آہ ظالم ڈاکٹر شاہد مسعود ۔ کیوں پھر یاد کرا دیا مجھے وہ وقت جب میں دس دن اور دس رات بالکل نہ سویا تھا اور پھر آخری دن 16 دسمبر 1971ء کو ٹرین میں کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ریڈیو سنتے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے بہت بلند ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے مجھے زمین پر پھینک دیا ہو ۔ اب تو 1970ء کا ایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے گذرنے لگا ہے اور کتنی مماثلت ہے آج کے دور کی اس دور کے ساتھ
ڈاکٹر شاہد مسعود کی تحریر سے اقتباسات
ہم خود فریبی اور منافقت کے نتیجے میں آدھا ملک گنوادینے اور گزرے باسٹھ برسوں کے دوران بارہا اپنے ہی ہم وطنوں کو فتح کر لینے کی ناکام کوششوں کے باوجود، دُنیا بھر میں ذلیل و خوار اپنا کشکول لے کر گھومنے اور جہاں کی پھٹکار سننے کے بعد یہاں تک تو فخریہ اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ ”میں طویل غیر ملکی دورے پر زیادہ بھیک مانگنے گیا تھا!!“ لیکن کوئی واضح راہ متعین کرنے، نظریہ تراشنے یا حکمتِ عملی طے کرنے کو تیار نہیں
صوبہ سرحد پختونخواہ میں بھر پور عسکری کارروائی جاری ہے! سینکڑوں شدت پسندوں کے مارے جانے اور لاکھوں انسانوں کے بے گھر ہو جانے کی خبریں ہیں! یہ ”شدت پسند“ کون ہیں ؟ میں نہیں جانتا کیونکہ کچھ عرصہ قبل یہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے مدد لیتے ملک دشمن عناصر تھے ! پھر اچانک ممبئی پر ہوئے حملوں کے بعد اِن ”بھارتی ایجنٹوں“ نے کسی بھی جارحیت کی صورت بھر پور ملکی دفاع کا اعلان کرتے، پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ پھر یہی طے ہوا تھا کہ مطالبہ صرف عدل و انصاف کی فراہمی ہے، اس لئے صرف مفاہمت ہی بہترین حکمت عملی ہے! اور واحد رستہ چونکہ معاہدہ ہے، اس لئے بھر پور ”قومی یکجہتی“ کا اُسی طرح مظاہرہ کرتی قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر انتہائی سرعت سے معاہد ہ پر دستخط کردیئے تھے جس طرح اب سر جھکائے ایک بار پھر ”اعلیٰ قومی مفاد کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے “اور” سیاسی بلوغت کا اظہار“ کرتے ، اُس کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت کردی ہے!
اور پھر یہ قومی علماء و مشائخ کانفرنس؟ سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال اور بے مقصد قرار دادیں اور اپیلیں! باسٹھ برسوں میں نہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات کی دُرست تشریح پر اتفاق کرسکے اور نہ علامہ اقبال کے اشعار کے مفہوم پر اتحاد! قوموں، فرقوں اور مسالک کی تقسیم در تقسیم اور ہر دور کی نئی منطق! جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقد ہوتی علماء و مشائخ کانفرنسیں جہاد فی سبیل اللہ کا درس دیتی دُنیا کے ہر کونے میں باطل کو مٹادینے کیلئے پکارا کرتی تھیں اور اب یہی حکو متی سر پرستی میں ہوتی محافل اُس کے برعکس اقدام کو عین شریعت قرار دے رہی ہیں!! اور حیران کن امر یہ کہ ذرا … مدعوئین اورمقررین کے ناموں کی فہرستیں ملاحظہ کیجئے!
روئیداد خان نے کہا کہ برسوں پہلے اُنہوں نے ہجرت کرتے بنگالیوں کو بھارتی سرحد کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ جنرل حمید گل نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے کہا کہ اگر آج بھی سرحد پار امریکہ نہ موجود ہوتا تو شاید پختون، ہماری عسکری کارروائی کے بعد سرحد کا ہی رُخ کرتے اور پھر … جنرل حمید گل نے ایک عجب جملہ کہا ”ہوسکتا ہے یہ ظلم آگے چل کر … کسی پختون مکتی باہنی کو جنم دے دے“۔
”آپر یشن جاری ہے ۔ لا تعداد شدت پسند مارے جاچکے ہیں۔ بے مثال کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ دشمن کے دانت کھٹے کردیئے جائیں گے۔ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ تمام سازشیں ناکام بنادی جائیں گی۔ سیاسی قیادت متحد ہے،بھارت ہمارا دوست ہے۔ قوم بیدار ہے۔ علماء یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں، ہر اُٹھنے والی آنکھ پھوڑ اور بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ سب ٹھیک ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ جتنا زیادہ ہو سکے ، چندہ ، خیرات اور امداد دیں تاکہ آپ کے بھائیوں کی مدد ہوسکے“ ۔ مفتی رفیع عثمانی کو نہیں صاحبزادہ فضل کریم کو سنیے۔ ریڈیو پاکستان اب بھی یونہی گونج رہا ہے کہ آپریشن جاری ہے۔
یہ آخر میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے نام پر ربط شاید غلط لگ گیا ہے۔
بغداد کی تباہی ہو، سیّدنا عمر، عثمان و علی (رضی اللہ عنہم) کی شہادت ہو ، صلاح الدین ایوبی (رح) کے خلاف سازشیں ہوں ، تیمور لنگ کا وار ہو ، میر جعفر و صادق ہوں ، سکندر مرزا اور یحیٰ کا کردار ہو ، افغانستان و عراق میں صلیبیوں کی مدد ہو، لال مسجد کے معصوم بچوں کے قاتل ہوں یا آج کا زرداری ہو سب کے سب ایک ہی قوم ایک ہی مقصد
تو کوئی ابن سبائیوں سے پوچھے کہ کیا اسلام مٹ گیا؟
ابن سبائی اپنے کئے کی لعنت لے کر جاتے رہے اور جارہے ہیں اور انکے کئے سے جو تکلیف مسلمان اٹھاتے رہے ہیں ان کا اجر اللہ کے ذمے ہے
اللہ کے فیصلے عجیب ہو تے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ منافقین کا ٹھکانہ کافر سے بدتر ہوگا!!!
سبحان تیری قدرت!
فکلیف نہیں تکلیف ( اصلاح!!)
ڈوبنے سے پہلے ، عزاب سے پہلے ایسے واقعات ہوتے ہیں اور سمجھانے والے کال کی صاف تصویر بنا دیتے ہیں کہ کوئی عبرت پکڑ کر اپنا بچاؤ کرلے۔ ذیل کی تحریر میں فاضل صحافی نے اصل کہانی بیان کی ہے اور بخدا جاننے والےتو کب سے جانتے ہیں
ُُُٓامریکی پینٹاگون کی ریزرو فوج، پاکستان انفینٹری ڈویژن یعنی ”افواج پاکستان“ سوات اور بونیر میں فوجی کاروائی کر کے کئی ہزار ”دہشت گردوں“ کو ہلاک اور بیس لاکھ ”دہشت گردوں“ کو بے گھر کر چکی ہے۔میں نے اپنے گزشتہ ہفتہ کے کالم میں لکھا تھاکہ پاکستانی حکومت اور فوج امریکی خواہش کے مطابق تیل کے پائپ لائن TAPI کی کھدائی کے کام کے ٹھیکی پر معمور کر دی گئی ہے۔یہ کئی بلین ڈالر کا ٹھیکہ ہے۔ اس کے ساتھ اہم کام یہ ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی اور ناٹو افواج کی سپلائی لائن کو بالکل صاف کر دیا جائے۔ ملک کا صدرزرداری اس پروجیکٹ کا منیجر اور گیلانی، کیانی اور رحمن ملک اس کے سپروائرز ہیں ۔ مزدوری طے نہیں ہے تاہم ہر روز کی کاروائی پر مول تول اور بھاو تاوجاری ہے۔”اتنے بلین سے کام نہیں چلے گا، ہمیں اتنے بلین چاہیں“ وغیرہ وغیرہ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر انسانی مسائل کھڑی کر کے دنیا بھر کی امداد کا رخ پاکستانی افواج اور حکومت کی طرف کر دینے سے بھی امریکا کو کرایہ کم ادا کرنا پڑے گا۔ جن لوگوں کوکشمیر میں زلزلہ سے متاثرین کی تمام امداد افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کے ذریعہ کرانے کے انجام کو دیکھا ہے ، انھیں معلوم ہو چکا ہو گا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ساری دنیا سے اور خود بیرون ملک آباد پاکستانیوں سے کشمیریوں کے لیے جو امداد آئی تھی اس سے دو نئے شہر آباد ہو سکتے تھے۔ لیکن زلزلہ کے متاثرین آج بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، اور چند ہزار روپوںکی امداد کے لیے بھی حکومت کے در پر چکر لگا کر تھک چکے ہیں۔ان کیمپوں میں امدادی کام کرنے والوں میں جماعت الدعوة اور الخدمت سب سے سرگرم تھی۔ الدعوة پر ممبئی میں ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گرد کاروائی کے بعد پابندی لگا دی گئی اس کی اعلیٰ قیادت کو قید میں ڈال دیا گیا۔اور الخدمت کی بانی جماعت اسلامی کا بڑے پیمانے پر میڈیا ٹرائل شروع ہو چکا ہے۔پاکستانی حکومت، اس کی سول اور ملٹری بیروکریسی کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور اس کا پیٹ ڈائناسور بن چکا ہے۔وہ انسانوں کے گوشت کی خوراک اور خون کے ڈرنک کی عادی بن رہی ہے۔ پاکستان کے کسی حصّہ میں پاکستان فوج کی بڑی کاروائی یا ایڈونچر کا مطلب اس علاقہ کو پاکستان سے علیحدہ کرنا ہے۔1948 ءپاکستانی فوج کا ایڈونچر سری نگر کشمیر تھا۔سرینگر پاکستان سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔1970 ءمیں یہ ایڈونچر مشرقی پاکستان میںفوج کشی کی شکل میں ہوا اور راولپنڈی جی ایچ کیو میں اس حصّے کی علیحدگی کا فیصلہ امریکی خواہش اور ایماءکے مطابق ہوا۔ نئے بنگلہ دیش میں آج بھی محصورین پاکستانیوں کے کیمپ ”آباد“ہیں۔ضیاءالحق نے سیاچن میں ایڈونچر کر کے سیاچن کو بھارت کے حوالے کیا اور پاکستان کو یہ” مژدہ “ سنا یا کہ” ہم نے وہ علاقہ چھوڑا ہی، جہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔“ جنرل پرویز مشرف نے کارگل فتح کر کے بھارتی فتوحات میں مزید اضافہ کیا ۔ بلوچستان پر مستقل فوج کشی، سیاسی قتل اور حکومتی اور فوجی غنڈہ گردی کا مطلب امریکی خدمت اور مرضی کے مطابق بلوچستان کو پاکستان سے کاٹنا ہے اور سوات اور بونیر میں بڑے پیمانے پر فوج کشی کر کے ایک نئے پختونستان کے لیے راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔شمالی علاقہ جات کے لوگوں نے مسلم پاکستان کے ساتھ رہنے کا ایک انتظام کیا تھا۔اس کا مطلب آج کے پاکستانی حکمراں انھیں محکوم بنانی، اپنے سیکولر، لبرل سیاسی نظریات اور لائف اسٹائل ان پر تھوپنے پر محمول کر تے ہیں۔جن لوگوںکو تاریخ کی کسی سرکش قوت نے غلام نہیں بنایا ہے انھیںپاکستان، امریکی اور ناٹو کے کرایہ پر غلام بنانا چاہتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہی؟ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا اور بموں کے گولوں اور عمارات اور گھروں اور انسانی لاشوں کے ملبے سے ایک آزاد پختونستان ہی جنم لے سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے کبھی پورے پاکستان پر” اسلامی امارت“ قائم کرنے کا اور ان کی کسی قیادت نے پورے پاکستان کی” امیر المومنین “بننے کی خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا ہے۔ان کا حدف اور ان کا مقصد اپنے علاقوں میں مقامی سطح پر اسلامی شریعت کا محدود قیام ہی،اور ان کا ویژن نہ قومی ہے اور نہ عالمی۔ چناچہ جارح اور قاتل پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف عوامی ردعمل میں وہ باآسانی علیحدگی کی طرف جا سکتے ہیں، اور جائیں گے۔وہ اسلام کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہوئے تھے اور اب اسلام کے لیے ہی پاکستان سے علیحدہ ہونا اپنا فرض بنا لیں گے۔پورے پاکستان میں جس قوم میں سب سے زیادہ اور حقیقی عصبیت پائی جاتی ہے وہ پٹھان ہیں۔ اتنے بڑے پیمانوں پر جانوں کا ضیاع ، اور اپنے گھروں سے بے گھری اور بیدری کی ٹھوکروں کو پٹھان برداشت نہیں کر پائیں گے ۔ اور بدلہ لینے کی قدرتی صدیوں پرانی روایت کو پوری طاقت سے بروئے کار لائیں گے ۔پٹھان فوج پٹھانوں کے خلاف زیادہ عرصے تک کاروائی نہیں کر سکے گی اور بغاوت ہو کر رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت اس کاروائی کے قدرتی نتائج سے پوری طرح با خبر ہے اورا س کے لیے تیار ہے۔جماعت اسلامی کے سوا تمام بڑی سیاسی اور دینی جماعتوں کی خاموشی یا حکومت کی حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جماعتیں اس کاروائی کے حتمی نتائج سے واقف نہیں ہیں۔اصل معاملہ یہ ہے کہ اس امریکی ٹھیکے میں سب کے لیے حصّہ طے ہو چکا ہے اور سب کا اپنا اپنا کردار بھی طے ہو چکا ہے۔ کچھ کا کردار جارحانہ ہے ، جیسے کہ ایم کیو ایم ۔، اور کچھ کا کردار خاموش ہے جیسے کہ نواز لیگ۔ دراصل نواز شریف امریکا کے وہ مہرے ہیں جو موجودہ سیٹ اپ کی ناکامی کی صورت میں اوپر آئیں گے۔ یا بلوچستان اور پختونستان بعد کے پنجاب اور سندھ پر مشتمل نئے پاکستان کی وزارت عظمٰی ان کو دی جائے گی یعنی نئے پاکستان کے وہ نئے بھٹو ہوں گے جو بلی کے تھیلے سے باہر آنے کا مژدہ قوم کو اس وقت سنائیں گے جب بلی راستہ کاٹ کر نکل چکی ہوگی ۔رہ گئی جمعیت علماءاسلام کی ”دینی سیاسی“ قیادت ،تو وہ پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل کے کمیشن کے کاروبار میں میں عالمی شہرت رکھتی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کی بنیاد ہی ”پختونستان“ ہے۔ وہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا حصّہ لینے کی کوشش کریں گے۔لیکن نئے پختونستان میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوگا اور ان کی سیاست پاکستان کے ساتھ ہی چل سکتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو فی الوقت تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبوں پر اب بہت تیزی سے عمل شروع ہو چکا ہے اور اس مرحلہ پر مالاکنڈ ڈویژن میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی المیہ پیدا کرنا اور افواج پاکستان اور صدر پاکستان کی طرف سے اس کے دائرہ کو مزید بڑھانے کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اسے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے آیا جائے گا۔ آئندہ پاکستان میں جو بھی جمہوری یا فوجی ڈرامے ہوں گے وہ اس خطّہ کے لیے سی آئی اے کے بنے نئے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے ہی رچائے جائیں گے۔ پاکستان کی مخلص دینی جماعتیں ، علماءحق، اسلام پسند اور محب وطن لوگ ساری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہیں۔انھیں پاکستان کو بچانے کے لیے نئی اسٹریٹجی پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا۔انھیں ” جعلی جمہوریت “ اور ”جرنیلی آمریت“ کے ڈبوں سے اوپر اٹھ کر (Out of the box) سوچنا ہو گا۔پاکستان لاکھوں کروڑوںمسلمانوں کی کوسش ، خواہش اور امنگوں کا حاصل ہے۔ پاکستان کاسقوط تاریخ اسلامی کا سب سے بڑا اور اندوہناک حادثہ ہو گا۔آئندہ پاکستان کو بچانے کی تحریک صرف صوبہ سرحداور بلوچستان میں نہیں چلائی جا سکے گی۔ اس کا مرکز پنجاب،سندھ اور اسلام آبادہونا چاہئے اور اس کے لیے دنیا بھر میں پھیلے تمام پاکستانی اپنی ذہنی اور فکری استطاعت لگائیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اورانسانی مصائب کے ذمہ دار حکمراں اور جرنیلوں کو سزا دیے بغیر انھیں پیچھے دھکیلے بغیر، اور پاکستان کے دستور پر لفظ بہ لفظ اور اس پر اس کی اصل روح کے ساتھ عمل درآمد کیے بغیر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔
محمد سعد صاحب
اطلاع کا شکریہ ۔ کل میں نے اسے درست کر کے دوبارہ شائع کر دیا تھا لیکن نمعلوم انٹرنیٹ کے ساتھ کیا مسئلہ تھا ۔ پھر بجلی چلی گئی ۔ اب درست ہو گیا ہے
غیر مسلم ایسے لوگ ہیں جو اس دنیا میں اپنی محنت کا پھل لے جائیں گے اور انہیآخرت میں کچھ نہیں ملے گا جب کہ مسلمان اس دنیا میں تو ظلم سہے گا مگر اس کی آخرت خوبصورت ہو گی
یاسر عمران مرزا صاہب
مُسلم کیلئے شرط ہے کہ وہ عقیدہ اورعمل دونوں لحاظ سے مسُلم ہو پھر وہ اس دنیا میں اظمینان کی زندگی پائے گا اور آخرت میں عشرت کی
میرے منہ میں ایڈوانس خاک
لیکن ہم دو بندوں کے درمیان ہونے والے مکالمےکا اختصار کچھ یوں ہے کہ:
سارے پنجاب پنجاب کر کے گندی گالی دیتے ہیں اور ہاہاکار مچاتے ہیں پنجاب کی نا انصافی کی
کشمیر چھوڑا فوج نے
ملک توڑا فوج نے
سیاچن ، کارگل ہاری فوج
ترقی کے بستر لپیٹے فوج نے
پھر ملک پر ٹوکے چلا رہی ہے فوج
اور پھر سے ٹوٹے کرنے پر تُلی ہوئی ہے فوج
لیکن ایک بات لکھ لو
اس سارے ۔۔۔ پنے کے بعد سب کی تو جان چھوٹ جائے گی
لیکن جس کے سینے پر مونگ دلنے (تمیز دار محاورے سے بدل دیا ہے) کو بچ جائے گی فوج
وہ ہو گا پنجاب
پنجاب کو بنا دے گی سوڈان، یا بنا دے گی کینیا, یا کچھ زیادہ برا جو ہمیں پتا ہی نہیں
—————–
اتنا سب سوچ لیا ہم نے لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس عفریت سے نجات کیسے حاصل کی جائے، کی بھی جا سکتی ہے کہ نہیں؟
مایوس اور نا امید نہیں ہم لیکن تذبذب اور گومگو کی کیفیت میں ہیں
برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں
ڈفر صاحب
آپ نے درست لکھا ہے
کیا آپ سے ایمیل سے رابطہ بن سکتا ہے؟ اس پر مزید بات ہو سکتی ہے اور مل جل کر ہم اپنے دین اور قوم کو بچانے کی فکر کرسکتے ہیں
ڈفر صاحب کیلئے
ٹھیک ہے ایک دن میں پاکستانی مسلمان نہیں ہونے لگے اور ہم بھی تبدیلی کے مکلف نہیں ہیں، کوشش کرنا اور اللہ سے مدد مانگنا ہم پر لازم ہے
10 واضح باتیں ہم کو اپنانی ہوں گی
1۔ استغفار کثرت سے
2۔نماز کی ہر حال میں ادائیگی
3۔حرام کھانے سے بچنا
4۔لوگوں کو، گھر والوں کو سب کو پیار سے اللہ کی بڑھائی بیان کرنا، نماز کی طرف لانا، اور ہر جگہ اور روز یہ کام کرنا بہترین انداز میں۔ لوگ ناراض ہوں تو صبر کرنا، سورہ العصر پڑہیے گا
5۔مسجد سے تعلق کو مظبوط کرنا
6۔قرآن اور خاص کر حدیث کی تعلیم روزانہ گھر پر بھی
7۔منافقوں مرتدوں سے دور رہنا ہوگا کیون خۃ انکی باتیں اور صحبت ایمان کا کھا جاتی ہے
8۔صحابہ سے ہٹ کر جو راستہ ہو ، اس سے الگ ہونا ہوگا اور انکو لعن طعن کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے ، اب ایسے لوگوں کا دفع کرنا اور انکے حوالے قوم کا ںصیب کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
9۔اللہ پر ایمان بنانا ، مخلوق اور سامان سے امید ہٹانا
10۔جب قربانی کا وقت آجائے تو صحابہ کی سنت کی پیروی کرنا
انشاءاللہ تحفط ہوگا