ذرائع ابلاغ کا لفظ اس وقت میں صرف اخبار ۔ رسالہ اور ٹی وی چینل کیلئے استعمال کر رہا ہوں ۔ دورِ حاضر میں ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد صرف پیسہ کمانا ہے جس کیلئے سنسی خیز خبریں اور انکشافات ان کا خاصہ ہے ۔ اس مادی دوڑ میں کئی ذرائع ابلاغ مخصوص مالدار اداروں کے مقاصد کو بھی پروان چڑھاتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے کارندے ماسوائے چند کے اپنے کمروں میں بیٹھ کر اِدھر اُدھر سے کوئی بات پکڑتے ہیں اور پھر اس پر ایک کہانی تیار کر لیتے ہیں ۔ یہ کہانی محفوظ کر لی جاتی ہے اور مناسب وقت آنے پر شائع یا نشر کر دی جاتی ہے ۔ انسان جو فطری طور پر جدت پسند واقع ہوا ہے سنسی خیز باتوں کی طرف کھنچتا ہے اور یہی ان ذرائع ابلاغ کی کامیابی کا سبب ہے
اکثر غیرملکی صحافی محنت کر کے کچھ حقائق اکٹھے کرتے ہیں اور ان پر کہانی تیار کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز کے صحافی ماسوائے کچھ سنجیدہ صحافیوں کے اتنے ماہرِ فن ہیں کہ پوری کہانی ہی ازخود تیار کر لیتے ہیں اور ملک میں سازگار ماحول ہونے کی وجہ سے ان کی کہانی وقتی طور پر تہلکا مچا دیتی ہے ۔ انہیں کچھ کہانیاں مخصوص مقاصد براری کیلئے پہنچائی بھی جاتی ہیں جن سے اُن کی جیب گرم ہوتی اسلئے انہیں وہ اپنے نام سے پیش کر دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ ان سب کہانیوں کی کامیابی کی وجہ میرے ہموطنوں کی اکثریت کے دو اہم خوائص ہیں ۔ ایک ۔ تاریخ میں دلچسپی نہیں اسلئے کل کی بات بھی بھول جاتی ہے یا بھُلا دی جاتی ہے ۔ دو ۔ بات آگے بڑھانے کی عادت ہے اس کی تصدیق کی تکلیف گوارا نہیں کرتے
زیرِ نظر حالیہ چند واقعات ہیں ۔ 17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے والا واقعہ چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا سچ انشاء اللہ عدالتِ عظمٰی جلد سامنے لے آئے گی اور سب جان جائیں گے کہ شور غوغا انسانیت پرستی تھی یا اس کا کوئی اور سبب تھا
مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔ صبح سویرے حملے کی خبر ملتے ہی ٹی وی چالو کر دیا ۔ جب ایک چینل پر اشتہار آتے تو دوسرا چینل لگا لیتے ۔ تمام چینلز کی مجموعی خبر یہ تھی کہ چار دہشتگرد پکڑے گئے ۔ ایک زخمی ہو کر بھاگ نکلا اور اس کی تلاش جاری ہے ۔ واقعہ میں 28 افراد جاں بحق ہوئے ۔ بات واضح ہونے پر معلوم ہوا کہ صرف ایک دہشتگرد پکڑا گیا تھا ۔ 8 پولیس والے اور 4 شہری کل بارہ جاں بحق ہوئے ۔ دہشتگر زخمی ہو کر فرار نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا
اسلام آباد ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر کے فاصلہ پر قائم رینجرز کیمپ پر حملہ ہوا ۔ ٹی وی چینلز نے بتایا ۔ دھماکہ کے بعد پولیس اور دہشتگردوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے ۔ 2 دہشتگرد گرفتار ہو گئے ہیں ۔ دہشتگرد ایک مکان میں چھپے ہوئے ہیں ۔ پھر بتایا کہ 11 دہشتگرد گرفتار ہو گئے ہیں ۔ بعد میں واضح ہوا کہ صرف ایک دہشتگرد تھا اور اس نے خودکُش دھماکہ کیا تھا ۔ گولیاں رینجرز نے ردِ عمل کے طور پر چلائی تھیں ۔ ایک آدمی پکڑا تھا اور وہ ایک غریب درزی تھا جو دھماکہ اور گولیوں کی آواز سن کر کہیں چھپ گیا تھا ۔ جب نکلا تو پولیس نے پکڑ لیا
میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے
اجمل صاحب! آجکل تو “خبروں کی بھرمار” کے باعث ابلاغی اداروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے لیکن صد افسوس کہ کڑاہی میں صرف “خبروں کا گھی” ہے، معاشی بحران نے پیسے والا تمام گھی نکال لیا ہے۔
ان چینلوں کو تو صرف “تازہ ترین خبر” چاہیے، چاہے اس کی اوقات ایک کالمی خبر جتنی ہی کیوں نہ ہو۔
ابو شامل صاحب
نجانے ان لوگوں کے کیا ارادے ہیں ۔ بالخصوص جیو ٹی وی پر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ابھی تک اس وڈیو کا کچھ حصہ دکھایا جا رہا ہے
عوام کو نفسیاتی مریض بنانے کی مہم چلانے پر سپریم کورٹ کو ذرائع ابلاغ کے خلاف بھی سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔ کم از کم انہیں کچھ تو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔ تفریحی چینلوں پر ہندی و مغربی تہذیب کے جلوے ہیں اور خبری چینلوں پر رائی کے پہاڑ ۔ خود ساختہ ضابطۂ اخلاق تو چینل لاگو نہیں کر رہے اس لیے عدالت عظمی کو ہی قدم اٹھانا چاہیے۔
لیکن ذرائع ابلاغکی اس ناقص کارکردگی میں کچھ بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہماری بھی ہے کیونکہ اگر خبر ہمارے مطلب کی ہو اور ہمارے موقف کی تائید میں تو ہم اس کے ریفرینس دیتے نہیں تکھتے ای میل پر ای میل اور بلاگ کے ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں جیسا کے آپ نے اپنی ایک پچھلی پوسٹ میں ویڈیو کے حوالے سے لکھا تھا اور اس وقت میڈیا حق پرستی کا ترجمان بن جاتا ہے لیکن جب خبر یا کہانی ہمارے موقف یا ہماری رائے کے برخلاف ہو تو میڈیا کی ناقص کارکردگی کا ذکر ہم زوروشور سے کرتے ہیں اور اسے پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میڈیا مکمل درست ہے۔۔ لیکن اگر ہمیں اس کے طریقئہ کار اور مواد پر مکمل بھروسہ نہیں تو پھر اس پر کسی بھی حالت میں بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے اس وقت بھی جب وہ ہماری اپنی ترنگ میں گیت گارہا ہو۔
راشد کامران صاحب
اگر بُرا آدمی بھی کوئی درست بات کہے تو اُسے اسلئے رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ آدمی بُرا ہے ۔ اور عام طور پر اچھی بات کہنے والا اگر غلط بات کہے تو اُسے اسلئے قبول نہیں کیا جاتا کہ وہ عام طور پر اچھی بات کہتا ہے ۔ رہا اپنا مسلک تو میں نے ہمیشہ سچ کو تلاش کرنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اچھائی اور برائی عمل سے وابستہ ہے کسی کے نام سے نہیں ۔ میں نے اگر وڈیو غلط پیش کی ہے تو بتائیں ۔ میں نے حالیہ وڈیو کو غلط تو نہیں کہا مگر اس کے اس طرح سے اچھالنے کو غلط کہا ہے ۔ کیا بہتر نہیں تھا کہ پہلے یہ وڈیو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیج دی جاتی ۔ اگر وہ کاروائی نہ کرتے تو پھر اسے جتنا چاہتے اچھالتے ؟
ابھی ابھی ایکسپریس چینل دیکھ رہا تھا، اسکے ایک نیوز کاسٹر تو یوںخبر سناتے ہیںجیسے ہاکی کے میچ کی کمنٹری ہوتی ہے، خصوصآ جب کوئی کھلاڑی ڈی میں بال لیکر داخل ہوتا ہے :smile:
نہایت ہی واہیات سٹائل ہے ان صاحب کا۔