اِسے حالات کی ستم ظریفی کہئے یا اعتقادکی ضعیفی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہماری شناخت ”بھک منگوں“ کے سوا کچھ نہیں رہی ہے… ہم وہ بھکاری اور ڈھیٹ منگتے ہیں جوڈالر اور پاؤنڈ کے لئے اپنے ہی گراؤنڈ خانماں بربادوں سے بھر کر ”انسانی گراؤنڈ“ پر یہود و نصاریٰ سے بھیک مانگتے ہیں…کئی دہائیوں سے بدچلن حکمرانوں کا یہی چلن ہے کہ دنیا پرستوں سے دنیا سازی کی باتیں کر کے چھلنی دامن کو ”امداد کے نوٹوں“ سے بھر لیں…یہ اور بات ہے کہ دل اور دامن میں سوراخ کے سبب گرنے والے نوٹوں کا اِس لئے حساب نہیں ہوتا کیونکہ اُن گِرے ہوؤں کو ”گِرے ہوئے“ اُٹھالیتے ہیں اور جو الجھ کر جھولی ہی میں رہ جاتے ہیں وہی ”قومی خزانے کا حصہ “قرارپاتے ہیں…افسوس ہوتا ہے اپنے حکمرانوں پر کہ جن کے نزدیک بھرے کشکول کے ساتھ کامران لوٹنا ہی عظیم سفارت کاری ہے …نویں جماعت کے لازمی مضمون ”مطالعہ پاکستان“میں کبھی پڑھا تھا کہ سربراہِ مملکت جب کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو معاہدے کرتا ہے ، مختلف شعبوں میں تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کئے جاتے ہیں،مشترکہ امور پر متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اور پھر وطن واپسی پر قوم کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو فلاں معاملے پر مقدم رکھا، اُس کی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہم نے ایسی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جس سے ہماری خودی پر آنچ آتی ہو اور ہم نے برابری کی بنیاد پر باہمی تعلق کو فروغ دیا لیکن ”نواں آیا سوہنیا“کیا جانے کہ ”نویں جماعت“ کا سبق کیا ہے؟اُنہیں تو ڈالروں کی خوشبو ملک سے باہر کھینچے رکھتی ہے ، پاؤنڈ اور فرینک کے حصول میں وہ اتنے Frank ہیں کہ دل کی بات فوراً ہی زبان پر لے آتے ہیں، کوئی پس و پیش اور نہ ملال بس دولت، روپیہ اور مال…اپنے فن میں بلا کے ماہر ہیں کہ”مانگنے“ میں کوئی جھجھک ہی محسوس نہیں ہوتی،
بقیہ مضمون پڑھیئے یہاں کلِک کر کے
واہ وا بھائی کیا خوب کھا ھے
“گرے ھئوون یعنی نوٹون کو گرے ھوئے اٹھا لےتے ھین”
نھایت حقیقت بیانی سے کام لیا گیا ھے
پاکستان کے سر پر کئ بلائیں ھیں کئ آفت ھیں
مگر یہ سیاست دان نامی آفت سے کب جان چھوٹے گی
سب ایک سے بڑھ کر ایک ھیں ان کے حرص کی کوئ حد نہیں ملک کو کھا لیا اب بھیک مانگنے پہ آگئے
جب آپ نے پڑھا تھا جب وہی ہوتا تھا
آج کل کے نویں جماعت والے یہی پڑھا کریں گے جو آپ نے لکھا ہے
جس کے منہ کو سیاست لگ گئی ‘ اس کا شرم حیا سے کیا تعلق۔ سنا تھا کہ جس طرح کے عوام اسی طرح کے حکمران ۔ مگر حقیقت تو یہ ھے کہ عام لوگوں مین اتنی بے شرمی تو میں نے کبھی نہیں دیکھی۔
سلام۔
تسی بھی حد کر دی تی ہے۔ کس بندے کا کالم اپنی سائیڈ تے لادیتا ہے۔ اے دا کوئی پیندا بھی ہے۔
آج کل یہ کس کے پے رول پر ہے ، لگتا ہے کہ اگلی شہباز دی وفاقی کابینہ دے لیے اس نو سلکٹ کرلیا گیا ہے، یا یہ اپنی جگہ بنان دی کوشش کردا پیا ہے۔ لیکن اے نو پتہ نہیں کہ ساڈے کول نافرمان تے قوم فروشاں دی کوئی قدر۔
رہی بھیک دی گل تے اس وقت دی بھیک نو تسی کی کہو گو جب ضیا الحق کول اندی سی۔ شکر کرو کہ کچھ دے کر ذندہ رکھنے کی کوشش کرہے ہیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ تمھاری ایڑیاں رگڑنے کی نوبت ہے اور وہ یہ کام اگلی دور حکومت میں کروانا چاہتے ہیں۔
app ko bhi mubarak hoo
السلام علیکم انکل!
مضمون شائع کرتے ہوئے بتا دیا کریں کہ یہ مضمون کس کی لکھی ہوئی ہے۔ اور کہاں شائع ہوئی ہے۔ وگرنہ کچھ لوگ اسے بھی آپکا ہی لکھا سمجھ بیٹھیں گے۔کچھ تبصروں سے کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے۔
(کہیں جس صاحب کے نام سے یہ مضمون شائع ہوئی ہے وہ آپ کو سرقہ کی تہمت بھی نہ لگادیں۔)
شکریہ۔
غفران صاحب
عام لوگ ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں ۔ کچھ تو قدرِ مُشترک ہو گی
چوہدری حشمت صاحب
آپ کو اصلی دکھ اس بات کا لگتا ہے کہ عامر لیاقت آپ کی پارٹی کی چیرادستوں سے تنگ آ کر پارٹی چھوڑ گیا ۔ خاطر جمع رکھیں وہ مسلم لیگ نواز میں نہیں جائے گا اور اگر کوشش بھی کی تو وہ لوگ اسے نہیں لیں گے ۔
دوسری بات آپ اپنے آپ کو پنجابی ثابت کرنے کیلئے جو پنجابی لکھتے ہیں وہ ثابت کرتی ہے کہ آپ پنجابی نہیں ہیں بلکہ بہاری ہیں
شیپر صاحب
آپ کا اُردو کا چابی تختہ کیا گیا ؟
محبِ پاکستان صاحب
آپ نے درست کہا ۔ میں نے بھی کچھ ایسا محسوس کیا ہے ۔ میں ہمیشہ لکھنے والے کا اور جہاں چھپا ہو کا نام لکھتا ہوں کل جلدی میں بھول گیا ۔ بجلی جانے والی تھی
بھائی وہاج احمد صاحب ۔ سعدیہ سحر صاحبہ اور ڈ ِ ف ر صاحب
آپ سب نے درست کہا ۔ اس بلا سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ میں ہر الیکشن سے قبل لکھتا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ ووٹ ڈالنے جائیں اور اُسے ووٹ دیں جس کا ماضی سب سے اچھا ہو ۔ مستقبل کے سبز باغوں پر توجہ نہ دیں
ڈئیراجمل صاحب۔
آپ کو میری پنجابی پسند نہیں کوئی گل نہیں کیکن آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ عامر لیاقت کا تعلق میری پارٹی سے ہے ، یہ اور بات ہے کہ میں ظالم نو ظالم تے مظلوم نو مظلوم سمجھتا ہوں۔ آپ کی اپنی عینک ہے میری اپنی ، اس تبدیلی کی وجہ سے میں بہاری تو نہیں بن سکتا ، خیر خون دا رنگ انا دا بھی لال ہی ہونداہے، یعنی ہوتے تو وہ بھی انسان نے ۔
چوہدری حشمت صاحب
آپ یہ تو بتایئے کہ آپ زبان کونسی لکھتے ہیں ۔ شروع میں میں اسے انبالوی سمجھا تھا لیکن یہ وہ بھی نہیں ہے ۔ آپ اپنی اصلیت بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں یا شرم آتی ہے ؟