بدقسمت ہے وہ شخص کہ جب اُس کا وطن پکارے تو وہ لبیک کہتے ہوئے وطن کی خدمت کو نہ پہنچ جائے ۔ اس وقت وطن کے لاکھوں بچے کس مپُرسی کی حالت میں ہیں اور وطن چیخ چیخ کر پُکار رہا ہے کہ “کہاں ہیں میری مٹی کے دعویدار ؟ میرے بچے بے سر و سامانی کی حالت میں بھوک سے بِلک رہے ہیں ۔ دھوپ کی تپش سے تڑپ رہے ہیں ۔ آؤ ۔ ان کی مدد کو آؤ ۔ وقت گذر گیا تو کل کو تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے پھر تمہاری مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا ”
پچھلے ایک ہفتہ میں مُلک کے شمال مغربی علاقے کے 15 لاکھ سے زائد بوڑھے بچے عورتیں اپنے ہی مُلک میں مہاجر ہو کر تپتی ریت پر پڑے ہیں ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ ان میں سے 25 فیصد کیلئے بھی کیمپ مہیا نہیں کر سکے ۔ اور جہاں ان کے کیمپ لگائے گئے ہیں وہاں ریت تپتی ہے تو گرمی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے جبکہ یہ لوگ سرد علاقوں کے رہنے والے ہیں ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ ان 25 فیصد کی اکثریت کے سر پر سائیبان بھی نہیں ہے ۔ 75 فیصد سے زائد جنہیں ان کے عزیز و اقارب اور دوسرے دردمند لوگوں نے اپنے گھروں میں جگہ دی ہے وہ سارا دن کیمپوں کے پاس جا کر قطاریں لگا کر کھڑے رہتے ہیں اور اُنہیں کیمپ میں نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کھانے کو نہیں ملتا
آفرین ہے وہاں کے مقامی بھائیوں کی جنہوں نے اپنی ہمت سے بڑھ کر امدادی کام کیا ہے اور دن رات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے 75 فیصد لوگوں کو پناہ دی ہے ۔ ایک مقامی بھائی جو کچھ مالدار ہے نے اپنی زمیں پر خیمے لگائے ہیں ۔ ایک یہی کیمپ ہے جہاں اول روز سے بجلی اور پنکھے مہیا کئے گئے ہیں ۔ وہ شخص مزید خیموں کا بندو بست کر رہا ہے ۔ اس کے عزیز و اقارب اس کی مالی اور جسمانی امداد کر رہے ہیں ۔ اللہ ان سب کی کوششیں قبول فرمائے ۔ اس کے علاوہ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ ۔ جماعت اسلامی کا الخدمت اور فلاح و بہبود کے چھوٹے چھوٹے نجی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں
راولپنڈی میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں اور سٹاف کی ٹیم پورے ساز و سامان کے ساتھ مصروفِ عمل ہے ۔ بحریہ کالج کی میڈیکل ٹیم صرف انجیکشنز لے کر پہنچی ہوئی ہے ۔ کل ایدھی فاؤنڈیشن والے بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ گروہ امداد کے نام پر آتے ہیں اور اپنی اپنی مووی فلمیں بنوا کر چلے جاتے ہیں ۔ وہ تمام این جی اوز جو ہمیں ٹی وی پر اور اخبارات میں نظر آتی رہی ہیں اور جن میں سے کچھ کے نام بین الاقوامی طور پر جانے جاتے ہیں ان میں سے نہ کوئی وہاں پہنچا ہے اور نہ ہی کہیں وہ نظر آ رہے ہیں ۔ کہاں ہیں وہ انسانیت کے ٹھیکیدار عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ اقبال حیدر ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ؟
میری تمام دردمند ہموطنوں سے التماس ہے کہ سوچ میں نہ پڑے رہیئے ۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر امداد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد کے تجربہ کی بنیاد پر میں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اپنے عطیات کسی حکومتی ادارے کو نہ دیجئے کہ ان عطیات میں سے کم ہی حقداروں تک پہنچتا ہے ۔ جو ایس ایم ایس کی مہم شروع ہوئی ہے یہ سب پیسہ بھی حکومت کو دیا جائے گا ۔ آپ براہ راست موقع پر اپنے عطیات پہنچا سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ۔ ہم لوگ تو ایسے ہی کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا کرنا آپ کیلئے ممکن نہیں تو مندرجہ ذیل ادارے جو وہاں کام کر رہے ہیں کے پاس اپنے عطیات جمع کرایئے ۔
یو این ایچ سی آر
الخدمت جماعت اسلامی والا
اْمہ ویلفیئر ٹرسٹ
ایدھی فاؤنڈیشن
آپ کچھ وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ حکومتی اداروں کو امداد کیوں نہ پہنچائی جائے؟
اگر آپ امدادی تنظمیوں کے تفصیلی روابط فراہم کر دیں تو اس سے بھی کچھ لوگوں کی رہنمائی ہو جائے گی۔ ذیل کے ربط پر کچھ ایسی ہی تفصیلات اکٹھی کیےجا رہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی
مرسی کور
پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس
آکسفیم برطانیہ
ایدھی فاؤنڈیشن
ہیومنیٹی فرسٹ
سیو دا چلڈرن
ابرارالحق سہارا
ایم کے ٓر کی پُکار
ایس ایم ایس کے ذریعے عطیہ
اگر مندرجہ بالا این جی اوز کی ویب سائٹ پتے چاہیے تو اردو محفل اور میرے بلاگ پر مل سکتے ہیں۔
نبیل صاحب
جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں جو کچھ حکومتی اداروں نے اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے متاءثرین کیلئے آئی ہوئی امداد کے ساتھ کیا اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جو متاءثرین کی امداد میں عملی حصہ لے رہا تھا ۔ اگر وہ دولت جو اس سلسلہ میں آئی تھی آدھی بھی متاءثرین تک پہنچ جاتی تو اب تک وہ سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہوتے ۔ میں صرف ایک چھوٹی سی واضح مثال دیتا ہوں ۔ ترکی سے ہزاروں عمدہ قسم کے کمبل آئے تھے ان میں سے صرف کچھ با اثر متاءثرین کو ملے باقی سب نجانے کہاں گئے ۔ حکومت کے چیلے امدادی سامان بیچتے رہے اور ستم ظریفی کہ وہ سامان متاءثرین کو بھی بیچا گیا ۔ یہ خبریں امریکہ تک تو پہنچ گئی تھیں ۔ اسی لئے امریکہ سے جو امداد آئی تھی اُسے حکومت کے حوالے نہیں کیا گیا تھا ۔ بلکہ وہ سارا سامان جماعت الدعوٰی کے حوالے کیا گیا تھا ۔ ہاں وہی جماعت الدعوٰی جسے امریکہ نے اقوامِ متحدہ سے دہشتگرد قرار دلوا دیا جس کے نتیجہ میں ان کی ساری انتظامیہ مقید ہے اور سارے دفاتر مقفل ہیں ورنہ اس وقت وہ خدمت کے عمل میں سب سے آگے ہوتے ۔
جہاں تک انٹرنیٹ پر روابط کا تعلق ہے وہ میں کوشس کروں گا ۔ ابھی تک تو ہم اپنے سیکٹر میں لوگوں کو متحرک کرنے میں مشغول تھے اور اللہ کی کرم نوازی ہے کہ کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے ۔ ہمارے سیکٹر کی ایک انٹظامیہ کمیٹی کام شروع کر چکی ہے ایک وفد متاءثرین کے احوال اور ضروریات کا مطالعہ کر کے واپس آ چکا ہے اور چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے جلد پہلا امدادی وفد روانہ ہو جائے گا اور پھر وفود جاتے رہیں گے ۔
خورشید آزاد صاحب
اطلاع کا شکریہ ۔ ہمارے اپنے وفود ضروریاتِ زندگی بشمول طبی امداد اور دوائیاں براہِ راست متاءثرین تک پہنچا رہے ہیں