رہنما آدھا سچ بولنے کا رجحان رکھتے ہیں اور سچ بولنے سے خوفزدہ ہیں۔ پس پردہ بریفنگ اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں ہر کسی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خرابی کہاں ہے لیکن اپنی عوامی تقاریر میں وہ اپنے حقیقی خیالات بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کنفیوژن بڑھ جاتی ہے اور طالبانائزیشن کا کینسر بڑھتا جارہا ہے جبکہ حکومت مکمل انارکی اور خانہ جنگی کی سی صورتحال سے گریز کے لئے موثر حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ہم اقوام عالم میں ایک اتنا بڑا مذاق بن چکے ہیں کہ آج امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی پاکستان کے عوام سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں تاکہ واشنگٹن کی خواہشات کے مطابق معاشرے میں طالبانائزیشن کا انسداد کیا جاسکے۔ واشنگٹن کے کلنٹنز، ہالبروکس، پیٹرسنز اور مولنز پہلے ہی فیصلہ سازی میں اسلام آباد پر اثر انداز ہورہے ہیں لیکن امریکی وزیر خارجہ کا بیان بہت برے مطالبے کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ پاکستانی عوام اسلام آباد کے خلاف بغاوت کردیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس سے زیادہ بری اور کیا بات ہوسکتی ہے؟
مکمل پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
یہ ڈو مور بوائے کی نئی قسط ہے۔ اپنی بزدلی پہ َُ ُسب سے پہلے پاکستان،،کے کھوکھلے نعرے کا غلاف چڑھانے والوں اور سیاسی طور پہ انک ساتھ دینے والوں پہ پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلا کر قرارِ واقعی سزائیں دی جائیں۔
اور اگر سوات معائدے میں کوئی گڑ بڑ ہے یا کسی کی نیت میں کوئی فتور ہے تو اسے محض اور محض پاکستان کے مفاد میں حل کیا جائے۔
اجمل صاحب آپ تو قومی اور بین الاقوامی خبروں پر مستقل نظر رکھتے ہیں لیکن یہ تو اب کافی لوگوں کے علم میں ہے کہ ایڈوانس میں جب حکومت نے طالبان کے خلاف کاروائی کے پیسے کھرے کر رکھے ہیںتو اس قسم کے مطالبات تو ہوں گے۔۔۔ امریکہ کو اس وقت صرف ایک فکر لاحق ہے وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں۔۔۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شدت پسند امریکہ کے لیے تو بہت بعد کا خطرہ ہوں گے “سب سے پہلے پاکستان” کو خود اپنی فکر کرنی پڑے گی۔۔ امن معاہدے کا تو طالبان نے خود ہی وہ مذاق بنا رکھا ہے کہ دوسرا کوئی فریق کیا کرے گا۔
جاوید گوندل صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ۔ ہر پاکستانی ۔ میرا مطلب ہے مطلب کا پاکستانی نہیں بلکہ اصلی پاکستانی یہی چاہتا ہے ۔ پرویز مشرف جاتے جاتے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا کُلیہ استعمال کر گیا ہے ۔ پاکستانیوں کیلئے یہ وقت اپنی غلطیوں کی توبہ کر کے اپنے اللہ کو راضی کرنے کا ہے پھر اِن شاء اللہ حالات درستگی کی جانب بڑھیں گے ۔
راشد کامران صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ۔ یہ اقتباس میں نے اسی پسِ منظر میں نقل کیا تھا ۔ 1999ء سے اب تک کیا ہو رہا ہے میں کبھی کبھی لکھتا رہا ہوں ۔ اب خیال ہے کہ اس دور کا خلاصہ لکھوں ۔ اِن شاء اللہ جلد ۔ ہو سکتا ہے اُس کے نتیجہ میں کچھ بلاگرز طوفان مچا دیں