درندے کہاں کہاں

میں نہیں کہتا کہ مالاکنڈ [سوات اسی میں ہے] میں ظُلم نہیں ہوا ۔ ظُلم ہوا مگر اسے اُچھالنے اور ایک خاص گروہ کو وحشی اور درندے کہنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اُن کے اپنے ہاں کیا ہو رہا ہے ۔ کیا اُن کے خلاف بھی وہ اسی طرح پروپیگنڈا کرتے ہیں اور حکومت کو کہتے ہیں کہ اُن پر فوجی کاروائی کر کے اُنہیں نیست و نابود کر دو ؟ نہیں ایسا وہ کیوں کرنے لگے وہ تو بڑے لوگ ہیں اسلئے اُنہیں تو غریبوں پر ظُلم کا حق پہنچتا ہے ۔

نیچے سال 2008ء کی عورت فاؤنڈیشن کی تیار کردہ رپورٹ سے اعداد و شمار نقل کر رہا ہوں ۔ اسے پڑھ کر دیکھیئے کہ وحشی یا درندے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار صرف عورتوں پر ظُلم و تشدد کے ہیں اور ان میں وہ واقعات شامل نہیں ہیں جو کسی کے اثر و رسُوخ یا ڈر کی وجہ سے رجسٹر نہیں کئے گئے اور اخبارات نے بھی اپنی خیر منانے میں بھلی سمجھی

۔ ۔ ۔ ۔ جُرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام آباد ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ سرحد ۔ بلوچستان

قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 690 ۔ ۔ ۔ 288 ۔ ۔ ۔ 404 ۔ ۔ ۔ 115
قتل غیرت کے نام پر ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 91 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 220 ۔ ۔ ۔۔ 32 ۔ ۔ ۔۔ 127
اقدامِ قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 29۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 45
اغواء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1403۔ ۔ ۔ 160 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 71 ۔ ۔ ۔ ۔ 52
جسمانی ایذا رسانی ۔ 11 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 279 ۔ ۔۔ ۔ 97 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 193 ۔ ۔۔ 264
گھریلو تشدد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 67 ۔ ۔ ۔۔ ۔ 98 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 113 ۔ ۔ ۔ 34
خود کُشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 349 ۔ ۔۔ ۔ 144 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ۔ ۔ ۔۔ 18
زنا بالجبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 316 ۔ ۔ ۔ ۔ 80 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ 10
اجتماعی زنا بالجبر ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 248 ۔ ۔ ۔ ۔ 50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3
جنسی سراسیمگی ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 128 ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 12 ۔ ۔ ۔۔ 3
حراست میں تشدد ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 69 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

This entry was posted in تجزیہ, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

13 thoughts on “درندے کہاں کہاں

  1. منیر عباسی

    اپنے گریبان میں جھانکنے کی روایت ابھی ایجاد نہیں ہوئی ہمارے ہاں ۔۔۔

    پس نوشت: بلاگ رول میں ربط شامل کرنے کا شکریہ۔ :grin:

  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    یہ اس ظلم وستم کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔ اور یہ اعدادو شمار اصل صورتحال پہ بہت کم روشنی ڈالتے ہیں- جرائم اس سے کئی گنا زاءد ہوتے ہیں۔
    ہمارا سماجی تمدن اور پولیس کا خباثتی رویہ ۔ عام شہری کو تھانے کے نذدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ وہ بیچ بازار میں لٹ جانا قبول کر لیتا ہے۔ مگر تھانے میں ہر روز بے عزت ہو کر بیگار بھرنے اور روزانہ لٹ جانے کو گوارہ نہیں کرتا۔ اور عام شہری حکومتی روایتی انصاف پہ یقین ہی نہیں رکھتا

    اس لئیے کئی گنا زیادہ مقدمات کی ایف۔ آر۔ آئی (فرسٹ انفارمیشن رپوٹ ) ہی نہیں کاٹی جاتی۔ اور ایسے اعداو شمار ایف آئی آر کاٹے جانے کی بنیاد پہ اکھٹے کیے جاتے ہیں

  3. نعمان

    افتخار، اس رپورٹ میں صوبہ سندھ میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد دو سو اٹھاسی بیان کی گئی ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب میں یہ تعداد چار سو چار اور چھ سو نوے بالترتیب ہے۔

    غیرت کے نام پر سب سے زیادہ قتل صوبہ سندھ میں ریکارڈ کئے گئے جس کی وجہ آپ بیان کرچکے ہیں کہ یہ صرف وہ جرائم ہیں جو رپورٹ کرے گئے۔ صوبہ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کئی این جی اوز اور سندھ حکومت کافی کام کررہی ہیں۔ یہ کام مشرف دور سے چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان جرائم کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ گریبان میں جھانکنے والی بات جو ہے تو صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام اپنے گریبان میں جھانکتی ہے اور ان جرائم پر شرمندہ اور ان کے سد باب کے لئے قانون سازی، بیداری اور این جی اوز کی مدد سے کوششیں کررہی ہے۔

    اغوا کی وارداتیں صوبہ سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں کافی زیادہ ہیں۔ گھریلو تشدد زنا بالجبر، اجتماعی زنا بالجبر، ان جرائم کی نسبت صوبہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ ہے اور اگر آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو سندھ میں ان جرائم کی نسبت صوبہ سرحد سے بھی کچھ کم ہے۔ گرچہ یہ صورتحال بھی ناقابل قبول ہے اور یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کو جرائم کے خلاف مزید سخت سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

    سولہ کروڑ سے زیادہ کی آبادی کے ملک میں رپورٹ ہونے والے جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہے۔ جس کی وجہ یہ نہیں کہ جرائم کم ہوتے ہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ جرائم رپورٹ نہیں ہوتے۔ جیسے صوبہ سرحد میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیکیوریٹی فورسز کے جوان اور لوگوں کی رپورٹ درج نہیں ہوئی اس لئے قتل ہونے والے سینکڑوں افراد اس فہرست سے غائب ہیں۔

    اعداد و شمار سے جو بھی کچھ آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہورہا۔ براہ مہربانی آپ کوئی دوسرے ذرائع ڈھونڈیں جو آپ کے موقف کی تصدیق کرتے ہوں۔ مثال کے طور پر کیا آپ یہ بات دہرانا پسند نہیں کریں گے کہ ایم کیو ایم نے بارہ مئی کو کتنے لوگوں کو ہلاک کیا؟

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ مجھے صرف اتنا بتا دیجئے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے انسانیت دوست لوگوں نے جو اس ظُلم کے خلاف بہت کام کیا ہے اس کے نتیجے میں کتنے لوگوں کے خلاف مکمل تادیبی کاروائی ہوئی ہے ؟ صفر ؟
    آپ مقابلہ کرنے بیٹھ گئے ہیں ۔ میں نے حساب نہیں لگایا لیکن عورت فاؤنڈیشن والوں کی ایک خبر کے مطابق قتل کے علاوہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے صوبہ سندھ میں حالت سب سے زیادہ خراب ہے ۔ مگر میرا مقصد یہ نہیں ہے ۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جن علاقوں کو ہم مہذب اور تعلیم یافتہ کہتے ہیں اُن کا حال بھی کچھ کم خراب نہیں ہے ۔
    محترم ۔ جب تک آپ اپنے ذہن سے تعصب کو نکال باہر نہیں پھینکے گے آپ کو حقیقت سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔
    آپ کے ذہن پر طالبان کا بھوت بہت بُری طرح سوار ہے ۔ آپ کی معلومات کیلئے لکھ دوں کہ کسی پولیس کاروائی ۔ فوجی کاروائی یا دہشت گردوں وغیرہ کی کاروائی میں جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ اعداد و شمار عام نوعیت کے نہیں گنے جاتے ۔ آپ کو کیا کیا پڑھانا پڑے گا ؟

  5. صبا سیّد

    اسلامُ علیکم
    ان اعداد و شمار میں سے کسی ایک کہ بھی انصاف نہیں ملا ہوگا۔ ہاں کچھ کیسز میں کسی نہ کسی این جی او نے اپنا بینک اکاؤنٹ ضرور بھرا ہوگا۔ کیا کہوں ۔۔۔۔ کوئی ایک جرم جو ہمارے ملک میں نہ ہوتا ہو۔ ہمارے سیاستدان خود نا جانے کتنے جرائم میں ملّوث ہوتے ہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ ہر ادارے میں ایک سے بڑھ کر ایک کرپٹ بندہ ہے۔ کلرک ، چپڑاسی سے لے کر وزیروں تک سب۔ انصاف کہاں سے ملے گا۔
    ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے،
    انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ :sad:

  6. نعمان

    افتخار حساب لگانے کی بھی ضرورت نہیں‌ اعداد و شمار آپ کے سامنے ہیں آپ نے خود پوسٹ کرے ہیں۔ ‌ اور پچھلی مردم شماری کا ڈیٹا انٹرنیٹ‌ پر موجود ہے۔ صوبہ سندھ میں‌ حالت صوبہ سرحد اور پنجاب دونوں‌ سے بہتر ہے۔ جیسا کہ میں‌ نے اپنے پچھلے تبصرے میں‌ کہا ہے دوبارہ دہرا دیتا ہوں:‌

    صوبہ سندھ میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد دو سو اٹھاسی بیان کی گئی ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب میں یہ تعداد چار سو چار اور چھ سو نوے بالترتیب ہے۔ اغوا کی وارداتیں صوبہ سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں کافی زیادہ ہیں۔ گھریلو تشدد زنا بالجبر، اجتماعی زنا بالجبر، ان جرائم کی نسبت صوبہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ ہے اور اگر آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو سندھ میں ان جرائم کی نسبت صوبہ سرحد سے بھی کچھ کم ہے۔

    بلکہ اگر آپ پڑوسی ممالک یا ترقی یافتہ ممالک کے جرائم کے اعداد و شمار سے موازنہ کریں‌ تو جرائم کا یہ ریکارڈ یہ ظآہر کرتا ہے کہ پاکستان میں‌ جرائم کافی کم ہیں گرچہ ہم سب جانتے ہیں‌ کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ۔

    جب کسی دہشت گرد کاروائی میں‌ لوگ مرتے ہیں‌ تو نامعلوم افراد کیخلاف ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اور مقامی تھانے میں‌ مرنے والوں‌ اور زخمی ہونے والوں‌ کی تعداد کا حساب جمع کیا جاتا ہے تاکہ ملزمان کی گرفتاری پر فرد جرم عائد کی جاسکے۔ آپ یہ کہنا کہ دہشت گردی میں‌ ہلاک ہونے والوں‌ کے اعداد و شمار الگ رکھے جاتے ہیں غلط ہے۔ ہاں‌ آپ یہ کہہ سکتے ہیں‌ کہ صوبہ سرحد کی حکومت شاید طالبان کے ہاتھوں‌ ہلاک ہونے والوں‌ کا شمار نہیں‌ رکھتی جس کی وجہ حالت جنگ ہے۔ نہ کہ یہ کہ دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں‌ کے اعداد و شمار کسی خفیہ خانے میں‌ رکھے جاتے ہیں۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    صبا سیّد صاحبہ
    اللہ آپ کو سدا سُکھی رکھے ۔ جب تک سچ کے گواہ اور حق کے متلاشی سندھی موجود ہیں ان شاء اللہ اس صوبہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ میں بچپن سے تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کرتا آیا ہوں ۔ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں 1946ء کے پاکستان الیکشن میں سو فیصد مسلم لیگ کے نمائندے جیتے تھے

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ عجیب باتین کر رہے ہیں ۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ یہ اعداد و شمار عورتوں پر ظُلم کے ہیں ؟ پھر اپ پڑوسی ملک میں کیوں چلے گئے ہیں ؟ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ عورتوں پر ہمارے مُلک میں ظلم نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف آپ کی سوئی پنجاب اور سرحد پر اٹکی ہوئی ہے کیا پنجاب میں ظُلم زیادہ ہو تو اس سے سندھ میں ظُلم کرنے کا خواز بن جاتا ہے ؟
    جو سوال میں نے آپ کو پوچھا تھا اُس کوئی جواب آپ کے پاس نہیں ہے تو بلا وجہ اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں

    اگر ہو سکے تو صبا سیّد صاحبہ کا تبصرہ پڑھ لیجئے ۔ صبا سیّد صاحبہ سی ایس ایس کرنے کے بعد اندونِ سندھ مجسٹریٹ رہیں ۔ آجکل ملک سے باہر ہیں ۔ ان کا خاندان سندھ کا مشہور سیاسی خاندان ہے

  9. نعمان

    افتخار، آپ صوبہ سندھ، پنجاب، اور سرحد میں ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں، کہ وہ لوگ جو طالبان کے مظالم پر وادیلا کرتے ہیں (میں ان لوگوں میں شامل ہو۔ وہ لوگ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ اس کے جواب میں، میں یہ عرض کررہا ہوں۔ کہ ہمارا گریبان جو ظاہر ہے صوبہ سندھ بنتا ہے اتنا میل نہیں لگا ہوا کہ اس کا تقابل طالبان کے منظم، وحشیانہ مظالم سے کرا جائے۔ طالبان جنگجوؤں کا ایک گروہ ہے جس کے جرائم کی اکیلی فہرست پاکستان کے سب صوبوں میں ہونے والے جرائم کی فہرستوں سے بھاری ہے۔

    آپ کے سوال کا جواب۔ جی ہاں اس وادیلے کے نتیجے میں کاروائی عمل میں آتی ہے۔ گرچہ تمام کیسز میں نہیں۔ آپ نے خود اپنی پچھلی پوسٹ کے ایک تبصرے میں قبول کیا ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج کے باعث سپریم کورٹ نے سوات میں لڑکی کو درے مارے جانے کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔

    آپ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ یہ اعداد و شمار عورتوں پر ظلم کے ہیں۔ جی ہاں اور میں یہ بھی اوپر لکھ چکا ہوں کہ اصل جرائم کی تعداد ان سے بہت بہت زیادہ ہے۔ جو یقینا کوئی قابل فخر صورتحال نہیں ہے۔

  10. زیک

    یہ اعداد و شمار کیا ہیں؟ کیا کل پاکستان میں پچھلے سال صرف 1500 عورتوں کا قتل ہوا؟

    دوسرے جرائم کے اعداد و شمار مختلف علاقوں کا تقابل کرنے کے لئے ہمیشہ فی ہزار کس کے تناسب سے بتائے جاتے ہیں۔

    تیسرے عورت فاؤنڈیشن ایک این‌جی‌او ہی ہے۔ کیا اس کے اعداد و شمار پر این‌جی‌اوز کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے والے یقین کر سکتے ہیں؟

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    زکریا بیٹے
    آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ؟ جو اعداد و شمار مجھے ملے ہیں میں نے نقل کر دیئے ہیں ۔ کوئی مانتا ہے مانے نہیں مانتا نہ مانے ۔ نہ مجھے اس کا انعام ملنا ہے اور نہ میں اس کا مُجرم ہوں ۔
    رہی بات این جی اوز کی تو جتنا مال وہ کسی خاص بات کی اشتہار بازی کر کے بین الاقوامی امدادی اداروں سے لیتے ہیں اگر وہ سارا انسانیت کی فلاح پر خرچ کرتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے ۔ البتہ کچھ این جی او ایسی ہیں جن کا نام کم از کم میں نے اخبار میں یا ٹی وی پر نہیں دیکھا اور وہ اپنی وسعت کے مطابق کام کر رہی ہیں اور اچھا کام کر رہی ہیں ۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.