میں ثقافت کے متعلق چار مضامین لکھ چکا ہوں ۔ اب حاضر ہے ثقافت کا حال ثقافت سے منسلک ایک نامور شخص کے الفاظ میں
پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد ،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فیض احمد فیض کی سربراہی میں قائم ہوا۔ اسکامقصد پاکستان میں فن اور فنکاروں کی فلاح اور بہبود کیلئے کونسلنگ کرنا تھا۔ ادارے کا مونو مسز ایلس کے کہنے پہ میں نے ڈیزائن کیا ۔ پہلے یہ منسٹری آف ایجوکیشن کے ماتحت تھا، اسکے بعد منسٹری آف کلچر کے تحت ”اپنا کام “کرنے لگا۔فیض صاحب کے جانے کے بعد یہ ادارہ آرٹ اورآرٹسٹوں کی بھلائی کی بجائے وفاقی حکومتوں کا بھرتی دفتر بن گیا ۔
نیشنل کونسل آف آرٹس کے دفاتر پچھلے پینتیس سالوں سے اسلام آباد میں کرائے کے مکانوں میں قائم تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس کا اپنادفتر بنا جو باہر سے اتنا ہی بدنما ہے جتنا اندرسے خوبصورت ہے۔دفتر کی افتتاحی تقریب میں انہی لوگوں کو مدعو کیا گیا جوپرویز مشرف کے منظور نظر تھے۔آرٹس کونسل کی افتتاحی تختی پرویز مشرف کے نام کی بنوائی گئی جسے آنے والے وقت میں یا دور میں ہٹا دیا جائے گا یا اسے چھپا دیا جائے گا۔اچھاتویہ ہوتا اگرافتتاح کسی نامور فنکار سے کرایا جاتا جسے عوام چاہتے ہیں یا جو سیاسی لیڈروں کی طرح متنازع نہیں، تو تختی ہٹانے پہ شرمندگی نہ ہوتی۔
اگر فیض صاحب کے بعد پاکستان نیشنل کونسل سیاسی بھرتی دفتر نہ بنتا تو آج شائد ہم فلم، تھیٹر،موسیقی اور فنون لطیفہ میں زوال پذیر نہ ہوتے۔ہم عدلیہ کو آزاد کرانے کیلئے جلوس تو نکالتے ہیں مگر خود کہیں بھی عدل نہیں کرتے۔یہی وجہ ہمارے معاشرے میں فنون لطیفہ کے فیل ہونے کی ہے۔ ثقافت عوام سے بنتی ہے اور عوام ہی اسے پروان چڑھاتے ہیں۔جس معاشرے میں ثقافت کی منسٹری ہو اورجہاں ایک جنرل ثقافتی ادارے کا افتتاح کرتا ہو وہاں کی ثقافت کاوہی حال ہوگا جو آج کل ہمار ی ثقافت کاہے۔
لوک ورثہ:اسلام آباد میں عکسی مفتی نے اپنے سرکاری ٹورز کیلئے ایک ادارہ بنوایا جسے لوک ورثہ کہا جاتاہے۔ اس دفتر میں بھی ہم نے دس سال کام کیا اور لوک ورثہ میوزیم کی بنیاد ڈالی۔ہم اکثر ان سے کہتے تھے کہ آپ نے دستکاروں کا ساز و سامان تو سجا لیا ہے کبھی انکے دستکاروں کا حال بھی پوچھ لیجئے جوکس مپرسی کی حالت میں برائے نام زندہ ہیں۔ لوک ورثہ بھی سیاسی بھرتی دفتر بنا رہا اور تیس سال تک اس ادارے کا سربراہ ثقافتی ہٹلر بن کے اس پر حکومت کرتا رہااور پھر اسی کے چہیتوں نے اس کا تختہ الٹ کر لوک ورثہ پہ قبضہ کرلیا۔ بقول سرگم، لوک ورثہ عوام کا نہیں بلکہ ادارے کے سربراہ کا ورثہ ہے ۔ اس ورثے میں پچھلے دنوں پرویز مشرف اور انکی بیگم کے بڑے بڑے پورٹریٹ لگے ہوئے تھے جو حکومت کے تبدیل ہوتے ہی ہٹادیئے گئے۔
جب ہم کبھی لوک ورثہ میں تھے تو ایک دن ہمیں منسٹری آف کلچر کے جائنٹ سیکرٹیری کا فون آیا اور ہم سے کہا گیا کہ ہماری فیملی نے لوک ورثہ کی سیر کرنی ہے اسلئے لوک ورثہ کی سرکاری گاڑی بھجوائی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ لوک ورثہ کہاں واقع ہے؟ہم بڑے حیران ہوئے کہ ہمارے ہی محکمے کے افسر اعلیٰ جو کئی سالوں سے اس پہ حکومت کر رہے ہیں انہیں لوک ورثے کا محل وقوع معلوم نہیں۔ ہمارے خیال میں لوک ورثہ کا اصل مقصد غیر ملکی سربراہان کی بیویوں کا سرکاری دورں کے دوران انکا وقت پاس کرانا ہی ہے۔
وفاقی فلم سنسر بورڈ:اسلام آباد میں ایک فلم سنسر بورڈ بھی ہے جو دوسرے ثقافتی اداروں کی طرح سیاسی رشوت دینے کے کام آتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اب برائے نام فلمیں بنتی ہیں لہٰذا فلم سنسر بورڈ کے چیئر مین کا کام ایر کنڈیشنڈ دفتر میں میں بیٹھ کر کافی پینا یا فلمی اداکارؤں سے سرکاری فون پر بات کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ہم چونکہ پاکستانی فلموں پہ تنقید کیا کرتے تھے چنانچہ ہمیں سزا کے طور پہ فلم سنسر بورڈ کا ممبر بنا دیا گیا۔ ہم اب پاکستانی فلموں پہ اتنی ہی تنقید کرتے ہیں جتنی کہ ملک میں فلمیں بنتی ہیں۔ سنسر بورڈ کے پروجیکشن ہال کا وہی حال ہے جو ہماری فلموں کا ہے۔ ہال میں جب کبھی کبھار کوئی فلم آتی تو حال میں سنسر کرنے والے چند وہ لوگ اونگتے نظر آتے جن کا فنون لطیفہ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ ایک بار ہم نے سنسر بورڈ کا ہال فل دیکھا تو پتہ چلا کہ آج انڈین فلم مغل اعظم لگنی ہے جس میں چیئر مین صاحب کے منظور نظر لوگوں کوخاص طور پہ دعوت دی گئی ہے۔
راولپنڈی آرٹس کونسل: فنون لطیفہ کے نام پہ قائم کی گئی یہ کونسل بھی پنجاب حکومت کے ماتھے پہ ایک بدنما داغ ہے۔ اس ادرے پہ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں ایک ہی ڈائریکٹر نے حکومت کی۔ہم بھی اس ادارے کے ڈرامے کے بورڈ ممبر رہے۔اسکا سالانہ بجٹ آرٹ کی ترویج سے زیادہ اسکے انتظامی امور کا ہے۔ سال میں ایک دو عورتوں کی کُکنگ کلاسوں اور تصویری نمائشوں کے علاوہ یہ بھی اپنے نو تعمیر شدہ ڈرامہ ہال کی طرح بنجر ہی رہتی ہے۔اس ادارے میں بھی لوکل فنکاروں کے بجائے ادارے کے ملازمین کی فلاح و بہبود کا کام بڑی محنت اور تسلسل ہوتا ہے۔ ادارے میں ڈائریکٹر تو موجود ہے مگر فنکاروں کی کوئی ڈائریکٹری نہیں ، اگر ہوتی تو ہمارا نام بھی کبھی کسی فنکشن میں مدعو کرنے کیلئے ہوتا۔تو جناب پاکستان نے جتنی ثقافتی ترقی کرنی تھی وہ اسنے ان لوگوں کے دور میں کر لی جن کی پیدائش پاکستان بننے سے پہلے کی ہے۔ 62سالوں میں ہم نے نہ تو یہ فیصلہ کیا کہ ہماری سیاست کیا ہے اور ثقافت کیا ہے؟ ہم گانے والوں کو کنجر مراثی بھی کہتے ہیں اور انہیں پرائڈ آف پرفارمنس بھی دیتے ہیں
تحریر ۔ پُتلی تماشہ کے فاروق قیصر کی