والے ان تینوں میں سے ایک ۔ دو یا تینوں ہو سکتے ہیں ۔ بھارت ۔ امریکہ ۔ اسرائیل ۔ بقول فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ “پچھلی حکومت نے بھارت کی راء ۔ امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کو پاکستان میں کام کرنے کی کھُلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں اُنہوں نے قبائلی علاقوں میں اپنے لوگ لگا دیئے”

نام نہاد پاکستانی طالبان جو کوئی بھی ہیں ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کا مقصد وہ ہے جو افغانستان کے طالبان کا ہے ۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں روس یا امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے ہوں

سوال ۔ 2 ۔ ملا صوفی محمد کون ہیں؟ کیا ان کا رویہ یا انکی موجودہ تحریکات واقعی میں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہیں؟
جواب ۔ 2 ۔ صوفی محمد ایک گاؤں کی مسجد کا امام تھا ۔ ایک بار جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر کا انتخاب جیتا تھا لیکن چند ماہ بعد علیحدہ ہو گیا ۔ 1989ء میں اس نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی یا اس میں شامل ہوا تھا ۔ ہوا یوں تھا کہ 1974ء میں منظور ہونے والے 1973ء کے آئین کے نام پر 1975ء میں جو عدالتی نظام سوات میں قائم کیا گیا دراصل وہ نظامِ عدل نہیں بلکہ سوات پر مکمل گرفت کیلئے مجسٹریسی نظام تھا ۔ جب اس کے اثرات پوری طرح سامنے آئے تو وہاں کے عوام جو اسلامی طرز کے نظامِ عدل کے عادی تھے اس کے خلاف احتجاج کرنے لگ گئے اور 1989ء میں اس تحریک نے جنم لیا

میرا نہیں خیال کہ صوفی محمد قرآن شریف کی تفسیر ۔ حدیث اور فقہ سے کما حقہُ آگاہ ہے ۔ جس طرح کے صوفی محمد اب بیانات دے رہا ہے وہ 1989ء سے آج تک دیتا آیا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کسی نے توجہ نہیں دی ۔ صوفی محمد سیدھا سادھا روائتی دیہاتی ہے یعنی جو ذہن میں آیا کہہ دیا ۔ وہ قرآن و سنْت کا نفاذ تو چاہتا ہے لیکن اس کے رموز سے شاید پوری طرح واقف نہیں ہے ۔ صوفی محمد کے مطابق “عورت کا سوائے حج کے گھر سے باہر نکلنا حرام ہے” ۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شریعت کا کتنا علم رکھتا ہے ۔ ایک خوبی اُس میں ہے کہ وہ امن پسند ہے اور ایک بار قبل بھی امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر چکا ہے

سوال ۔ 3 ۔ پاکستانی طالبان کا سوات ڈیل سے یا سوات شریعت سے کیا تعلق ہے؟
جواب ۔ 3 ۔ سوات معاہدہ شریعت کے نفاذ کیلئے نہیں ہے بلکہ نظامِ عدل کا معاہدہ ہے جس کے تحت انصاف سستا اور جلد مہیا ہو سکتا ہے ۔ معاہدہ صوفی محمد سے ہوا کیونکہ وہ صُلح جُو آدمی ہے ۔ اُس کے پیروکار کافی ہیں لیکن نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایسے لوگ ہیں جو اُس کے تابع نہیں ہیں ۔ اور جہاں تک میرا قیاس ہے وہ لوگ کسی غیر ملکی ادارے کے ایجنٹ ہیں جو امن قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ پاکستان میں استحکام نہ آئے ۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کا براہِ راست فائدہ بھارت ۔ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے

سوال ۔ 4 ۔ سوات میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ لڑکی کو کوڑے مارنے کی جو ویڈیو مشہور کی گئی اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
جواب ۔ 4 ۔ دیر اور بونیر میں فوجی کاروائی کے بعد پاکستانی طالبان نے سوات میں کچھ مقامات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ چنانچہ سوات میں بھی فوجی کاروائی شروع کر دی گئی ہے ۔ ان علاقوں کے لوگ پھر سے پریشان ہیں اور اپنی جانیں بچانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں صرف سوات میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں

لڑکی کو کوڑے مارنے کا معاملہ عدالتِ عظمٰی میں ہے ۔ متعلقہ وڈیو جن لوگوں نے اُچھالی تھی وہ اس کی درستگی کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاہدہ سوات کے خلاف یہ ایک منظم غیرملکی سازش تھی تاکہ امن قائم نہ ہو سکے جو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے ذرائع ابلاغ اور نام نہاد سِول سوسائٹی نے بہت گھناؤنا کردار ادا کیا

5۔ پاکستان میں جاری یہ شورشیں آخر کب ختم ہوں گی؟
جواب ۔ 5 ۔ شورش کب ختم ہو گی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح پچھلے ایک سال سے اس سارے معاملے سے نبٹا جا رہا ہے اس سے شورش کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات ہیں ۔ مرکزی حکومت بہت بے دلی سے اس اہم معاملے کے لئے کوئی کاروائی کرتی ہے جس سے شُبہ ہوتا ہے کہ اُنہیں پاکستانیوں اور پاکستان کی بجائے اپنی کرسی اور مال اکٹھا کرنے سے غرض ہے جو امریکہ کے دم سے قائم ہے ۔ قبائلی علاقہ میں ان دگرگوں حالات کا اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہے جس نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے قوم اور مُلک کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔ جب موجودہ حکومت آئی تو چاہیئے تھا کہ فوری طور پر اس معاملہ کی طرف توجہ دے کر مناسب منصوبہ بندی کی جاتی لیکن اربابِ اختیار اپنی کرسیاں مضبوط کرنے اور دوسرے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے میں گُم رہے ۔ جب معاملہ مالاکنڈ جس میں سوات شامل ہے تک پہنچ گیا تو بھی بے دِلی سے کام کیا گیا ۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے

اُسے تو قتل کرنا اور تڑپانا ہی آتا ہے
گلا کس کا کٹا کیونکر کٹا تلوار کیا جانے

سُنا اور پڑھا تھا کہ کوئی علاقہ مُلک دُشمن لوگوں سے واگذار کرانا ہو تو زمینی کاروائی ہی بہترین ہوتی ہے جس میں خُفیہ والے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں ۔ جس طرح سے پچھلے چار سالوں سے قبائلی علاقہ میں اور اب سوات وغیرہ میں فوجی کاروائی ہو رہی ہے اس نے حکومت کی بجائے نام نہاد پاکستانی طالبان کے ہمدرد پیدا کئے ہیں ۔ اس کاروائی میں دُور مار توپوں کے استعمال سے دہشتگردوں کی بجائے عام شہری زیادہ مارے گئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ خُفیہ والوں کا کردار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا

اللہ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور درست راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

This entry was posted in تجزیہ, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

37 thoughts on “سوات ۔ طالبان ؟ کچھ سوال و جواب

  1. باذوق

    السلام علیکم۔ اتنی قیمتی اور اہم معلومات کے لیے بہت بہت شکریہ محترم اجمل صاحب۔ صوفی محمد کے متعلق کافی لوگ متذبذب ہیں۔ آپ کی وضاحت شائد کچھ ذہنوں کے شکوک کو دور کرے۔ “پاکستانی طالبان” نے بھی حقیقی طالبان کی تصویر کو بہت کچھ دھندلا دیا ہے۔
    امید ہے کہ آپ کی یہ تحریر آپ کے اس بلاگ کے حوالے سے چند دوسرے فورمز پر شئر کرنے کی اجازت حسب روایت مل جائے گی۔ :smile: پیشگی شکریہ

  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    دوسری جنگِ عظیم کے بعد برلن ( تب کے مغربی جرمنی) سے۔ ریڈیو کیمونسٹ۔ کے نام سے ایک ریڈیو سویت یونین کے خاتمے تک چلتا رہا۔ جس میں بظاہر کیمونزم کا پرچار کیا جاتا اور نئی نسل کو آزادی کے نام پہ عجیب و غریب مشورے دیے جاتے۔ جو کچھ اسطرح ہوتے ۔ کامریڈ صبح سویرے کیوں اٹھے ۔؟ کیا تم مل اونر ہو جو غریبوں کا خون چوستے ہیں ؟ یا پھر کامریڈ کل اٹھو تو برش کرنے کی ضرورت نہیں، یہ امیروں کی چونچلے ہیں۔ کامریڈ گھر سے نکلتے ہوئے ہمسائے کی بلی کو لمبی کک لگاؤ یہ سامراجی لوگوں کے نخرے ہیں بلیان وغیرہ رکھنا۔ کامریڈ اپنے بوڑھے (مراد باپ) کو کہو سویرے سویرے مت کھانسے کہ تمھاری نیند پریشان ہوتی ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس سے یہ ہو ا کہ ایک وقت آیا کہ نفیس مزاج لوگ جو شروع میں کیمونزم سے دلچسپی رکھتے تھے وہ کیمونزم سے چڑے اور رفتہ رفتہ درست سوچ اور باشعور طبقہ کیمونزم کے خلاف ہوتا چلا گیا ۔ یہ مشہور خفیہ ریڈیو خفیہ نہیں تھا اور نہ ہی کئی دہائیوں تک اسے چلانے والے کیمونسٹ تھے۔ بلکہ یہ ریڈیو امریکن خفیہ ایجنسی سی آئے اے چلاتی تھی اور اسکے اہلکار نہائت اعلٰی تربیت یافتہ تھے جو کیمونسٹ کا بھیس بھر کر کئی دہائیوں تک عام لوگوں کو یہ بوار کرانے میں کامیاب رہے کہ وہ ہی اصلی کیمونسٹ ہیں اور کیمونزم کس قدر گھٹیا ۔ گندہ اور آدم بیزار نظام ہے ۔ تا کہ لوگوں کے دل میں کیمونزم کے بارے میں بیزارگی اور آخرکار نفرت پیدا کی جاسکے۔

    موجودہ نام نہاد طالبان کے منظرِ عام پہ آنے سے پاکستان کے اندر مسلک کے نام پہ طالبان کا خود کش دہماکے کرنا اور خود ان نام نہاد طالبان نے بھی اپنے عمل سے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں اپنے عمل سے پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت اور تباھی کو ہوا دی ہے ۔اور ایک مسلم ریاست کو کمزور کرنا اور وہ بھی اس وقت جب وہ ہر طرف سے اسلام دشمن طاقتوں میں گھری ہو جو کہ سچے مسلمان کا خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو یہ شیوہ نہیں۔

    اصل طالبان افغانستان کے اندر نہائیت محدود وسائل سے کئی سالوں سے امریکہ سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور نہائیت بہادری سے افغانستان کا بیشتر علاقہ طالبان نے واگزار کروا لیا ہے ۔

    اصل جنگ افغانستان میں ہے ، پاکستان میں نہیں۔ اگر پاکستان کے اندر نام نہاد طالبان کو اتنا ہی جذبہ شہادت مقصود ہے تو افغانستان میدان کارزار ہے ۔پاکستان نہیں ۔ جبکہ ان نام نہاد طالبان نے پاکسانی فوج پہ حملے کئیے ہیں۔ ریاست کی حفاظت کے زمہ دار اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مسلمان عوام کو پریشان کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے صوفی محمد اپنے کاز کے ساتھ مخلص ہوں۔ جب نظام عدل پاکستان کے واحد علاقے سوات میں نفاز ہوچکا تھا اور اگر اس میں کچھ خامیاں تھیں تو اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ان خامیوں کو درست کیا جانا چاہئیے تھا اور دوچار چھ دس سال اس کے ناتئج دیکھے جاتے اور بہت ممکن تھا کہ اس مدت میں سوات میں نظام عدل بہت کامیاب رہتا تو پاکستان کے باقی عوام کے مطالبے پہ اسے بھی دگر علاقوں میں نافذ کیا جاسکتا ۔ مگر ان نام نہاد طالبان نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بزورِ طاقت بونیر وغیرہ پہ چڑھائی کر دی ۔ انکی قیادت نے مالاکنڈ سے آگے بڑھنے اور پورے پاکستان پہ قبضے کے بیانات داغنے شروع کر دیے ۔ حالانکہ اگر انھیں اسلامی نظام ، اسلام اور پاکستان سے دلچسپی ہوتی تو اسلامی عدل کو ایک موقع دیتے۔ بجائے اس کے انکی قیادت پاکستان میں جمہوریت کو کافرانہ نظام کہنے کے فطری طور پہ انھیں اپنی توپوں کا رخ افغانستان کی طرف کرناچاھئیے تھا ۔ جہاں غیر مسلم فوجیں قابض ہیں ۔ مگر ان نام نہاد طالبان نے طالبان کا نام اپنے ساتھ لگا کر پاکستان سے جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اور یہ اطرح کی حرکتیں کرتے ہیں ۔ کہ کوئی بھی درمیانی سی بھی سوچ رکھنے والے پاکستانی کو ان پہ حیرت اور افسوس ہوتا ہے –

    اس سے یہ تاثر نام نہاد طالبان کے بارے میں پختہ ہورہا کہ ان کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں اور انہیں امریکہ و بھارت اسرائیل سمیت پاکستان دشمنوں سے سرمایہ ۔ تربیت۔ اسلحہ اور ھدایات ملتی ہیں تا کہ پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کو آگے بڑھایا جا سکے ، اور افغانستان میں مصروف بر سر پیکار اصل ظالبان کی تصویر اس قدر مسخ کر دے کائے کہ لوگ طالبان کے نام سے ہی چڑ جائیں۔ اور دنیا میں انصاف پسند تمام قومیں اور اور مسلمان عوام تبدیلی کے لئیے ۔ انصاف کے لئیے ۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر امریکہ اور اسکے حواریوں کو حتمی طور پہ اپنا آقا تسلیم کر لیں۔

    اور یہ صرف پاکستانی نام نہاد طالبان پہ ہی موقوف نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر سول سوسائٹی میں بھی اور پاکستانی حکومت میں بھی امریکہ اور اسکے ساتھیوں کے لئیے دیدہ دل فراش کرنے کے بہت سے لوگ بے قرار ہیں اور اکثر و بیشتر اسکے تنخواہ دار ہیں۔ اور یہ لوگ بھی اس آگ کو بھڑکانے اور اپس میں نفرت پیدا کرنے اور آگ پہ مزید تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں-

    پچھلے دنوں کھلونا بم سے بارہ کے لگ بھگ بچے شہید ہوئے۔ چند ہی گھنٹوں میں ہمارے مشیر اؤل وزیر بعد رحمان ملک کا یہ بیان تو سب نے پڑھا سنا دیکھا ہوگا ۔ کہ بقول موصوف کے یہ طالبان کی ظالمانہ کاروائی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ موصوف کے بارے میں بھی افواہیں ہیں کہ یہ پاکستان کے نہیں کسی اور کی پے لسٹ پہ ہیں ۔ بہر حال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں میں وزیر باتدبیر نے کیسے جان لیا کہ وہ طالبان ہی تھے ۔ جنہوں نے کھلونا بم بچوں کو دیا۔؟

    بیت اللہ مسعود کے بارے میں پاکستان کی ایجینسیاں متعدد بار امریکہ کو آگہ کر چکی ہیں اور امریکہ نے پاکستانی ایجنسیوں کی درخواست پہ بیت اللہ مسعود کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ۔ پاکستان کو مطلوب کسی بھی شدت پسند کے خلاف امریکہ نے کوئی کارائی نہیں کی۔

    اسی لئیے پاکستان امریکہ سے ڈارون طیارے مانگے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقوں میں خود کاوائی کرے گا ۔ اور یہ امریکہ کو منظور نہیں۔

    اگر اس ساری صورتحال کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی میں واقع کیمونسٹ ریڈیو کے تناظر میں دیکھا جائے تو سارا معاملہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں امریکن اور پاکستان دشمن اپنی اس مہم میں ضرورت سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں طالبان طالبان کا ڈھنڈورا اس قدر پیٹا گیا ہے اور اسقدر پیٹا جارہا ہے کہ عام آدمی طالبان اور افغانستان سے لاتعلق ہوتا جارہا ہے ۔ مگر اب لوگوں کو اس سارے کھیل کے باقی پوشیدہ اور خفیہ ھدایتکاروں کے چہرے نظر آنے لگے ہیں ۔ اور خود پاکستانی میڈیا نہ بھی نام نہاد طالبان کو طالبان یا پاکستانی طالبان کی بجائے شدت پسند کہنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے تاکہ افغانستان میں بر سر پیکار اصلی طالبان اور پاکستان میں غیروں کے تنخواہدار اور اشاروں پہ کام کرنے والے نام نہاد طالبان میں فرق روا رکھا جاسکے۔ اور اس اسے نام نہاد طالبان پاکستانی میڈیا سے اس بات پہ چیں بچیں بھی ہوئی ہے کہ انھیں طالبان سے یک دم شدت پسند کہوں لکھا اور کہنا شروع کر دیا گیا ہے۔

    طالبان یا ظالمان ۔؟ چہرے کھل رہے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کے تحت نئی قطار بندیاں ہو رہی ہیں۔

  3. نعمان

    آپ کی اس تحریر سے یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ آپ پاکستانی طالبان کے ہمدرد ہیں۔ لیکن سوات میں لڑکی کو درے مارے جانے کے واقعے کے بارے میں آپ نے جو کچھ کہا وہ درست نہیں۔

    تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ترجمان یہ قبول کرچکے ہیں کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔

    اس کے علاوہ عدالت عظمی میں لڑکی کا شوہر پیش ہوا ہے جس نے لڑکی کی طرف سے بیان داخل کرا ہے کہ اس کے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس علاقے میں اس نام کی ایک لڑکی موجود ہے اور آپ یقینا اس لڑکی سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ طالبان کے خلاف عدالت عظمی میں شکایت پیش کرے گی۔ آپ اس کے اور اس کے گھر والوں کے خوف کا اندازہ اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ آپ نے سوات کی سڑکوں پر مسخ شدہ لاشیں ٹنگی ہوئی نہیں دیکھیں۔

    مقامی میڈیا ایسی کئی رپورٹس شائع کرچکا ہے جن میں اس علاقے کے لوگوں نے ویڈیو کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔ اور اس بات کی بھی گواہی دی ہے کہ یہ اس قسم کو پہلا واقعہ نہیں ہے۔ فضل اللہ گروہ کے طالبان اس سے پہلے بھی خواتین کو کئی بار بند کمروں اور چند بار کھلے عام درے مار چکے ہیں۔

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    باقی باتیں چھوڑیئے ۔ معاملہ عدالتِ عظمٰی میں ہے جس نے دو ہفتے کا وقت دیا تھا اس کے حق میں یا خلاف ثبوت لانے کا ۔ حکومت کے کارندے نے اس کے خلاف ثبوت پیش کیا ۔ نام نہاد سول سوسائٹی کے کسی رہنما کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس وڈیو کے حق میں ثبوت تو کیا عدالت میں بیان ہی دے دیتا ۔
    نعمان صاحب آپ کو کراچی میں بیٹھے ہوئے وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو آپ کے خیال کے مطابق ہمیں نطر نہیں آتا ۔ اس پر میں سوائے مسکرانے کے اور کیا کر سکتا ہوں ۔ آپ کچھ وقت کیلئے اس لڑکی کی وڈیو کو ذہن سے اُتار کر میرے اُس جوابات پر توجہ دینے کی کوشس کیجئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کچھ بھی علم نہیں ہے کہ مالاکنڈ میں کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے ۔
    میں عنقریب اِن شاء اللہ پورے پاکستان کے پچھلے سال کے اعداد و شمار نقل کروں گا ۔ اُنہیں دیکھ کر بتایئے گا کہ ظُلم زیادہ سوات میں ہو رہا ہے یا پنجاب اور سندھ میں ؟

  5. راشد کامران

    نہایت ادب سے یہ عرض کرنی تھی کہ پاکستانی اور افغانی طالبان کی تفریق کا یہ سلسہ بھی شاید جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔۔ طالبان صرف طالبان ہیں‌ انہیں‌ پاکستانی اور افغانی کہہ کر ہم پھر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں‌ بالکل اسی طرح جس طرح ان لوگوں سے معاہدہ کرکے ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے اور جس کے نتائج اب ظاہر ہوگئے ہیں۔ افغانستان کے لوگوں کی تمام شکایات ان کے اپنے طالبان سے بالکل وہی ہیں جو پاکستانی لوگوں کی پاکستانی طالبان سے ہیں تو پھر تفریق کیسی؟۔ سرحد کی ان لوگوں کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور آزاد علاقوں کی آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا جہاں ہمارا کی عملی تصویر بنے ہوئے ان لوگوں‌ کو اب علاقائی بنیادوں پر بانٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

  6. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    کامران صاحب!

    آپ سے بحث نہیں۔ آپ کا طالبان وغیرہ کے بارے میں اپنا ایک نکتہ نظر ہے جو سب کے علم ہے۔ پھر بھی حجت تمام کے لئیے لکھ رہا ہوں۔ آپ کی کچھ باتوں سے ہمیں اتفاق نہیں۔ اور یہ نہیں کہ ہمیں طالبان سے غیر ضروری طور پہ ہمدردی ہو۔ مگر جو حقائق ہیں ان پہ بات ہوگی۔

    آپ نے فرمایا ہے۔

    ” افغانستان کے لوگوں کی تمام شکایات ان کے اپنے طالبان سے بالکل وہی ہیں جو پاکستانی لوگوں کی پاکستانی طالبان سے ہیں تو پھر تفریق کیسی؟۔”

    یہ بات درست نہیں۔ ظالبان سے قبل سویت یونین کی فوجوں کے اخراج کے بعد پورا افغانستان کئی حصوں اور وار لارڈز کے تحت بٹا ہوا تھا۔ جگہ جگہ بھتہ اور ٹیکس لیے جاتے۔ اور قابضین کی اخلاقی حالت نہائت انحطاط پزیر تھی۔ جو اپنے آپکو کہلواتے تو مجاہدین تھے۔ مگر انکے کرتُوت بدتر تھے۔ افغانستان کے قابلِ کاشت اسی فیصد رقبے پہ پوست کی فصل اگائی جاتی تھی۔ جو بعد میں افیون اور پھر ہیروئین میں میں تبدیل کی جاتی اور یہ زہر وہ نام نہاد مجاہدین سارے پاکستان ، یوروپ اور امریکہ سمیت ساری دنیا میں پھیلاتے طالبان نے کابل پہ اپنی حکومت بناتے ہی ان ساری خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ وہ اعداو شمار ہیں جو اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں محفوظ اور امریکہ کے تصدیق شدہ ہیں۔

    مگر اس بات کو زہن میں رکھنا پڑتا ہے کہ طالبان کو حکومت اور کاروبارِ حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اور افغانستان پچھلے بیس پچیس سالوں سے جنگ و جدل کا شکار تھا۔ بہت سے مسائل تھے۔ لاوارث بیوائیں تھیں۔ یتیم بچے تھے۔ دنیا بھر میں سے کسی کی کوئی حمایت یا مدد نہیں تھی۔ سوائے پاکستان۔ سعودی عرب اور غالباً عرباامارت کے علاوہ کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو اھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ کہ دوسرے ممالک سے معائدے ہوتے ۔ یا ملکی استحکام پیدا ہوتا ۔ زمیں یا تو پوست سے کاشت تھیں یا اناج و اجناس کے لئیے موزوں نہیں تھیں ۔ ہسپتالوں میں ادویات میسر نہیں تھیں۔ ڈاکٹر نہیں تھے ۔ ھزاروں زخمی اور لاکھوں معذور لوگ تھے ۔ افغانستان میں ہر طرف بارودی سرنگیں بچھی تھیں ۔ اور جنکا باقاعدہ کوئی نقشہ نہیں تھا۔جو لوگ نظام و نسق سبھالے ہوئے تھے ۔ وہ بجائے خود اپنے کئی عزیز جنگ میں گنوا چکے تھے اور ایک صبر آزما جنگ اور حالات سے گزر کر وہ کابل میں حکومت بناے میں کامیاب ہوئے تھے اور کوئی کسی علاقے کا تھا کوئی کسی علاقے کا ۔ اور وہ افغانستان تھا۔ دنیا کا غریب ترین اور پسماندہ ترین ۔ ایسا نہیں کہ وہ گوگل ارتھ سے اپنے گلی محلوں اور کھیت کھلیان کے بارے میں جان سکتے ۔ ہر ایک کام کے لئیے انھیں دوسروں پہ بھروسہ کرتے ہوئے ، خود ہر شئے جاننی پڑی۔کرنی پڑی اسمیں کوئی شک نہیں ان سےاکا دکا کام درست نہیں ہوئے ہونگے ۔ مگر بہ حثیت مجموعی طالبان کے آنے سے افغان باشندوں نے سکون کا سانس لیا۔اور اس بات کو آپ کے امریکہ نے بھی تب تسلیم کیا (تب امریکہ طالبان پہ بچھتا چلا جارہا تھا۔)

    طالبان کا اخلاق اتنا عمدہ تھا کہ اقتدار چھن جانے کے بعد ایک انگریز صحافی خاتون انکی قید میں آگئی۔ وہ خاتون قید کے دوران اُن بورا نشینوں کے اخلاق اور سلوک سے اس قدر متاثر ہوئی کہ کہ وہ مسلمان ہوگئیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا کے جامعہ ازہر قاہرہ کے چانسلر سے انھوں نے اس بنیاد پہ ھاتھ ملانے سے انکار دیا ۔ کہ ایسا کرنے سے اسلام نے منع کر رکھا ہے۔

    جبکہ دوسری طرف طالبان کے دشمن امریکہ کے ظرف کی داستانیں دشتِ لیلا۔ پل چرخی جیل افغانستان ۔ ابو غریب اور گوانتاناموبے تک آپ نے ہم نے سب نے دیکھ رکھیں ہیں ۔ امریکہ جو انسانی حقوق کے بارے میں دوسرے ممالک کے بارے میں ساللانہ کے بارے میں رپورٹس جاری کرتا ہے اور انسانی حقوق کے احترام کی بنیاد پہ دوسرے ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔ یہ ہے وہ منافقت جس نے بہت سے لوگوں کو خیرہ کرکھا ہے۔

  7. نعمان

    اگر ویڈیو بذات خود ثبوت نہیں تو اور کیا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے خصوصا تب جب علاقے کے لوگ طالبان کے خوف سے کچھ کہتے بھی ڈر رہے ہوں؟‌

    راشد ۔۔۔ پاکستان اور افغانی طالبان کی تفریق کا راگ اس لئے الاپا جاتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں کو آج بھی امید ہے کہ کل کلاں ناٹو افواج افغانستان سے رخصت ہونگی تو وہ افغانستان پر طالبان کی مدد سے حکمرانی کرسکیں گے۔

    افتخار اگر مظالم کی فہرست بنائیں تو ایک فہرست ان شہداء کی بھی بنائیں جو ملک بھر میں ہونے والے خودکش حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں سے اکثر خودکش حملوں کی بیت اللہ محسود مولانا فضل اللہ وغیرہ ذمہ داری قبول کرچکے ہیں۔

  8. گل خان

    اسلام وعلیکم۔

    بہت عمدہ تحریر ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔ جاوید گوندل صاحب کا تفصیلی تبصرہ بھی معلومات میں بہت اضافہ کرتاہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں اغیارکی سازشوں کوسمجھنے اور ان سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین۔

    نعمان صاحب، گستاخی معاف، لیکن جتنا میں جانتاہوں، افتخاراجمل صاحب کم ازکم آپ کے والد صاحب کی عمرکے ہونگے، اس لئے آپ کے تبصرے میں استعمال کیا گیاطرزتخاطب بلکل بھی مناسب نہیں لگتا۔

  9. راشد کامران

    جاوید صاحب تمام لوگوں کا یک نکتہ نظر ہے اور ہمارے نزدیک تو بہتر یہی ہے کہ جو درست سمجھتے ہیں اسکو ببانگ دہل بیان کرتے ہیں، صرف عقیدت یا نفرت کی بنیاد پر نہیں اور نہ ہی معذرت خواہانہ نظریہ ہے کہ مکمل طور پر سپورٹ بھی کریں اور یہ بھی کہیں کہ ہمدردی نہیں۔ تمام واقعات عین اسی طرح نہیں جیسے کہ بیان کیے جاتے ہیں۔۔صرف ایک یورپی خاتون کے قبول اسلام کو کب تک حجت کے طور پر پیش کریں گے۔۔باقی صحافی اور قیدی جو ان سے اتفاق نہیں کرتے انکی بات بھی کیوں نہیں مانی جاتی؟ کیا وہ واقعہ یاد نہیں جب تمام دنیا کی اپیلوں کے باجود بدھا کے مجسمے تباہ کر کے ایک مذہب کی مکمل توہین کی گئی؟ اور ان تمام غیر ملکی اور مقامی لوگوں کا کیا جن کے گلے کاٹے گئے اور جنہیں سزا دی گئی؟ اور دنیا کے بدنام زمانہ دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی؟ آپ لوگ تاریخ سے وہ واقعات کیوں نکال دیتے ہیں جو آپ کو معقول نہیں لگتے؟
    باقی رہا گوانتاناموبے ۔۔ تو ہمارے تقریبا تمام اسلامی ملکوں کی جیلیں گوانتانامو سے چند ہاتھ آگے ہی ہیں پہلے ہم اپنا گھر تو درست کریں۔۔ کم از کم امریکیوں نے درستگی کی طرف قدم تو اٹھایا ہے لیکن ہمارے یہاں تو غلطی کا ادراک ہی نہیں۔
    بہر حال یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث لگتی ہے۔۔ لیکن طالبان کو جب بھی موقع ملا انہوں نے گنوانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

  10. ڈفر

    انکل
    یوسف کزاب کے بارے میں اگر کچھ معلومات فراہم کر سکیں تو بہت مہربانی
    مجھے اس کے متعلق کچھ بھی نہیں پتا

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ کا مسلک بلکہ ضد ہے کہ آپ درست اور باقی سب غلط لیکن آپ کے علم کی حالت یہ ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ وڈیو اور تصویر قانونی طور پر قابلِ قبول دستاویزات نہیں ہیں ۔ کیونکہ انہیں اصل سے مُختلف کیا جا سکتا ہے ۔ اور یہ قانون نیا نہیں بنا کم از کم پچاس سال سے اس قانون کو میں جانتا ہوں ۔ یہ بات قانون بنانے والوں کے تو علم میں ہے مگر آپ کو کمپیوٹر کا ماہر ہوتے ہوئے معلوم نہیں ۔
    آپ کے ساتھ بحث کرنے اور صوفی محمد کے ساتھ بحث کرنے میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔
    اور یہ پاکستانی ایجنسیاں کیا آپ کے ساتھ روزانہ آ کر آپ کو اپنی خواہشات بتاتی ہین ؟
    آپ پہلے یہ تو ثابت کیجئے کہ ملک میں دھماکے کس نے کئے ۔ بیت اللہ محسود اور فضل اللہ کو میں نے کب اچھا کہا ہے ۔ اگر اُنہوں نے جرم قبول کیا ہے تو ان کو سزا دیجئے ۔ عام شہریوں کو کیوں ہلاک کر رہے ہیں ؟
    باقی ملک تو بعد کی بات ہے آپ پہلے یہ تو بتایئے کہ 11 نومبر ۔ 18 دسمبر اور 12 مئی کو کراچی میں قتلِ عام اور تشدد کس نے کیا اور کس نے کرایا ؟
    میرا خیال ہے کہ آپ کا تجربہ اور علم مجھ سے زیادہ ہے اور عمر شاید اسی سال یا زائد ہو گی اسی لئے آپ مجھے افتخار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ باتیں کرنا بہت آسان کام ہے لیکن علم کے ساتھ بات کرنا مشکل ہوتا ہے

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد صاحب
    افغانستان کے متعلق آپ کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں ۔ اگر افغانستان کے لوگ طالبان سے تنگ ہیں تو افغانستان پر حکومت نہ ہوتے ہوئے اور روزانہ طالبان پر نیٹو اور ان کی پروردہ افغان فوج کی یلغار اور طالبان کی بے سر و سامانی کے باوجود ستر فیصد علاقے پر عملی طور پر طالبان کا کنٹرول کیوں ہے ؟ اور طالبان کینکر قبل میں قائم وزارتوں پر حملے کرتے رہتے ہیں ؟ کیا عام افغانوں کی حمائت کے بغیر یہ ممکن ہے ؟
    صوفی محمد کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا طالبان کے ساتھ نہیں ۔ میں نے اس معاہدہ کی کبھی حمائت نہیں کی ۔ نہ تو صوفی محمد کا طالبان پر کنٹرول تھا یا ہے اور نہ معاہدہ جس کو بدنیتی کی بنا پر نفاذِ شریعت کا نام دیا گیا درست تھا

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    گل خان صاحب
    وعلیکم السلام و رحمة اللہ
    تبصرہ کا شکریہ ۔ اگر لوگ دین کو درست سمجھیں تو ایسی باتیں نہ لکھا کریں جن کی اُنہوں نے تصدیق نہیں کی ۔ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے
    ” کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ بات کو سُنے اور اس کی تصدیق کئے بغیر آگے بیان کر دے”

  14. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    آپ نے مخاطب تو جاوید گوندل صاحب کو کیا ہے ۔ میں پیشگی معافی کی درخواست کے ساتھ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بامیان میں بدھا کے مجسمے جو پہاڑ پر سنگ تراشی سے بنائے گئے تھے کو توڑنے کا محرک کیا تھا ؟
    از راہِ کرم یہ نہ کہیئے گا کہ طالبان کا کی جہالت یا غلط دینی رویہ تھا کیونکہ یہ صرف پروپیگنڈہ ہے اس کی حقیقی وجہ کچھ اور ہے ۔

  15. چوھدری حشمت

    دوستوں سلام۔
    اچھا موزوں تے اچھی بحث ہے۔ میرا اک سوال ہے کہ اسی اپنی خامیوں ، ناکامیوں تے کرتوتاں دا قصورآخر کب تک اپنے پیشروواں نے دینا ہے ، کب ساڈی عادت بدلنی ہے ۔ کیا اب بہت نہیں ہوگئی۔
    اندرا گاندھی نے سکھاں نو ماریا (انتہائی معذرت کے ساتھ مقصد اس مثال دا یہ ہے کہ وہ دونوں بھی تقریبآ ہم مذہب ہی سے، کم ازکم مسلمان دشمن ) لیکن کیا سکھ قوم صرف یہی پٹتی رہندی ہے کہ اندرا نے سانوں بے قصور ماریا۔
    خداکے لئے آج دے وچ جینا سکھو۔ توسی نوازے نو لاناہے، اونے بھی مک مکاؤ کرلیاہے، ڈیل ہوگئ ہے، جے تھوڑا انتظار کرلیندا تے چنگا سی ، مگر بے صبرا ہمیشہ جلدی وچ ہی رھندا ؤے ‘ اونے تے اپنے پیو دی نہیں مننی جے اس ویلے ہی من لیندا تے سانوں مشرف دی شکل ہی نہیں ویکھنی پیندی۔
    مگر افسوس کے ہم نہ آج میں رہتے ہیں اور نہ کل کی سونچتے ہیں۔ بس لکیر نو پٹدے رہندے ہیں۔
    آواب آج اورکل کی سونچتے ہیں۔
    1۔ ہمیں کس طرح کا کم از کم طالبانی نظام چا ہئے 1۔ افغانی طالبانی نظام 2۔ پاکستانی طالبانی نظام ۔
    2۔ نوازے نے سانوں کون سا دینا وے۔
    3۔ اگراس نے بھی انا دونوں وچ کسی کو نہیں انے دینا (جوکہ ڈیل دا حصہ ہے) تے فر آج دی مخالفت کیوں ۔
    ہاں اصل مسلہ ہے “اب میری باری ہے”۔ او کہہ رہے نے یار آدھی لے لے ۔ لیکن مینو تو بس پوری چاہدی ہے، جے دو دو مل جان تے اور چنگا ۔

    “اگر ویڈیو بذات خود ثبوت نہیں تو اور کیا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے خصوصا تب جب علاقے کے لوگ طالبان کے خوف سے کچھ کہتے بھی ڈر رہے ہوں؟‌”

    نعمان یار تواڈای کس نے مننی ہے۔ انا نو کہو کہ زرا کراچی وچ جا کر 12 مئی دا فیصلہ لے لن اگر نہیں لے سکتے تو اس دا مطلب یہ ہے کہ وہ ساری ویڈیو بھی جالی نے۔

    ساڈا تے مقصد اور پروپگنڈا صرف ایک ہی ہے ۔۔۔۔۔ ساڈی باری وچ انی دیر کیوں ، اسی بہت صبر کرلیا

    گوندل صاحب۔
    ایک مسجد میں ایک دفع میرا چند اصلی مجاہدوں سے واسطہ پڑا، ہم چند ہی لوگ تھے اس لئے ہم نے پوری توجہ سے ان کی بات سنی ‘ جہاد کے موزوں پر انہوں نے بے حد مدلل تقریرکہ میرے جذبات بھی گرما دیے ، تاہم میرے سوال کا انہوں نے جو جواب دیا وہ کچھ یوں تھا۔
    سوال تھا ” اس وقت تو ہمیں اپنے ملک میں ہی جہاد کرنے کی ضرورت نظرآتی ہے۔
    انکا جواب تھا کہ ” مسلمان حکمران کے خلاف اس وقت تک خروج نہیں جب تک وہ تمہں مسجد آنے سے نہ روکے۔”
    پتہ نہیں یہ کون سے مجاہد نے ، ہاں شاید یہ بدلے کی آگ یا شو آف پاؤر ہے کہ ” یہ ہمارا علاقہ ہے” یہاں ہمارا نظام چلتا ہے۔ عورتوں کو دبا کر رکھنے کا ، سود پر لین دین کا ، ھیرؤن اور اسلحہ بیچنے کا”
    گوندل صاحب واقعی یہ اصلی مجاہد نہیں، اصلی مجاہد کبھی کلمہ پڑھنے والے کی گردن نہیں کاٹے گا۔ وہ پھاڑوں میں کہیں کھو گئے ہیں یا پھر خاموشی سے اپنی جگھوں پر واپس چلے گئے ہیں۔
    افسوس تو یہ ہے کہ کل تک ہم اپنےمقاصد کے لیئے ان درندوں کی پیٹ تھپ تپاے رہے تھے “مگر اب ڈیل ہو گئی ہے ۔ کیونکہ ساڈی باری وچ انی دیر کیوں۔
    تھوڑا جیا ٹھنڈا کر کے کھا لیندے۔۔۔۔۔ ابھی تے سب تازہ ہی تازہ ہے ” مگر او نے تو ہمیشہ جلدی ہی کتی ہے۔ ویسے یہ بھی تے ہوسکنا وے کہ اس واری پکی ہووے۔ ” ڈیل” ۔

  16. ڈفر

    حشمت صاحب کے تبصرے کی سمجھ کم آئی لیکن سکھوں والی پنجابی پڑھ کر مزہ زیادہ آیا

  17. ڈفر

    اور سوری انکل جی
    تبصرے کی تدوین کا بہت بہت شکریہ
    نہیں تو اس تبصرے پہ ہی ٹھیک ٹھاک لے دے ہو جانی تھی
    اور میرا بلاگ ٹھہرتا ”کافرستان“۔ :mrgreen:

  18. راشد کامران

    اجمل صاحب۔۔ ہم نے جب یہ سوال نہیں‌پوچھا کہ مختلف لوگوں کی طرف سے اسلام اور رسول اللہ کی شان میں‌ گستاخی کا محرک کیا تھا ہم اسے ہر صورت غلط سمجھتے ہیں اسی طرح کسی بھی مذہب کی توہین کسی بھی وجہ سے کی گئی ہو بالکل غلط ہے۔ چاہے محرک کچھ بھی رہا ہو چاہے اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہ ملنے والی امداد سے جوڑا جائے۔ میں نہیں‌سمجھتا کسی بھی محرک کی وجہ سے آپ کسی دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو درست سمجھیں‌گے اور اس کے لیے بھی ہم دلائل اکھٹے کریں‌گے۔

  19. راشد کامران

    دوسری بات حقیقت پر مبنی نہ ہونے کی تو چلیں میں ایک مثال دیتا ہوں۔۔ پاکستان کے عوام کسی صورت زرداری سے خوش نہیں ۔۔ لیکن پھر بھی پورے پاکستان کا صدر ہے۔۔ بس اسی طرح‌ طالبان بھی 70 فیصد علاقے پر قابض ہیں۔۔ سعودی دولت اور پاکستانی فوج کی سپورٹ‌ بھی فراموش نہ کیجیے گا جو طالبان کی اصل قوت ہے یا ہوسکتا ہے یہ بھی غیر حقیقی بیان ہو۔

  20. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم کامران ‌صاحب!
    واللہ میں حیران ہوں آپ ماشاءاللہ علم رکھتے ہوئے بھی امریکن حمایت اور مسلم مخالفت پہ کیوں ضد کرتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی دلیل کے ۔ آپ موضوع سے ہٹ کر محض مسلم دنیا کو کم تر اور کم تہذیب کے امریکی خناس کو جائز ثابت کرنے کے لئیے ۔ امریکی ریگولر آرمی کے ہاتھوں عراق میں ابو غریب جیل میں مظلوم سول شہریوں پہ ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم اور گوانتانوموبے امریکن آرمی کے ہاتھوں تڑپتے سسکتے انسانوں پہ ایک سے بڑھ کر ایک اور نئی سے نئی ظلم و ستم کی تکنیک آزمانے والوں کا بے جا طور پہ دفاع کرنے کے لئیے آپ محض مسلم دنیا کی جیلوں کو نفرین کر نے پہ اکتفاء کرتے ہیں۔

    آئیے ، پہلے آپ کے اس نکتے پہ بات ہوجائے۔
    آپ مسلم دنیا میں کوئی ایک جیل بتادیں جہاں بغیر کسی مقدمے کے زندہ انسانوں کو سالوں کے حساب سے پنجروں میں رکھا گیا ہو۔؟ جہاںمحض مجبور قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لئیے ۔ قرآنِ پاک کو نعوذ بااللہ ٹوائلٹ میں پھینکا گیا ہو ۔ مسلمانوں کی مذہبی کتاب کی ایک بار نہیں بارہابار توہین کی گئی ہو۔؟ میں آپ کو چیلنج سے کہتا ہوں کہ آپ مسلم دنیا سے قرآن پاک تو کیا بائبل ۔تورات یا کسی بھی غیر الہامی مذہب جیسے ھندوؤ وغیرہ کی کتابوں کو کسی بھی مسلمان جیل میں اس میں قید غیر مسلم قیدیوں کو محض ذہنی ازیت دینے کے لئیے ۔ انکی مذھبی کتاب کی توہین کئی گئی ہو۔ آپ ایک واقعہ ثابت نہیں کر سکتے۔

    آپ کوئی ایک مسلم دنیا کی جیل ثابت کر دیں جہاں پہ انسانوں کے ناک کان اور منہ پہ حلق کے اندر تک سخت پلاسٹک کے ماسک چڑھا کر انکے بازو کمر کے پیچھے باندھ کے اور پاؤں باندھ کر انھیں رکوع کی شکل میں دنوں نہیں مہینوں کے حساب سے رکھا گیا ہو۔؟

    مجبور قیدیوں پہ ہر قسم کا تشدد کرنے کے بعد انھیں ننگ دھڑنگ کر کے اُن پہ کتے چھوڑے گئے ہوں۔ انک شرمگاہوں پہ محض جنسی تسکین کے لئیے بجلی کے جھٹکے دئیے ہوں ۔؟ ذہنی طور پہ جنسی مریضوں نے ان کی ویڈیوز اور تصوریں بنا کر ان سے جنسی خط اٹھائے ہوں۔؟

    اور پھر بھی اگر آپ اصرار کرتے ہیں کہ مسلمان دنیا کی جیلوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہت تو کیا اس سے اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چئمپین کہلوانے والے امریکہ کو ابو غریب اور گونتاناموبے وغیرہ جیسی جیلیوں میں مسلمانوں پہ انسانیت سوز مظالم کا حق مل جاتا ہے ۔؟

    کیا یہ ہے وہ سپر پاور تہزیب جس کا آپ بے جا طور پہ مسلمانوں کے جزبات احساس کئیے بغیر دفاع کر رہے ہیں۔

    اور بہت کچھ جو آپ ضد کریں گے تو بمع لنک بیجھ دونگا تا کہ پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں کہ ہمیں کم تہذیب یافتہ ہونے کا طعنہ دینے والے کس طرح کی بربریت کے خوگر ہیں۔ اور کونسی تہذیب کی بات کرتے ہیں ۔

    اگر کسی مسلم معاشرے میں اسطرح کیا گیا ہوتا تو کامران صاحب آپکو آئیندہ کئی سالوں نہیں بلکہ صدیوں جتلا جتلا کر وحشی اور درندہ صفت ہونے کے طعنے دیے جاتے۔

    کامران صاحب! اب تو فطرت سلیم کے مالک امریکن بھی یہ تسلیم کرنے پہ تیار ہیں کہ گوآنتانوموبے اور ابو غریب اور بے شمار ۔ان گنت دوسری جیلوں میں نہتے اور بے قصور مسلمانوں پہ راو رکھے گئے ظلم ہمارے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔

    آپ رقمطراز ہیں۔
    “کم از کم امریکیوں نے درستگی کی طرف قدم تو اٹھایا ہے لیکن ہمارے یہاں تو غلطی کا ادراک ہی نہیں۔”

    محترم! اگر اس جملے میں ۔ ۔ ہمارے۔ ۔ اور۔ ۔ ہم۔ ۔ سے مراد پاکستانی اور مسلمان قومیں ہیں تو میں آپ کے درد کو سجھتا ہوں کہ آپ کا اور میری اور باقی پاکستانی بھائیوں کا درد مشترک ہے ۔ اظہار کے طریقے میں فرق ہو سکتا ہے مگر نیٹ میں فرق نہیں ہونا چاہئیے۔ آپ بجا طور پہ کہتے ہیں اور امید باندھتے ہیں کہ کم از کم امریکیوں نے درستگی کی طرف قدم تو اٹھایا ہے لیکن ہمارے یہاں تو غلطی کا ادراک ہی نہیں۔

    مگر آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ادارک۔ فہم۔ دانش۔ سوچ۔ منصوبہ بندی۔ تحقیق۔ اور ترقی وغیرہ کے لئیے کسی بھی سوسائٹی میں استحکام کا ہونا ضروری ہے ۔اور پاکستان اور مسلم دشمن طاقتوں کی یہ بھی کامیابی ہے کہ انھوں نے مسلم دنیا میں کہیں بھی استحکام میسر نہیں آنے دیا اور یہ سلسلہ آنے بہانے سے ۔الفاظ اور معائدوں ۔ سمجھوتوں۔ قبضوں ۔ نوآبادیات۔ فوجی چڑھائیوں۔ ڈکٹیٹروں ۔ بادشاہوں وغیرہ سے پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ایسے میں جب ایک پورا معاشرہ جیسے آجکل پاکستان میں حالات ہیں اس طرح کے عدم استحکام کے شکار معاشروں میں بودے حکمرانوں ۔ کرپٹ بیورو کریسی ۔ مفاد پرست سیاسی ٹولے اور دیگر عوامل کے ہوتے ہوئے کون اور کیسے درست سمت میں قدم اٹھائے ۔؟

    آپ گویا ہیں۔۔
    اور دنیا کے بدنام زمانہ دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی؟ آپ لوگ تاریخ سے وہ واقعات کیوں نکال دیتے ہیں جو آپ کو معقول نہیں لگتے؟۔

    محترم!
    بدنام زمانہ ہشت گردوں سے مراد آپ غالباً افغانستان میں موجود القاعدہ کے لوگ اور اسامہ بن لادن وغیرہ کو لیتے ہی وغیرہ کو لیتے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں یہ سوال تو آپ کو اسٹیٹ دپارٹمنٹ یا بدنام زمانہ امریکن سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے سے کرنا چاہئیے کہ آخر کار سی آئے اے اس دہشت گرد گروپ کی خالق ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جن بوتل سے باہر نکل کر آزاد اور خود مختیار ہو گیا ہے اور اور بندر کی بلا طویلے کے سر القاعدہ کر قلع قمع بھی پاکستان کے سر ڈال دیا گیا ہے ۔ آپ کی علم میں بھی ہوگا اور باقی پڑھنے والوں کے لئیے بھی یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ امریکہ کے ٹوئن ٹاورز کے نائن الیون کے گرائے جانے والے واقعے میں ( اور اس واقعے کی کی ہم مذمت کرتے ہیں) اسکے مقدمے میں اسامہ بن لادن وغیرہ کو سرے سے ملزم ہی نامزد نہیں کیا گیا ۔ تو پھر اس کے نام سے پاکستان کو کیوں سزاوار ٹہرایا جارہا ہے۔؟ آپ نے بغیر کسی دلیل یا حقیقت کے بڑی آسانی سے اس کا ذمدار بھی افغانوں کو ٹہرایا ہے جب کہ اس دور کی ان کی قیادت نے بارہا امریکہ سے ثبوت مانگے جو کہ آخری وقت تک انھیں مہیا نہیں کئیے گئے۔اور طالبان کا تورابورا کر دیا گیا-

    برسبیلِ تذکرہ چونکہ آپ نے دہشت گردی کی بات کی ہے۔ تو یہ بات بھی آپ کے علم میں رہی ہوگی کہ دہشت گردی بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ذہنی اور جسمانی ۔ انفرادی۔ مجموعی اور بعض صورتوں میں قومی۔ اور بحثیت مسلمان اور مسلمانوں کے مزاج اور مذھب کو سمجھتے ہوئے آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مسلمان اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق دنیا بھر کے مسلمان آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کی ہر چیز ہر رشتے حتٰی کہ ماں باپ اور اولاد سے بھی بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں ۔ اور یہ بات نا صرف آپ میں اور مسلمان سمجھتے ہیں ، بلکہ غیر مسلم اور خاصکر امریکہ وغیرہ میں وہ لوگ جو مسلمان ممالک سے معاملات کرتے ہیں ۔ وہ نہ صرف اس بات کو جاتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کوئی بات کی جائے تو مسلمان ہر حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح مغرب امریکہ میں امریکن کے مزاج میں فیملی سے مراد اسکے بچے اور بیوی ہوتی یا خاوند ہوتا ہے اور قانوناں اسے ہی ان کا جائز وارث اور نگہبان سمجھا جاتا ہے اسے طرح مسلمان کی اٹھان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الفت پہ ہوتی ہے۔ اس ساری تہمید کا مقصد یہ ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رشدی شیطانی آیات نامی ناول لکھا اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسقدر مسابقت ایک اتفاقی امر نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی گندی اور گھناؤنی سازش تھی۔ اور رشدی اس سازش کا وسلیہ بنا ۔ آپ کے خیال میں کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی کو مسلسل ذہنی عزاب دیا گیا۔؟اور جب اس پہ مسلم دنیا کا اسقدر ردِعمل سامنے آیا تو چلیں اور کچھ نہیں آجکل رشدی امریکہ میں امریکن حفاظت میں ہے ۔ امریکہ مسلمانوں کے شدید جذبات مجروح ہونے کی وجہ سے جو رژدی نے دیدہ و دانستہ کیے ، کم از کم رشدی ہ یہ تو پابندی لگا سکتا تھا کہ وہ میڈیا میں آ کر مسلمان دنیا کے جذبات کو مذید مجروح مت کرے ۔ اور مسلم دنیا اور مغرب میں بڑھتی ہوئی خلیج جس کا امریکہ بھی ڈھنڈورا پیٹتا ہے ۔ اس خلیج میں اضافے کا باعث نہ بنے۔ مگر نہیں ۔ محترم رشدی کو تو آنے بہانے سے نت نئے انعامات و تغمات سے نوازہ جاتا ہے اور قسم کے میڈیا پہ اسے پیش کیا جاتا ہے اس کی زبانی مسلمانوں کی مزید تحضیک کی جاتی ہے ، کیا یہ دہشت گردی اور منافقت کے ذمرے میں نہیں آتا ۔

    کامران صاحب! آپ نے منافقت کی بھی خوب کہی ۔ اگر آپ کو علم نہ ہو تو یہ ہوتی ہے وہ منافقت ، کہ دنیا بھر کے جعلی اور میڈ ان امریکہ ثبوتوں سے عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لاکھوں عوام کو محض اس لئیے نیست و نابود کر دیا کہ وہ ایک عام عراقی۔ افغانی۔ یا پاکستانی مسلمان تھے اور ان کے ممالک یا انکی حکومتیں امریکن مفادات کی تکمیل کے رستے میں حائل تھیں ۔ نیز پاکستان پہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ مسلط کر دی ۔جس میں سینکڑوں کے حساب سے پاکستانی روز قتل ہوتے ہیں ۔ مار دیے جاتے ہیں۔ کبھی نام نہاد طالبان کے ہاتھوں جو بجائے خود انھی امریکہ بھارت او اسرائیل کے گھٹ جوڑ سرمائے اسلحے اور تربیت سے امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر وجود میں آئے ہیں ۔پاکستان میں روز مارے جانے والے بے قصور خواہ وہ فوج کے ھاتھوں مریں یا شر پسندوں کے ہاتھوں ۔ جن کے یتیم بچے ۔ بیوائیں۔ بوڑھے اور بے سہارا ماں باپ اور لاکھوں پاکستانی اپنی ہی زمیں پہ پناہ گزین ۔ یہ سب کیوں ۔؟

    کیونکہ امریکہ جس کی بے جا حمایت میں آپ بری طرح سے رطب السان ہیں ۔ اس امریکہ کی انا کی تسکین کے لئیے کہ وہ طاقتور اور پاکستانی محض کمزور ہیں صرف اس لئیے؟ آپ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں کہ ہر روز جو سینکڑوں پاکستانی، امریکن پالسیز اور امریکن مفادات کی امریکن گریٹ گیم کی وجہ سے بلا جواز مار دیے جاتے ہیں۔ ان کا دسواں حصہ خدا ناخواستہ (خدا نا خواستہ اس لئیے کہ ہر مسلمان بے جا قتل و غارت کی مذمت کرتا ہے) امریکہ میں روز مارے جاتے آپ تصور کریں کہ امریکن سنیٹرز اور میڈیا جس کا لنک ( پاکستان اسلام مخالف سی این این کا ایک لنک پاکستانیوں کو مایوس کرنے کے لئیے آپ نے بھی اپنے بلاگ پہ لگا رکھا ہے ۔ جس سے پتہ نہیں آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں) کیا یہ امریکن میڈیا اور سنیٹرز اتنے ہی اطمینان سے پاکستان میں ہر روز ہونے والے سینکڑوں اموات پہ یوں ہی پاکستان سے مذید مطالبات کرتا ۔؟ اور پچھلے ساٹھ باسٹھ سالوں سے اپنے حواری اور چمچے چیلے پاکستان پہ مسلط کر کے آپ کے ذریعئیے پاکستانی مسلمانوں کے ان کردہ اور ناکردہ گناہوں کی بھی جواب طلبی ۔ جو امریکہ کی مرضی اور منشاء سے انہی کے مسلط کردہ حکمرانوں نے کئیے۔

    میں نے ہر پاکستانی کو یہی تلقین کی ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں اس سے وفاداری کریں بلکہ وفاداری ثابت کریں اور اس کے قانون اور ظابطوں کی پابندی کریں ۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ مجھے یا عام پاکستانی کو امریکہ کے عوام سے کوئی خار نہیں، اور ہم دنیا بھر کے عوام کے خیر خواہ ہیں ہمارا مطالبہ صرف اتنا سا ہے کہ جسظرح امریکہ کے عوام اپنی ننیند سوتے ہیں ۔ امریکہ باقی ممالک اور خاصکر پاکستان کے عوام کو بھی اپنی زندگی جینے دے ۔ آپکی ایک بات کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ آپ نے امریکن پاکستانی ہونے کے ناطے اپنا حقِ نمک خوب ادا کیا ہے ۔ مگر محترم سچ بات کہنے کی آزادی تو آپکو امریکن قانون نے بھی دے رکھی ہے اور بہت سے فطرتِ سلیم کے مالک امریکن اپنی حکومت کو بے طرح سناتے بھی رہتے ہیں پھر سچ بات کہنے پہ پس و پیش۔ پہ آپ کا یہ خوف سمجھ سے بالاتر ہے۔

  21. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم کامران صاحب
    رشدی کو تو آنے بہانے سے نت نئے انعامات و تغمات سے نوازہ جاتا ہے اور قسم کے میڈیا پہ اسے پیش کیا جاتا ہے اس کی زبانی مسلمانوں کی مزید تحضیک کی جاتی ہے ، کیا یہ دہشت گردی اور منافقت کے ذمرے میں نہیں آتا ۔

  22. نعمان

    افتخار اور گل خان، میں آپ کو کبھی کبھی افتخار صاحب اور جناب وغیرہ کے ساتھ بھی مخاطب کرتا ہوں۔ آپ کو محض نام سے بلانے کی وجہ میرا تبصرہ جات لکھنے کا انداز ہے جس میں اپنے تبصرے سے پہلے مخاطب کا نام لگاتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ محض نام سے کسی کو مخاطب کرنے سے بدتمیزی یا بدتہذیبی کا کیا پہلو نکلتا ہے؟

    افتخار اعلی عدالتوں میں ویڈیو ایک قانونی ثبوت مانا جاتا ہے۔اس کے جعلی یا مستند ہونے کا جائزہ لینے کے لئے عدالتیں ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ اور یہ طریقہ کار دنیا بھر کی عدالتوں میں اپنایا جاتا ہے۔ چونکہ اس کیس میں شکایت کنندہ کوئی نہیں اور حکومت خود صفائی پیش کرنے ہوئی تھی۔ اس لئے حکومت کو عدالت کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ ویڈیو جعلی ہے اور اعلی عدالت کو اس کی تحقیق کا حکم جاری کرنا چاہئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ویڈیو کا جعلی ہونا تصدیق شدہ بات نہیں۔

    دوسری بات، اگر ایک یہ ویڈیو جعلی ہے تو آپ ان بیانات کا کیا کہیں گے جن میں کئی اور عورتوں کو بند کمروں اور کھلے میدانوں میں زدوکوب کرنے اور سزائیں دینے کا اعتراف کیا گیا تھا؟

    آپ کراچی کے ان دنوں کا حساب یقینا مجھ سے زیادہ رکھتے ہیں۔ اور جیسا کہ لوگ آپ سے فرمائشیں کررہے ہیں۔ تو میری بھی اس فرمائش پر غور فرمائیں اور ذرا طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد کا ایک جائزہ تو پیش کریں۔ ان میں ان بے گناہ پاکستانیوں کو بھی شامل کریں جو ان کے خود کش حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور ان پاکستانیوں کو بھی جو پاک فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے، اور ان پاکستانیوں کی تعداد کا بھی ذکر کریں جنہیں صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات میں بے رحمی سے ذبح کیا گیا ہے۔

  23. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    بصدِ احترام عرض ہے میرے خیال میں نعمان صاحب نے جناب اجمل صاحب کے احترام میں کمی نہیں کی بلکہ بلاگر ہونے کے ناطے ایک کولیگ کا سا انداز اپنایا ہے ۔ بعین اسی طرح جس طرح ٹی وی کے کچھ اینکر مین اپنے مہمانوں سے ایک خاص طرح کی بے تکلفی برت کر ماحول کا تناؤ کم کرتے ہیں۔

  24. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    نعمان صاحب!
    بحث سے قطع نظر۔
    ویسے تو اس بارے میں کوئی ماہر قانون ہی روشنی ڈال سکتا ہے ۔ مگر میری ذاتی رائے میں اس طرح کے بلکہ کسی بھی قسم کے ویڈیو، آوڈیو اور تصاویر عدالتوں میں ثبوت نہیں مانی جاتیں۔ عدالت کسی کا فون ریکارڈ کرنے کی اجازت یا مووی وغیرہ بناے کی اجازت تو کبھی کبھار پولیس کے محکمے کو دیتی ہے تا کہ تفتیش میں مدد مل سکے مگر اُن ویڈیو۔ آوڈیو۔ تصاویر کو ثبوت تسلیم نہیں کرتی۔ اور محض ویڈیو ، آڈیو یا تصاویر یا تین کے ہونے پہ کسی کو سزا نہیں سناتی۔ اور کم بیش یہ صورت حال سب ممالک میں ہے۔ البتہ استغاثہ کی ہر صورت یہ کوشش ہوتی ہے باوجود اس کے کہ عدالت یا جیوری ایسے ثبوتوں کو تسلیم نہ کرے مگر اسغاثہ اس طرح کے ثبوت پیش کر کےعدالت یا جیوری پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور فیصلہ اپنے حق میں لینے کی کوشش کرتا ہے ۔ کہ آخر کار جیوری اور جج بھی انسان ہوتے ہیں۔اور یہ کرمنل کیسیز کی بات ہے

    ھتکِ عزت یا سول دیوانی کیسز میں بھی عدالت ویڈیوز وغیرہ کے علاوہ دوسرے ثبوت اور شواہد مانگتی ہے ۔ جس سے واقعے کی سچائی کا علم ہو سکے۔ اور جرم کو ثابت کرسکیں

  25. راشد کامران

    جاوید صاحب۔۔ اگر اپنی برائیوں کی پہچان کرانے اور پہلے ان پر توجہ دے کر اپنا گھر درست کرنے کو آپ مخالفت کہتے ہیں تو ٹھیک ہے آپ سے مخالفت کہیں، یا امریکی ایجنٹی لیکن میرا موقف یہی ہے کہ جب تک ہم اپنی برائیاں دور نہ کرلیں ہمیں دوسروں کو تلقین کرنے کا حق بھی نہیں‌ پہنچتا کیونکہ اس طرح ہم اپنا کیس صرف کمزور کرتے ہیں۔۔ امریکی اور دوسرا کوئی بھی ملک جو بھی کام کرے گا اپنے ملک کی بہتری کے لیے کرے گا۔۔ یہ تو ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے ملک کا بہتر سوچیں نہ کے امریکیوں‌ کا کہ وہ ہمارے لیے بہتر سوچیں۔۔ اس میں مسلم مخالفت کا پہلو کہاں سے نکل آیا یہ میری سمجھ سے باہر ہے؟‌ اور سی این این کے لنک والی پوسٹ آپ نے غالبا پڑھی نہیں صرف لنک دیکھ کر اعتراض کردیا ہے اس پیغام کو دیکھے بنا جو اس بلاگ میں دیا گیا ہے۔۔ سلمان رشدی کے لیے تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی دین کی تضحیک کا حق کسی کو بھی نہیں‌ لیکن سوال پھر وہی آتا ہے کہ جب ہم دوسرے دین کی تضحیک کرتے ہیں تو اپنے اوپر اسے کیسے حلال کرلیتے ہیں‌اور اس کے جواز ڈھونڈتے ہیں؟ اور یہ یہودی اور بھارتی سرمائے سے وجود آنے والے طالبان کی خوب کہی۔۔ اس تھیوری کو فیل ہوئے زمانہ گزر گیا۔۔ آگ گھر تک آگئی لیکن آپ لوگ ابھی تک دست نادیدہ کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔

    اجمل صاحب نہایت معذرت کے بلاگ کے موضوع سے بات کہیں ادھر ادھر ہوگئی لیکن بہتر ہے کہ اسطرح کی باتیں تہذیب کے دائرے میں ہوتی رہیں، امید ہے آپ س بات سے اتفاق کریں‌گے۔۔

  26. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم راشد کامران صاحب !
    میں آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی برائیاں دور کرنی چاھئیں ۔ اور اس لئیے نہیں کہ ہم پھر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا سکیں ۔ بلکہ اسلئیے اپنی برائیاں دور کرنی چاھئیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ برائی کریں اور پھر اس پہ اینٹھتے پھریں۔

    آپ کے بلاگ پہلے بھی پڑھتا رہتا ہوں اور اس دفعہ بھی پڑھا ہے اور یقین مانیں آپ کے نکتہ نظر سے اختلاف رائے سے قطع نظر میں آپ کی درست نیت پہ شک نہیں کرتا۔ اور سی این این کی کے پیج پہ مختلف لوگوں کی رائے تک پڑھی ہے اور اس میں ایک پاکستانی امریکن کی رائے بھی موجود ہے ۔

    کامران صاحب! غلطی مجھ سے بھی ہوسکتی ہے بلکہ اکثرو بیشتر ہوتی رہتی ہیں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان مخالفف پروپگنڈا جس قدر بڑھے اسی طرح ہم سب کو مل کر اپنے لوگوں کو ہمت اعتماد کا پیغام دینا چاھئیے ، کیونکہ مایوسی میں گھری قومیں سب کچھ ھونے کے باوجود تاریخ میں گُم ہوجاتی ہیں۔

    ھمیں بہ حثیت قوم آج مسائل ضرور ہیں مگر انشاءاللہ پاکستان اس دورِ ابتلاء سے نکل آئے گا ۔ اور ضروری نہیں کہ پاکستان کے حکمران ہی ہوں جو یہ کوشش کریں ۔یہ ہم بھی سب مل جل کر کر سکتے ہیں ۔

    اس لئیے جب موازنے کی بات آتی ہے تو میں دعواے سے لکھتا ہوں کہ ہم میں کسی بھی قوم کے مقابلے میں کوئی چیز کم نہیں ۔ اس لئیے پھر مایوسی کیسی۔؟
    بس اتنا سا ہی میرا اور میری رائے میں باقی سب لوگوں کا منشاء ہے

  27. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    بامیان کے بعوں کے پاس جاہل افغان مسلمان جا کر منتیں مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے ۔ اسلئے اُنہیں توڑا گیا تھا ۔
    طالبان کے معاملہ میں ہو سکتا ہے آپ درست کہتے ہوں میرے علم میں نہیں اسلئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ویسے طالبان کی مالی امداد سعودی عرب کیسے کرتا جبکہ اُنہوں نے سعودی عرب کے باغی اُسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی ؟ جو بات میرے علم میں ہے یہ ہے کہ گلبدین حکمت یار کو سعودی عرب امداد دیتا تھا جس نے سوویئٹ یونین کے خلاف جنگ لڑی تھی ۔ ایک بات جو آپ بھی ذہن میں رکھیں یہ ہے کہ طالبان کو امریکہ مارنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کر رہا ہے اور پاکستان کو بھی دیتا آ رہا ہے ۔ طالبان کو پاکستانی فوج کی سپورٹ 2001ء کے بعد ختم ہو گئی تھی ۔ اگر سپورٹ ہوتی تو امریکہ یا اُس کے اتحادی افغانستان میں ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتے تھے

  28. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    میں آپ کا مشکور ہوں کہ میری بجائے آپ محنت کر کے جواب لکھ رہے ہیں ۔ جزاک اللہ خیرٌ ۔ میں دو ہفتوں سے کافی مصروف رہا ہوں اور ابھی کچھ دن اور ایسا ہی رہے گا ۔ اگر آپ جواب نہ دیتے تو میں شاید مزید ایک ہفتہ بعد لکھتا

  29. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ کے طرز تخاطب کا جواز میری سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ پاکستان تو کُجا ایسا امریکہ ۔ یورپ ۔ افریقا اور عرب میں بھی نہیں ہوتا ۔ وہ بھی مسٹر یا سیّد یعنی جناب یا عمی یعنی چچا یا عم الحاج وغیرہ ساتھ لگاتے ہیں اگر عمروں میں کافی فرق ہو ۔
    عدالتِ عظمٰی کے جج سے آپ زیادہ جانتے ہوں گے میں تو اُن کی برابری کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اگر وڈیو درست ہے تو عدالت جس نے ازخود نوٹس لیا تھا وہ فیصلے کی مجاز ہے آپ یا میں نہیں ۔ از خود نوٹس لینے کی وجہ سے ہی مدعی کوئی نہیں ہے ۔ یہی تو میرا سوال تھا کہ جن لوگوں نے وڈیو کو اُچھالا تھا وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے ۔ آپ بات کو سمجھنے کی بجائے رٹ لگائے ہوئے ہیں مرغے کی ایک ٹانگ والی ۔
    کراچی کا حساب رکھنا الگ بات ہے اور مجرم کی نشان دہی الگ ۔ میں نے آپ سے مجرم کی نشاندہی کا اسلئے کہا تھا کہ معلوم ہو کہ قاتل کون ہے ۔ جہاں تک نام نہاد پاکستانی طالبان کا تعلق ہے میں کئی ماہ پہلے اُن کے متعلق لکھ چکا ہوں اور میں نے کبھی اُن کی حمائت نہیں کی ۔ بُرا عمل یہ ہے کہ ہر برائی کو طالبان کے کھتے میں ڈال کر لمبی تان کے سو جاؤ ۔ ہمارے ملک میں یہی ہوتا آ رہا تھا ۔ جن کو پاکستانی طالبان کہا جا رہا ہے اُن کی کہانی میں نے حال میں بھی لکھ دی ہے جس کے بعد بحث کی گنجائش نہیں رہتی

  30. کاشف

    مسلمان زندہ آباد
    پاکستان زندہ آباد

    شیطان کا جو یار ہےغدار ہے غدار ہے

    کیا حال چال ہے بھائی جی؟

  31. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم اجمل صاحب!
    اس میں شکریے کی کوئی بات نہیں یہ تو ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنے اپنے نکتہ ِ نظر کے ساتھ ساتھ ۔ دیانتداری سے۔اپنی معلومات اور خیالات سے ایک صحت مند مباحثے سے عام قارئین کی معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان میں برداشت۔ تحمل۔ اور صلح جوئی سے مختلف نکتہِ نظر سننے اور بیان کرنے کی ریت ڈال سکیں۔ اور ایک اچھی روایت کا آغاز ہو۔ اور ماشاءاللہ آپ کے بلاگ پہ آپکی یہ ایک اچھی کاوش ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.