دوسروں کو اپنی غلطی کا بھی قصوروار ٹھہرانا میرے ہموطنوں کی خاصی بڑی تعداد کی صفتِ خاص بن چکی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ہدف مُلّا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ قصور کا تعیّن کرنے کیلئے پہلے مُلّا کی اقسام بیان کرنا ضروری ہیں
پہلی قسم جو ہر جگہ دستیاب ہے یعنی جس نے ڈاڑھی رکھ لی ۔ لوگ ان کو مُلّا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ایک دن اُس کی دنیاوی ہوّس ظاہر ہو جاتی ہے یا جب اُس کا کوئی عمل پسند نہ آئے تو اُس کی عیب جوئی شروع کر دی جاتی ہے اور نام مُلّا کا بدنام ہوتا ہے
دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اُن کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی غرض یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کسی مسجد کا امام بنا دیتے ہیں اور ان کے عمل پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا وقتیکہ وہ کوئی بڑی مُخربِ اخلاق حرکت کر بیٹھے یا اُن کی مرضی کے خلاف کوئی عمل کر بیٹھے
تیسری قسم دین کا عِلم رکھنے والے ہیں جن میں سے کچھ امام مسجد بھی ہیں ۔ ان میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مختلف پیشوں سے منسلک ہے یعنی ان میں سرکاری یا نجی اداروں کے ملازم بھی ہیں ۔ تاجر یا دکاندار بھی اور کچھ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں
درحقیقت متذکرہ بالا تیسری قسم میں سے بھی آخرالذکر اصل مُلّا ہیں ۔ تیسری قسم میں سب کو مُلا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ متذکرہ بالا پہلی دو قسمیں مُلا نہیں ہیں بلکہ وہ مُلا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کو مُلّا نہیں کہنا چاہیئے اور نہ اُن کو امام مسجد جیسا پاک رُتبہ دینا چاہیئے
امام مسجد کا قصور ؟
امام مسجد جس سے عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سے کردار کی توقع رکھنا شروع کر دیتے ہیں اُس بیچارے کی معاشی اور معاشرتی بشمول عِلمی محرومیوں پر لاکھوں میں ایک ہو گا جو نظر ڈالتا ہو گا ۔ میں مسجد مجددیہ ۔ پارک روڈ ۔ ایف 2/8 ۔ اسلام آباد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ یہ مسجد علاقہ کے لوگوں نے تعمیر کروائی ہوئی ہے اور وہی اس کا خرچ چلاتے ہیں لیکن امام مسجد اور مؤذن کا تقرر وزارتِ مذہبی امور کرتی ہے ۔ 1998ء سے اس کے امام محمد فاروق صاحب ہیں ۔ انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دس سالہ قرآن ۔ حدیث ۔ فقہ اور تاریخِ اسلام کا حکومت کا منظور شُدہ کورس کیا ہوا ہے اور راولپنڈی اسلام آباد کے چند مُفتی صاحبان میں سے ہیں ۔ اسی مسجد میں 1998ء تک عبدالعزیز صاحب امام تھے جنہیں والد کے قتل کے بعد مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد کا امام بنا دیا گیا اور لال مسجد پر فوجی کاروائی کے دوران سے اب تک قید میں ہیں ۔ عبدالعزیز صاحب فاروق صاحب سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں
بہت کم مساجد ہیں جن میں پڑھے لکھے امام ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا بہت ہی کم مشاہرہ اور واجب احترام کا نہ ہونا ہے ۔ اسی لئے دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ مسجد کا امام بننا پسند نہیں کرتے اور دوسرے ذرائع معاش اختیار کرتے ہیں ۔ مُفتی محمد فاروق صاحب کو محکمہ کی طرف تنخواہ کا سکیل 10 دیا گیا ہوا ہے اور کُل 6000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ گھر کا خرچ وہ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر پورا کرتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کسی بھی دوسرے مضمون میں 8 سال پڑھائی کرنے والے کیلئے حکومت نے تنخواہ کا سکیل 17 رکھا ہوا ہے ۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سرکاری مسجد ہے مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد جس کے امام کو تنخواہ کا سکیل 12 دیا گیا ہے ۔ سرکاری ریکارڈ میں امام کیلئے خطیب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے
یہ تو اسلام آباد کا حال ہے باقی جگہوں پر حالات دِگرگوں ہیں ۔ اور جس کو دیکھو اُس نے اپنی بندوق کا منہ مُلّا کی طرف کیا ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر بُرائی کسی نہ کسی طرح مُلّا کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قصور وار مُلّا نہیں بلکہ مّلّا کو قصور وار ٹھہرانے والے ہیں
کیا مُلا لوگوں سے زبردستی غلط کام کرواتے ہیں ؟
کیا مسجد میں جانے والوں نے کبھی سوچا کہ جس کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اُس نے دین کی تعلیم حاصل بھی کی ہے یا نہیں ؟
جب مُلا کسی کی دلپسند بات نہ کہے تو مُلا کو بُرا سمجھا جاتا ہے ویسے چاہےمُلا غلط بات یا کام کرتا رہے کسی کو پروہ نہیں ہوتی ۔ لمحہ بھر غور کرنے پر ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قصور مقتدیوں کا ہے امام کا نہیں ۔ ایسے امام کو پسند کیا جاتا ہے جو ہر جائز و ناجائز بات کی اگر حمائت نہیں تو اس پر چشم پوشی کرے
عوامی طرزِ عمل ہر شعبہ میں واضح ہے ۔ سیاسی رہنما چُنتے ہوئے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ پھر مُلا ہو یا سیاسی رہنما اُن کو کوسنا بھی اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ اُن کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اچھی بُری عادات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مُلا ہو یا سیاسی رہنما قوم کی اکثریت کو درست انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا فرض صرف دوسروں کو بُرا کہنا ہے ۔ اسی لئے انتخابات کے دن چھٹی ہونے کے باوجود اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ۔ ایسے لوگوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی اس حرکت کی وجہ سے غلط لوگ مُنتخب ہوتے ہیں جن کو وہ بعد میں کوستے رہتے ہیں ؟
اجمل صاحب۔۔۔ تجزیے سے متفق ہوں۔ صرف ایک بات ہے ، عام طور پرآج کل جب بھی ملا کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے مراد پہلی دو اقسام ہی ہوتی ہیں۔ تیسری قسم کو ہمیشہ عالم دین کہا اور لکھا جاتاا ہے۔ ملا کسی دور میں قابل عزت لقب ہوگا۔ اب تو یہ ایک مخصوص ذہنیت کو ظاہر کرنے والا لفظ بن چکاہے۔
ملا فضلو یا پھجا ڈیزلی پہلی قسم سے تعلق رکھتا ہے یا دوسری؟
میرا خیال ہے اس کے لئے ایک الگ قسم ہونی چاہئے
جعفر صاحب
آپ کی بات درست ہے لیکن صرف معدودے چند لوگوں کو عالمِ دین کہا جا رہا ہے جبکہ ان کی تعداد کافی زیادہ ہے
ڈِفر صاحب
میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس کے باپ کے پیچھے تو میں نماز پڑھتا تھا لیکن اس کے پیچھے اِن شاء اللہ کبھی نہیں پڑھوں گا ۔ اس باتیں سن کر تو میرا دورانِ خون تیز ہو جاتا ہے
اجمل بھای آپ وہ تمام چیزین لکھتے ھین جو مین بھی لکھنا چاہتا ھون۔ مگر آپ ماشا اللھ بھتر لکھتے ھین سو مجھے صرف تائید کرنی ھے
علامہ اقبال رح نے بھی “دو رکعت کے امام”کہ کرکچھ امام مسجد کی ھیٹی کی ھے
قوم کیا چیز ھے قومون کی امامت کیا ھے
اس کو کیا جانین یہ بیچارے دو رکعت کے امام
یقینا” انہون نے پہلی قسم کے متعلق کہا ہے
خیر مین یھ کہنا چاھتا تھا کہ باوجود ان سب باتون کے انہین کم علم امامون نے اسلام کو انگریزون کے زمانے مین بچائے رکھا ہے تو کسی حد تک ھمین انکا شکر گزار ھونا چاھیے۔ میری سوچ اب اس عمر مین مختلف ھو گئی ہے ٹایٹل کے متعلق جعفر صاحب کی بات درست لگتی ہے اسے غلط العام کہ لیجیئے جیسا کہ آپ بھی جانتے ھین کہ آجکل “گے” انگریزی مین مختلف معنی اختیار کر گیا ھے
دراصل چونکہ پہلی دونوں اقسام کی جنس دنیا میںزیادہ پائی جاتی ہے اس لیے اس نے تیسری اقلیتی قسم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بات آک کی درست ہے مگر اکثریت کی وجہ سے اقلیت اپنا اثر کھو چکی ہے۔
افضل صاحب
اقلیت اپنا اثر کھو چکی ہے ۔ کو میں اس طرح کہوں گا کہ فرنگی کے قائم کردہ اصول کہ ۔ اکثریت حق پر ہوتی ہے ۔ کے زیرِ اثر بے عمل مسلمان بھی اِس عمدہ اقلیت کو پسند نہیں کرتے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انجیل میں بھی تحریر ہے کہ دنیا میں اکثریت بُرے لوگوں کی ہو گی
میں آپ کے تجزیے سے تقریبا متفق ہوں جس طرح ہم لوگ فوج کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد پوری فوج نہی ہوتی بلکہ اسے چلانے والی فوجی بیوروکریسی کی بات کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملا کا لفظ کسی صورت بھی کسی صاحب علم کی تحقیر کے لیے نہیں بلکہ ان دو اقسام کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے جن کا تحریر میں ذکر ہے۔ آخری الذکر قسم اس لیے ان دونوں کے ساتھ ساتھ نشانہ بنتی ہے کہ اب تک واضح طور پر انہوں نے اپنے علمی اور فقہی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اول الذکر اقسام کے ملاؤں سے مکمل قطع تعلق نہیں کیا ہے۔ اگر یہ تمام علمائے دین پاکستانیوںکو خصوصاَ اور تمام مسلمانوں کو عموماَ ایک واضح حد فراہم کردیں کہ اسلام کی آڑ میں کیا کیا مذموم کام کیے جارہے ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جیسے بے گناہوں کو ہلاک کرنا، عوامی مقامات پر خود کش بم حملے کرنا، نہتے مسلمانوں اور غیر مسلموں سے مسلح تصادم اور اسلام کی آڑ میں شر پسندی وغیرہ تو ملا کے لفظکی تکریم خود بحال ہوجائے گی۔ لیکن جب تک علماء حضرات عوام کو ابہام میں مبتلا رکھیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
راشد کامران صاحب
آپ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اول الذکر اقسام کے ملاؤں سے مکمل قطع تعلق نہیں کیا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ دوسری قسم والے اصلی مُلا کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع فروگذاشت نہیں کرتے ۔ اگر شک ہو تو کسی سے مودودی ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ۔ ڈاکٹر اسرار ۔ عبدالعزیز صاحبان کے متعلق پوچھ کر دیکھ لیجئے ۔ ایک اور بات کہ کچھ پڑھ کر بھی غلط راستہ پر چل نکلے ہیں ۔
پاکستان میں جو خودکش حملے ہو رہے ہی ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ایک ادلے کا بدلہ اور دوسرا کہ ان کے پیچھے کوئی بہت بڑی سازش ہے ۔ یہ نام نہاد طالبان ہی کر رہے ہوں گے لیکن ان کو روپیہ ۔ اسلحہ اور تربیت کوئی غیر ملک دے رہا ہے