دیر ہو گئی ہے مگر جاگو ۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے کہ پانی سر کے اُوپر سے نہیں گذرا
دوسروں کا حق مارنے کی جو عادت پڑ چکی ہے اس بُری عادت سے جان چھڑاؤ
ہوشیاری بہت ہو چکی ۔ ہیراپھیری ۔ جھوٹ ۔ دھوکہ ۔ فریب ۔ بھتہ خوری چھوڑ کر محنت سے کام کرو
اپنی خطاؤں اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیاں دُور کرو
اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کی بجائے اپنے اطوار و اخلاق درست کرو
کم کھاؤ ۔ سادہ کھاؤ مگر حلال کی روزی کما کے کھاؤ
دوسروں کو کج رَو کہنے کی بجائے اپنی روِش کی سمت درُست کرو
سُرخ بتی کراس کرنے یا کراس کرنے کی کوشش والی عادت اب چھوڑ دو
ملک کے آئین اور قانون کا زبانی احترام نہیں بلکہ عملی طور پر اس کی پابندی کرو
اسلام ماتھے پر سجانے والا جھُومر نہیں ۔ اگر مسلمان ہو تو اللہ کے احکام پر عمل کرو
قرآن صرف مُردوں پر پڑھنے کیلئے نہیں ۔ اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو
اپنے آپ کو اور اپنے ماتحت لوگوں اور اداروں کو درست کر چُکو تو دوسروں کی تنقید نہیں ۔ اُن کی مدد کرو
قومی سُرخ بتی جل چکی ۔ زیادہ مُہلت ملنے کے آثار نہیں ۔ اب راہِ فرار چھوڑ دو
آندھی کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں ۔ آندھی چل پڑی تو اُسے ساری دنیا کے انسان مل کر بھی نہیں روک سکیں گے
ڈرو اُس وقت سے جب آندھی چل پڑے ۔ پھر اللہ کو پُکارنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا
Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com
ٹھیک بات ہے اجمل صاحب میں بھی یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اب کوئی بڑی بات ہونے والی ہے شاید کوئی انقلاب آنے والا ہے سب کچھ بدل جائے گا کیا رہ جائے گا معلوم نہیں
اجمل جی ہماری عادت بن گئی ہے ہم اس وقت جاگتے ہیں جب بازی ہاتھ سے یا تو نکل چکی ہوتی ہے یا نکلنے والی ہوتی ہے ۔ وقت سے پہلے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ۔ یا سوچنا ہمیں گوارہ نہیں ہے ۔ بس اللہ خیر کرئے گا ۔ یا پھر اللہ کی ذات کرنے والی ہے نہ ، میں خود کیوں کروں ۔ ۔ کاش کہ یہ سمجھ سکیں کہ اللہ پاک بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزارتے ہیں ۔اور آج مسلمان اس لیے دوسرے ممالک سے پیچھے ہے ۔ بس اللہ کرئے گا مجھے کود کچھ نہیں کرنا ، ماسوائے چوری ڈاکہ منافقت ۔ جھوٹ ۔ رشوت دوسروں کو تکلیف دینا ۔ حق مارنا ۔ اور نا جانے کیا کیا
جین حالات مین آخری بار جب نواز شریف صاحب مسند وزارت عظمی پر جلوہ افروز ھوئے تھے تو لوگون نے قرض ادا کرنے کے لیے بھت مال دیا تھا
مجھے اس وقت عمر بن عبدالعزیز رح یاد آئے
کہ شائد نواز صاحب بھی ان کی طرح تمام اثاثہ حقدار کے حق مین بانٹ دین اپنے ٹھاٹھ ختم کر دین اور پاکستان مین وہ حکومت قائم کرین جس کے انتظار مین ھم بوڑھے ہو گئے ھین
اب کوئی ایسا خیال نھین آتا
آپ نے ماشا اللھ بڑی جامع ھدایات تحریر فرمائی ھین کاش ھمارے لیڈرون مین سے ایک ان پر عمل پیرا ھو یا کم از کم ان کی تشھیر ھی کر دے اعلان چھپوا دے
اٹھو مری دنیا کے غریبون کو جگا دو– جیسی کوی نظم لکھ دے
ورنہ وہی ھوگا کہ
تمھاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانون مین
قوم تو سوتی ہی نہیں
جاگتی رہتی ہے، بجلی جو نہیں
یہ رہنما ہیں جن کو جاگنے کی ضرورت ہے
قومیں ناکام یا کامیاب نہیں ہوتیں
ان کے رہنما کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں
عرب کہتے ہیں
الناس علی دین ملوکھم
لوگ اپنے حکمرانوں کے رستے پر ہوتے ہیں
کوئی عمر نہیں بن سکتا تو مہاتیر محمد ہی بن کے دکھا دے
قوم ٹھیک ہوجائے گی
قوم میں کوئی کیڑے نہیں پڑے ہوئے
ایک سرائیکی شاعر شاکر شجاع ابادی نے کہا تھا
میرے مالک رعائت کر نمازاں رات دیاں کردے
کہ روٹی شام دی پوری کریندے رات تھیں ویندی
تو قوم کا تو یہ حال ہے۔۔۔
یا تو ان راھبر نما رہزنوں سے پیچھا چھڑالے
یا پھر یونہی
انّہی پیوے تے کتی چٹّے
والا حساب چلتا رہنے دے۔۔۔
فیصلہ ترا ترے ہاتھ میں ہے
جعفر اگر نہیں سوتی تو ملک کے لیے کچھ کر ہی لے اور کچھ نہیں تو اپنے حق کے لیے ہی اٹھ کھڑی ہو ۔ اس جاگنے کا کوئی فاہدہ تو ہو ۔ جب ملک ہاتھ سے نکل گیا تب سکون سے سو جائے ، خدا نا کرئے
تانیہ رحمان کا کہنا ہے کہ:
۔ ۔ جب ملک ہاتھ سے نکل گیا تب سکون سے سو جائے ، خدا نا کرئے۔ ۔
خدا نہ کرے اگر ملک ھاتھ سے نکل گیا۔ تب سکون کیسا؟۔اور قیامت کے دن ہمارے بڑے بھی ہم سے پوچھیں گے ۔ کہ ہم نے ایک آزاد ملک اُس وقت اسلام کے نام پہ تمھیں بنا کر دیا تھا۔ جب اسلام کا نام لینا تو کُجا پوری اسلامی دنیا ہی غیر مسلم قوموں کی باجگزار تھی ۔ اور تُف ہے تم پر کہ تم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔
کئی سال پہلے جب میں سقوطِ ڈھاکہ کی کہانیاں پڑھتا تو شدید بے چینی کے ساتھ میرے ذہن میں یہ سوال چھبتا ہوا محسوس ہوتا کہ “اس وقت کی جو پاکستانی نسل تھی وہ کیوں خاموش تماشائی پاکستان کو دولخت ہوتا دیکھتی رہی ؟؟
آج مجھے ان سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ ہم عام لوگ ہیں لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالات پر۔ کیونکہ ہمارے پاس لیڈر نہیں ہے اور لیڈر نہ ہو تو قوم، قوم نہیں ہجوم بن جاتا ہے۔
آج پاکستانی قوم بھی ایک ہجوم ہے نا کہ ایک قوم۔ اور ہجوم نہ تو منظّم ہوتا ہے، نہ مخلص اور ایماندار کیونکہ ہجوم کے پاس اپنے ہونےکا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہجوم ہمیشہ انفرادی نفع نقصان سوچتا ہے نا کہ اجتعماعی۔
رلاتا ہے ترا نظارہ اے “پاکستان” مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے “پاکستان” والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
نوٹ: میں نے ہندوستان کی جگہ پاکستان لکھا ہے۔
خورشیدآزاد صاحب،
آپ کی نظم نٰے میری آنکھیں نم کر دینں-
تانیہ رحمان صاحب
شاید 40 سال قبل ایک انگریزی ناول چھپا تھا ٹائم مشین ۔ اس میں نقشہ کھینچا گیا تھا کہ اکیسویں صدی میں لوگ اتنے بے حِس اور غلامانہ ذہنیت کے ہو جائیں گے کہ خود اپنی اور اپنی نسل کی موت کا سامان بنیں گے
خورشید آزاد صاحب
آپ کا خیال درست ہے ۔ اور اب حالات زیادہ دگرگوں ہیں
غیر متعلق تبصرے پر پیشگی معذرت۔
ایک تو یہ کہ آپ کا سوائن فلو پر ایک تبصرہ میرے بلاگ پر موجود ہے: http://achoota.blogspot.com/2009/05/blog-post.html?showComment=1241148240000#c2269319497138039427
مندرجہ بالا لنک پر آپ اسے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ دیگر روابط کے زمرے میں میرے بلاگ کا ربط بھی دے دیں تو بندہ ممنون ہوگا۔
شکریہ۔
منیر عباسی صاحب
یہ کیا مسئلہ ہے ؟ میرا تبصرہ مندجہ ذیل جگہ پر کیوں نہیں ہے ؟
http://achoota.blogspot.com/2009/05/blog-post_3964.html#comments
اور کیا یہ دوسرا والا پھلے کا ہمزاد ہے ؟
آپ کے بلاگ کا ربط اس وقت میرے بلاگ کے روابط میں آئے گا جب میں آپ کا بلاگ باقاعدگی سے دیکھنا شروع کروں گا ۔ اِن شاء اللہ جلد